سید قمر احمد سبزواری
دُنیا میں دو ہی نظریاتی ریاستیں ہیں ایک رحمانی اور دوسری شیطانی ،رحمانی
ریاست پاکستان ہے جو اَمرِ الٰہی اور تائید مصطفیٰ ﷺ کی بدولت مسلمانان ہند
کی قربانیوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آئی اسے مدینہ
ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔جبکہ دوسری ریاست اسرائیل ہے جو شیطانی اور دجالی
قوتوں کی مرہون منّت ہے ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی
دشمنان اسلام کی سازشیں جاری ہیں اور ارض پاک میں نظام مصطفیٰ کی جگہ مغربی
جمہوریت متعارف کروا دی گئی اور مسلمانان پاکستان کو جمہوریت کا بت پوجنے
پر لگا دیا گیا اسلامی قانون کی بجائے انگریز کا غلامانہ قانون رائج ہے
۔اور موجودہ نئی حکومت جو نام نہاد جمہوریت کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے اس
کے رہنمائوں نے تو حد کر دی آتے ہی بڑی ڈھٹائی سے قادیانی اور یہودی
ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا ۔آسیہ ملعونہ جس نے گستا خی رسول کی تھی
اور اپنے جرم کا اعتراف کیا جس کے نتیجے میں سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی
اور لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو بر قرار رکھا ۔پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے
حکومتی اور بیرونی دبائو میں اس کی رہائی کا پروانہ جاری کر دیا اورجان
بوجھ کر یہ فیصلہ عین 31 اکتوبر کو سنایا جو شہید ناموس رسالت غازی علم دین
شہید کا یوم شہادت ہے۔آسیہ ملعونہ کے فیصلے سے ویٹیکن کو خوش کیا گیا اور
لعنت کا طوق اپنے گلے ڈال لیا گیا ۔کیونکہ آسیہ ملعونہ کو اکتوبر 2017ء
میں سخاروف ایوارڈ کیلئے منتخب کیا گیا تھا یہ ایوارڈ آزادئ اظہار رائے پر
دیا جاتا ہے اسطرح آسیہ ملعونہ کی صورت میں ہم نے ایک اور ملالہ دشمنان
اسلام کو دیدی ہے جو رہائی کے بعدپوری دنیا میں جاکر اسلام اور توہین رسالت
قانون کیخلاف تقریریں کر تی پھرے گی ۔اس فیصلے کے پس منظر پر نظر ڈالی تو
واضع ہو گیا کہ 22 جنوری 2018ء کے انگریزی روزنامہ ڈیلی بزنس ریکارڈر میں
یہ خبر تھی کہ آئی ایم ایف نے قرضہ کو آسیہ ملعونہ کی رہائی سے مشروط کیا
تھا ۔فیصلے سے 20 روز پہلے وزیر اعظم سے آسیہ ملعونہ کا وکیل اور پاکستان
کے عیسائی فرقوں کے نمائندہ وفد نے ملاقات کی اس ملاقات کا کیا مقصد تھا یہ
بھی کھل کر سامنے آگیا ہے ۔27 اکتوبر 2018ء کو ایک مبیّنہ اسرائیلی طیارے
کا سلام آباد ائیر پورٹ پر لینڈ کرنا اور 10 گھنٹے بعد اڑان بھرنا کس لیے
تھا ؟۔مولانا سمیع الحق کی 2 نومبر2018ء کی صبح حکو مت کیخلاف تقریر اور
آسیہ ملعونہ کی رہائی پرحکومت اور عدلیہ کی مذمت اور شام کو ان کا بہیمانہ
قتل بھی سب کچھ کہہ رہا ہے ۔تحریک لبیک کی قیادت کو پابند سلاسل کرکے ناموس
رسالت کے ہزاروں پروانوں کی گرفتاری ،اذیتیں دینا اور ایک عالم دین مولانا
یو سف قادری کی زیر حراست موت سب کچھ کھل کر واضح کر رہی ہے کہ کیا ہونے جا
رہا ہے ۔ پاکستان کی ؑعدالت سے تو یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق
ہی بازی لے گئی جس نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شان میں
گستاخی آزادیٴ اظہار نہیں کیونکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی اورامن خطرے میں
پڑسکتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یورپی یونین کی عدالت برائے
انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے حضورنبی کریمﷺ کے لیے توہین آمیزکلمات
کہنے والی آسٹریا کی ای ایس نامی خاتون کے خلاف سزا کے فیصلے میں کہا ہے
کہ پیغمبراسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کو آزادیٴ اظہار قرار نہیں دیا
جاسکتا، یہ گستاخی تعصب میں اضافے کی وجہ بن سکتی ہے جس کے باعث بین
المذاہب امن بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ یورپی عدالت نے فیصلہ بھی دیا کہ
یورپی یونین کے چارٹربرائے انسانی حقوق کی شق نمبر 10 کے تحت اس خاتون کے
انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالت نے خاتون کوسزا دیتے وقت
ان کے حقِ آزادیٴ اظہاراوردوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کے حق میں بڑی
احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے جب کہ یہ فیصلہ مذہبی امن و امان برقرار
رکھنے کا مقصد بھی جائز طور پر پورا کرتا ہے۔کیا یہ ہماری آنکھیں کھولنے
کیلئے کا فی نہیں۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی رکن ایم این اے عاصمہ حدید کی ڈھٹائی کیساتھ
اسر ائیل کے حق میں قرار داد پیش کر نا اور قرآنی آیات کی غلط تشریح کر
کے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دینا ۔وزیر اعظم کا ریاست مدینہ کا راگ
الاپ کر پس پردہ یہود ونساریٰ کی خوشنودی اور قادیانی مشیر رکھنا سب واضح
کر رہا ہے کہ دینی قوتوں پر پابندیاں لگا کر انہیں جدو جہد تحفظ نامو س
رسالت سے روکا جا سکے ۔ کرتار پور بارڈر کا کھولنا سکھوں سے زیادہ
قادیانیوں کو سہولیات بہم پہنچانا ہے کیونکہ کرتار پور سے قادیان صرف 44
کلو میٹر کی دوری پر ہے ۔حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پوری
قوم یک جان و یک قلب ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ کسی بھی مسلک کا کوئی
بھی مسلمان اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پہ کٹ مرنے کو سب سے
بڑی سعادت سمجھتا ہے ۔ہاں مگر یاد آیا حکومت وقت اور منصف اعلیٰ یہ بھی
یاد رکھیں کہ ایک اور عدالت بھی ہے جہاں ہم سب کو حاضر ہونا ہے ، اور وہاں
انصاف سے کم کوئی معیار نہیں ۔ ایسا شرمناک فیصلہ دینے والوں کو کل اس
عدالت میں پیش ہونا ہے ، اور کہیں ایسا نہ ہو ان کا یہ فیصلہ کل اللہ تعالی
کی عدالت میں انہیں رسوا و شرمسار کردے ۔حکمرانو! یاد رکھو !
اس عدالت سے اس عدالت تک کا سفر کچھ زیادہ طویل نہیں ہے ۔
میرا وطن دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ الیکشن دکھاوا تھا۔ ایجنڈہ بیرونی
ہے۔مسلمانان پاکستان کیلئے یہ وقتِ دعا ہے اور زیادہ سے زیادہ درود شریف
پڑھنے کا وقت ہے۔
اے خاصئہ خاصان رُسل وقت دُعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے |