سید قمر احمد سبزواریؔ
آج کے مسلمانوں میں گروہ بندی اور فرقہ واریت ایک نئے رحجان میں داخل ہو
گئی ہے ایک جانب عوام میں، شیعہ سنی، بریلوی ، دیوبندی کا جھگڑا اور ان سے
ذرا آگے خواص میں ملائیت ، این جی اوز کی سرد جنگ اور دوسری جانب اپوزیشن
اور حکومت کے درمیان کھینچا تانی سے اسلام کا دامن تار تار ہو رہا ہے۔ ان
سب حالات کو دیکھیں تو یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ یہ وہی صورت حال ہے، جو
صدیوں قبل یورپ میں مذہب اور نظریہ ارتقاء کے درمیان کلیسا اور ـتحریک
احیائے علومـ کے فکری تصادم سے پیدا ہوئی اور اس کا فائدہ ’’عالمی صیہونی
تحریک ‘‘نے اٹھایا۔ جس کے نتیجے میں مذہب کو معاشیات اجتماعیات اور سیاست
سے الگ کیا لیکن بعض شخصی معاملات میں مذہبی ضابطوں کو اپنانے کا نظریہ
ایجاد کرکے مسیحی قوم میں لادینیت (Secularism) کو جنم دیا۔
اب بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ کہ لادینیت (Secularim) نام نہاد عالمی
دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں دین اسلام کو کلیسائی طرز کا لبادہ اُڑھا کر
دنیا کے سامنے پیش کردیا گیااور دنیا کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ دین
اسلام بھی کلیسائی مفہوم ہی کی طرح کا ملائیت والا مذہب ہے۔ جو انتہا پسندی
کی حدود کو پار کرتا ہے۔ چنائچہ عالمی امن کے قیام کیلئے یہ ضروری ہے کہ
اسلامی ،دینی و مذہبی روح کو مسیحیت کی طرح ریاستی حکومت (نظام سلطنت) سے
بے دخل کر دیا جائے تاکہ دین اسلام بھی مساجد تک محدود ہو کر رہ جائے۔
نائن الیون کے واقعات کی آڑ میں’’ ـعالمی صیہونی تحریک‘‘ـ اسلام کو بدنام
کرنے کی تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور ـانسانی معاشریـ سے اسلامی
روح کو بے دخل کرنے کی مذموم سازش کر رہی ہے۔
روح کے خاتمے سے اسلام پرتو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اسلام تو اسی جگہ
موجود ہوگا۔ جہاں اسلامی روح ہوگی۔ لیکن مسلم معاشرہ اسے برائے نام ساتھ
چمٹائے ہوئے ہے۔ یہ بات بالکل ایسے ہے۔ کہ جیسے روح کے بغیر جسم، جو مردہ
ہے اور دنیا کیلئے ایک بیکار شے ہے اور یہ ہی خود فریبی کی انتہا ہے۔ جس
میں آجکل ہم مبتلا ہیں۔ اگر ہمارے ارباب حل و عقد چاہے سرکاری ہوں یا غیر
سرکاری یا دین کے ٹھیکیدار اب بھی نہ سنبھل پائے اور حرص و ہوس کی آگ سے
جدا نہ ہوئے۔ تو پھر یہی ـعالمی صیہونیتـ مسیحیت کی طرح اسلام کو بدنام
کرکے مسلمانوں کی زندگیوں سے اسلامی روح نکال دے گی اور کوئی طاقت بھی اس
کے آڑے نہیں آ سکے گی اور مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ سے تنگ تر ہو
جائے گا۔
الحمد اللہ اس جدید عالمی صیہونی سازش سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت صرف
اور صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود ہے۔ لیکن ہمارے اپنوں کا جبر اس
ٹیلنٹ کو ضائع کر رہا ہے۔ کہیں کل ایسا نہ ہو کہ ہم بے ضمیری کے بوجھ تلے
پچھتاتے رہیں۔ اور وقت گزر جائے۔ اس سے پہلے کہ یہودیت ہماری کوتاہ بینی کی
بنا پر (ـمسیحی جہالتـ کی طرح) اسلام کی اصلی روح کو ـانسانی معاشرہـ سے بے
دخل کردے ہمیں اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہو جانا چاہیے اور آج کے
مسلمان کو اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہیے تاکہ ـامت مسلمـ عالمی صیہونی
تحریکـ کے اس تازہ ترین حملے کا دفاع کرے اس سازش کو ناکام بنا نے کیلئے
ہمیں اپنے اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ اور کردار کی درستگی کی جانب
لوٹنا چاہیے۔
ملک عزیز پاکستان جو اس وقت اسلام کی اصل روح کا مسکن ہے۔ اس ملک سے اسلامی
روح کو ختم کرنے اور مذہب اور دین اسلام کو دو علیحدہ علیحدہ حصوں بخروں
میں بانٹنے اور دین اسلام کی جگہ لادینیت (Securlarism) اور صرف نام کے
ـاسلامی معاشرہـ کے قیام کی یہودونصاریٰ کی یہ سازش 21 ویں صدی کی پہلی
(اور ہمارے خیال میں آخری بھی) ، تازہ تریں حملے کی صورت میں ظاہر ہو چکی
ہے۔ اس سازش کا قلع قمع کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اقتدار کے ایوان میں
براجمان حضرات سمیت ہر مکتبہ ء فکر کو انتہائی سنجیدگی سے اس بارے میں
لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ ہمیں اپنے جذبہء ایمانی پر غور کرنا چاہیے اور
مسلمانوں میں ـذہنی انقلابـ لانے کیلئے اور اسلام کی اصل روح کے تحفظ کیلئے
اوراپنی زندگیوں میں عملاً اپنانا ضروری ہے۔ تاکہ عالمی صیہونی تحریکـ کا
مقابلہ کیا جا سکے۔ دانشورانِ قوم اور درد مند قلم کار حضرات کو اس معاملے
میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔
لادینیت اور جدید مغربی نظریات سے پیچھا چھڑا کر اسلامی تصوارت کو پھیلانے
میں خود کو کمر بستہ کر لینا چاہیئے۔ اور مغربی دانشوروں کے بے سروپا
نظریات کا بھر پور جواب دینا چاہیئے۔ اور اسلام کا مقدمہ بھرپور انداز سے
لڑنا چاہیئے۔ تاکہ یہودیت کے اس نئے جال یعنی عالمی دہشت گردوں کے خلاف
بننے والا عالمی اتحاد جو صرف اور صرف عالم اسلام کے خلاف معرض وجود میں
آیا ہے۔ اس اتحاد کو توڑا جا سکے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم صرف اور صرف
آقائے دوجہاں ﷺ کی آغوش میں پناہ لے لیں۔ اور آپ ﷺ ہی کا نظام اپنی
زندگیوں اور ملک عزیز میں نافذ کر لیں تو ایسے نام نہاد اتحاد خس و خاشاک
کی طرح بہ جائیں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی ناصر
|