اللہ رب العزت مالک ارض و سماء کا یہ خاص کرم اولاد آدم
پر ہے کہ انہیں اپنی پیدا کردہ تمام مخلوق پر برتری اور افضلیت عطا فرمائی
اور ان کے اندر ایسی صلاحیتیں و قابلیت رکھی کہ جن سے تسخیر عالم کرسکیں ،انسانی
شرافت اور بزرگی کواس طرح بھی بتایاگیا ہے چنانچہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ
السلام کی تخلیق کا واقعہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب میں موجود ہے
پھر بنی آدم کی پیدائش کا مقصد بھی قرآن مجید میں موجود ہے ۔تمام مخلوقات
میں انسان سب سے مکرم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ
اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِنَ
الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلیٰ کَثِیْرٍمِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً
(القراٰن ،سورہ بنی اسرائیل-۱۷، آیت نمبر ۷۰)(ترجمہ)اور بے شک ہم نے اولاد
آدم کو عزت دی اور ان کی خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں
روزی دیں اور ان کو اپنی مخلوق سے افضل کیا(کنزالایمان)،اور ہم نے انسانوں
کو عزت و کرامت کا تاج پہنایااور بحر و بر میں اسے غلبہ دیا ۔اور انسانی
صورت کو حسن و جمال سے آراستہ کیا قرآن مجید میں ہے خَلَقَ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُم ْوَاِلَیْہِ
الْمَصِیْرُ(القراٰن:سورہ التغابن-۶۴، آیت نمبر ۳)(ترجمہ)اس نے آسمان اور
زمین حق کے ساتھ بنائے اور تمہاری اچھی صورت بنائی اور اسی کی طرف پھرنا
ہے۔انسان رب کائنات کی سب سے خوبصورت مخلوق ہے،سب حیوانوں سے برتر و افضل
ہے اسی لیے مذہب اسلام نے انسانوں کو عظمت سے سرفراز کیا اسلام ہی رب
کائنات کا سچا دین ہے جو اپنی حقیقی شکل میں آج بھی موجود ہے اور قیامت تک
رہے گا۔اور اس کے قوانین واصول اسی خالق و مالک کی طرف سے ہیں جس نے انسان
اور تمام کائنات کو پیدا فرمایا۔ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ رب العالمین کا
آخری دین ہے۔اللہ رب العزت اسے پسند فرماتا ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ
اللّٰہِ الْاِسْلَامْ ۔ترجمہ: بے شک ا للہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔ دین
اسلام کامل بھی ہے۔ انسانی زندگی کی تمام ضرورتوں کی تکمیل اسلام میں ہے۔
اسلام کی فطرت میں سلامتی اور صلح کا جوہر موجود ہے۔ نابرابری ، خوف و دہشت
کو ختم کرنے کے لئے مذہب ِ اسلام آیا۔ انسان قابلِ احترام ہے۔ انسانیت کے
ناطے ہر آدمی کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں اور ہر آدمی ایک دوسرے کے لئے
قابلِ احترام اور لائقِ عزت ہے۔ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہیں اور تمام
مخلوق میں خدا کا سب سے زیادہ وہ پیارا ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع
پہنچائے۔ (طبرانی جلد۳، صفحہ ۶۵، مطبوعہ قاہرہ) فرمایا رسول اللہ ﷺ نے :
الناس کلھم عیال ۔ سارے لوگ ایک کنبہ ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب العتق، صفحہ
۶۱۶، اسلام اور امن عالم صفحہ ۱۹، ۳۴) بلاوجہ کسی انسان کو تکلیف نہ دی
جائے گی اور کسی کی جان ومال کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔ کسی شرعی جواز
کے بغیر کسی سے سخت کلامی، ترش روئی نہیں کی جائے گی۔ شرعی سزاؤں یا جنگوں
کے جواز کے سوا کسی حال میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی۔ انسانوں پر
رحم و مروت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم اسلام دیتاہے۔ اسلام میں تعصب و تشدد
نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: جو بلا وجہ جنگ کرے اور تعصب کی
جانب بلائے یا تعصب کی بنیاد پر غصہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔(سنن ابن
ماجہ جلد۲،صفحہ ۴۷۲) ابن ماجہ کتاب الفتن میں ہے ،حضرت فسیلہ اپنے والد سے
روایت کرتی ہیں۔ ان کے والد نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا :یا رسول اللہ !کیا
اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی تعصب ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، بلکہ ظلم میں
اپنی قوم کی مدد کرنا تعصب ہے۔ ان فرامینِ مصطفوی نے اسلامی معاشرہ سے فاسد
اور جاہل تعصب کو باطل قرار دیا ۔ بیسویں صدی میں اقوام متحدہ (uno) نے
اسلامی اثرات کے تحت جن قوانین کو بنایا وہ تو اسلام نے چودہ سو سال پہلے
ہی مرتب کر دیا تھا اور نہ صرف مرتب کیا بلکہ نافذ کرکے ایک دو ر کو تاریخ
عالم کا حقیقی پر امن دور ثابت بھی کر دیا۔ اسلام نے ہی نفرت بھری دنیا میں
امن و سلامتی کے پیغام کو عام کیا۔ دورِ حاضر کے ذرائع ابلاغ (media) دہشت
گردی کا لفظ بہ کثرت استعمال کررہے ہیں۔ مغربی میڈیا اور اسلام دشمن نظریات
والی تنظیمیں اور بعض سیاسی عناصر پوری طاقت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں کہ (نعو ذ باللہ ) دہشت گردی کا رشتہ اسلام سے ہے۔پوری طاقت جھونک
دی ہے اس پروپیگنڈہ(propaganda) کو پھیلانے میں ۔ جبکہ تشدد ، قتل و
غارتگری اوراسلام میں آگ پانی جیسا بیر اور دوری ہے ۔ جہاں تشدد ہو وہاں
اسلام کا تصور نہیںکیا جا سکتا ہے۔ جہاں اسلام ہو وہاں تشدد نہیں ہوسکتا۔
اسلام امن و سلامتی کا سر چشمہ اور انسانوں کے مابین محبت اور خیر سگالی کو
فروغ دینے والا مذہب ہے۔ خود رب کریم اس بابت ارشاد فرماتا ہے:یَااَیُّھَا
لَّذِیْنَ آمَنُوا ْاُ دْ خُلُوْفِی السِّلْمِ کَافَّۃً وَلَا
تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ شَّیْطٰنِ اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوُّ مُّبِیْنْ۔ترجمہ:
اے ایمان والو، اسلام میں پورے داخل ہواور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ بے شک
وہ تمہار کھلا دشمن ہے۔ (القرآن، سورۃ البقرہ، آیت ۲۰۸)دوسری جگہ اس طرح
حکم دیتاہے۔وَلَا تُفْسِدُوْفِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا۔ترجمہ: اور
زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اس کے سنوارنے کے بعد(القرآن سورۃ الاعراف ،
آیت ۵۶،کنزالایمان)یعنی حضور نبی کریم ﷺ کی برکت سے زمین میں ایمان و تقویٰ
عدل و انصاف قائم ہوگیا تو تم کفر و شرک اور ظلم و ستم نہ کرو۔معلوم ہوا
اگرچہ فساد پھیلا نا بہر حال برا ہے۔ مگر جہاں اصلاح ہوچکی ہووہاں فساد
پھیلانا زیادہ برا ہے۔
فساد پھیلانا قتل و غارتگری کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے:
تشدد کا خمیر ظلم و جبر ناانصافی کے وحشت سے اٹھتا ہے اور خون ریزی ، قتل و
غارتگری سے اس کی کھیتی سیراب و لہلہاتی ہے اور اس کے چیمپین یہودو نصاریٰ
ہیں جنھوں نے اپنے نبیوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ہمیشہ قتل و غارتگری کا بازار
گرم کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے امن کے نام پر پوری دنیا
میں دادا گیری کررہے ہیں۔ لیبیا، عراق، شام سے لے کر افغانستان تک معصوموں
پر بمباری کرنا ،اسپتالوں ، شادی کی محفلوں اور اسکولوں میں لاکھوں لوگوں
کو دردناک موت کی نیند سلا دینااور الٹا پروپیگنڈہ کرنا کہ دہشت گردوں کو
مار رہے ہیں۔ ان یہودو نصاریٰ کے قتل و غارتگری کے بہت سے واقعات تاریخ
میںموجود ہیں۔ قارئین کرام ملاحظہ فرمائیںقرآن و احادیث سے ان کی
کارستانیاں۔ ابی ابن حاتم سلسلہ سند حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ
سے نقل کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بنی اسرائیل نے ایک دن میں ۴۳
نبیوں اور ۱۷۰؍ نیک لوگوں کو قتل کر دیا جو ان کو امر بالمعروف (نیکی کی
دعوت اوربرائی سے روکنے کا کام) کیا کرتے تھے۔ وہیں وہب بن منبہ کی ایک
روایت ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کردیاتو اس کے
بعد آپ کے والد بزرگوار حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کرنے دوڑے ۔حضرت
زکریا علیہ السلام دوڑ کر ایک درخت کے شگاف میں گھس گئے۔ یہودی تعاقب کررہے
تھے ۔ شیطان نے بتا دیا یہاں چھپے ہیں۔ یہودیوں نے درخت پر آرا چلادیا۔
درخت کے ساتھ حضرت زکریا علیہ السلام کے بھی دو ٹکڑے ہوگئے۔(حضرت زکریا
علیہ السلام نے آہ بھری ،اللہ نے فرمایا آہ بھروگے تو صالحین میں سے نام
کٹ جائے گا،لہٰذا آپ چپ ہوگئے) یہ ہے یہودو نصاریٰ کا ظلم و تشدد ،قتل و
غارتگری کہ اپنے نبیوں تک کو قتل کیا تو ان کو بوڑھوں ،بچوں، بیوہ عورتوں
کی آہ سے کیامطلب ۔ یہ جھوٹے اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ امن کے نام
پر تیل کی دولت، معدنیات کی دولت پر قبضہ کرو خونریزی کا بازار گرم کرو اور
میڈیا کے ذریعہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے پر عمل کرکے اسلام کو ،مسلمانوں
کو بدنام کرو پر عمل کر رہے ہیں۔ یہی کام ہمارے ملک کی میڈیا اسلام دشمن
جماعتیں آرایس ایس، عیسائی مشنریاں وغیرہ وغیرہ کر رہی ہیں ۔افسوس اس بات
پر ہے آج ہماری نوجوان نسل کو اسلامی تعلیمات کی جانکاری نہ ہونے کے برابر
ہے۔وہ لوگ بھی اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے
خوب زور و شور سے اس کا جواب دیا جائے ۔ہندی انگریزی میڈیا میں اس کا جواب
ضروری ہے اہل ِ علم سے اس پر توجہ اور کچھ کرنے کی گزارش ہے۔ اسلام میں تو
ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کو بچانا بتایا گیا ہے۔ارشاد باری
تعالیٰ ہے۔ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکْ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ اَنَّہٗ
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام ّبِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَا
اَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَا ہَا فَکَاَ
نَّمَااَحْیَا لنَّاسَ جَمِیْعًاطوَلَقَدْ جَائَ تْھُمْ رُسُلُنَا
بِاالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرُ مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی
الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنْ۔ترجمہ: اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا
کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا
اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو بچایا (جلایا) اس نے سب
لوگوں کو جلایا اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے
پھر بے شک ان میں بہت اس کے بعد زیادتی کرنے والے ہیں۔(القرآن سورۃ
مائدہ،آیت ۳۱۔۳۲کنزالایمان)معلوم ہوا کہ جو سزا ایک قتل کی ہے وہ بہت سے
قتلوں کی ہے۔ یعنی دوزخ اور غضب الٰہی موت سے بچایا بھوک سے مر رہا تھا
کوئی مار رہا تھابچا لیاسب صورتوں میں ثواب ہے ۔نبیوں کی اولاد کا گناہ
دوسروں کے گناہوں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ یہاں بنی اسرائیل پر خصوصیت سے
عتاب ہوا۔ (تفسیر نو ر العرفان صفحہ۱۷۸،مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ
الرحمتہ) بنی اسرائیل میں بہت سے ناحق قتل ہوئے۔ انبیاء کرام کو شہید کیا ۔
دنیا میں پہلا فساد بنی اسرائیل میں عورت کی وجہ کر ہوا۔ قابیل نے ہابیل کا
سر ایک پتھر پر رکھا اور دوسرے پتھر سے کچل دیا اور اسے یہ طریقہ شیطان نے
بتایا تھا اور سب سے پہلے قتل کا جرم انسان نے ہی کیا اور وہ قتل بھی عورت
کی وجہ کر ہوا۔
جھگڑے کی بنیاد تین ! ٭ زن ہے زر ہے اور زمین
بنی اسرائیل کے مشہور انبیاء کرام حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت زکریا علیہ
السلام کے بیٹے ہیں۔ قرآن کریم میں سورہ آل عمران ، سورہ انعام، سورہ
مریم ، سورہ انبیاء میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے حضرت یحییٰ
علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ مؤرخ ابن عساکر اور حافظ ابن کثیر نے اپنی
اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس واقعہ کو نقل فرمایا ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ و وعظ میں ہزاروں سے زیادہ لوگ
حاضر ہوتے۔اس دور کا بادشاہ ہیرودیسس نہایت بدکار اور ظالم تھا اس کو ڈر
پیدا ہو اکہ میری بادشاہت کہیں چھن نہ جائے بادشاہ کی محبوبہ آپ سے جلتی
تھی اس کی بیٹی بادشاہ کے دربار میں ناچ رہی تھی، بادشاہ مست ہوگیا خوش
ہوکر کہا کیا چاہئے بادشاہ کی محبوبہ نے بیٹی کو اشارہ میں کہہ دیاحضرت
یحییٰ علیہ السلام کا سر چاہئے بادشاہ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر کٹا
کر منگوایا اور ایک تھال میں رکھ کر رقاصہ (ناچنے والی) کو پیش کیا یہ
واقعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے ایک سال بعد
۳۰ء میں پیش آیا۔(تاریخ طبری جلد ۲،صفحہ ۴۵) ایک قول یہ بھی ہے کہ بیت
المقدس میں ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان یہ واقعہ ہوا۔ سفیان ثوری رحمتہ
اللہ علیہ نے ثمر بن عطیہ سے نقل کیا ہے اس جگہ ستر انبیاء شہید کئے
گئے۔(تاریخ ابن کثیر جلد ۲، صفحہ ۵۰) حافظ ابن عساکر نے ولید بن مسلم کی
سند سے نقل کیا ہے کہ زید بن واقد کہتے ہیں کہ دمشق میں عمودسکہ کے نیچے
ایک مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا جارہا تھا تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے
دیکھا کہ مشرق کی محراب کے قریب ایک ستون کی کھدائی میں حضرت یحییٰ علیہ
السلام کا سر مبارک برآمد ہوا چہرہ اور بالوں تک میں کوئی تغیر نہیں آیا
تھا اور خون آلود ویسا ہی تھا گویا ابھی ابھی کاٹا گیا ہو۔(تاریخ ابن کثیر
جلد ۲، صفحہ ۵۵، حج میگزین ممبئی ،جون ۲۰۱۵) قرآن کریم نے متعدد جگہ اس
بات کو دہرایا ہے کہ یہود نے قتل و غارتگری کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اپنے
نبیوں کو بھی قتل کئے بغیر نہ چھوڑاقرآن نے ان کو دردناک عذاب کی خبر دی
ہے ۔ ترجمہ: وہ جو اللہ کی آیتوں سے منکر ہوتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید
کرتے اور انصاف کا حکم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں انہیں خوشخبری دو دردناک
عذاب کی۔(القرآن سورہ آل عمران ، آیت ۲۱) یہی وطیرہ قتل و غارتگری آج
بھی اپنائے ہوئے ہیں اور بدنام مسلمانوں کو اور اسلام کو کررہے ہیں یہ ہے
جھوٹے پرپیگنڈے کا کمال۔
دنیا کے سبھی ادیان و مذاہب میں انسانی جان کے احترام ، وقار اور امن و
سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کو اولیت دی ہے ۔ ولیکن الحمدللہ! اس
سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَلَا
تَقْتُلُو النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِاالْحَقِّ ذٰلِکُمْ
وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنْ۔ترجمہ: اور جس کا خون کرنا اللہ
نے حرام کر دیا ہے اس کو قتل مت کرو،ہاں مگر حق کے ساتھ ان کا تم کو تاکیدی
حکم دیا ہے تاکہ سمجھو(القرآن سورہ الانعام، آیت ۱۵۱)ان واضح اسلامی
تعلیمات کے فیض سے دنیا میں انسانی جان کے تحفظ کے حیرت انگیز نتائج سامنے
آئے۔ ایک مختصر مدت میں عرب جیسی خونخوار قوم تہذیب و شرافت کے سانچے میں
ڈھل گئی اور احترام انسانیت و امن و سلامتی کی علمبردار ہوکر دنیا کے گوشے
گوشے میں پھیل گئی جس کا نقشہ خود قرآن کریم نے کچھ اس طرح کھینچا ہے ۔
وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃِ مِّنَ النَّارِ فَا نْقَذَ کُمْ مِنْھَا
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَا تِہٖ لَعَلَّکُمْ
تَھْتَدُوْنْ۔ترجمہ : اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں
اس سے بچا دیا اللہ تم سے یونہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم
ہدایت پاؤ۔(القرآن سورۃ آل عمران، آیت ۱۰۳)آج چہار جانب سے دہشت گردی
کی لعنت کو اسلام سے جوڑنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ مذہب اسلام نے تشدد و
دہشت گردی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور امن و سلامتی کو فروغ دینے کی تلقین
کی ہے۔اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا ظلم و تعدی کی قطعاً اجازت نہیں
دیتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کا بدلہ تو لیا جا سکتا ہے لیکن اگر
مظلوم تجاوز کر گیا تو وہ بھی ظالم کی صف میں آجائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ
ہے ۔ ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ
بڑھو ، اللہ پسند نہیں کرتاحد سے بڑھنے والوں کو۔ (القرآن سورہ البقرہ،
آیت ۹۰، کنز الایمان) اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے اس بات سے
بھی با خبر کر دیا کہ بدلے کا معیار کیا ہونا چاہئے۔ ترجمہ: جو تم پر
زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو۔
اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے۔(القرآن سورہ البقرہ، آیت ۱۹،کنز
الایمان)یعنی بدلہ لیتے وقت یہ بات ملحوظ رہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے
اور اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ دہشت گردی اور تشد د کے سلسلے میں اسلام کا موقف
بالکل صاف اور واضح ہے کہ ناحق کا قتل ناجائز و حرام ہے۔ اس طرح اللہ کے
رسول ﷺ کا ارشا د ہے: اللہ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی کو قتل کرنا اور والدین
کی نا فرمانی کرنا اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔ (البخاری)
فتنے اور قتل و غارتگری قیامت کی نشانیاں ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ قیامت
اس وقت تک نہ آسکے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ
ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گااور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور
ہرج کی کثرت ہوجائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور تمہارے درمیان دولت
اور مال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔( صحیح بخاری شریف ، کتاب
استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان، باب بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے
بیان میں ، حدیث ۱۰۳۶)ایک اور حدیث پاک میں آپ ﷺ فرماتے ہیں :جب دو مسلمان
اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں
نے عبد الرحمٰن بن مبارک نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! قاتل تو خیر (ضرور
دوزخی ہونا چاہئے) مقتول کیوں؟ فرمایا: وہ بھی اپنے ساتھی کو مارڈالنے کی
حرص (لالچ)رکھتا تھا۔موقع پاتاتو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا۔ دل کے عزمِ صمیم
پر وہ دوزخی ہوا۔( صحیح بخاری ، کتاب ایمان کے بیان میں ، باب گناہ جاہلیت
کے کام میں ، حدیث نمبر۳۰) آج مغربی میڈیا اور اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں
کے خلاف یہ الزام لگارہی ہیں کہ مسلمان پوری دنیا میں اپنی دہشت گردی کے
ذریعے اسلام پھیلانا چاہتے ہیں جبکہ قرآن خود اس طرح کی باطل سوچ کی تردید
کی۔ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ لْغَیْ۔۔۔۔۔الخ
۔ ترجمہ: کچھ زبردستی نہیںدین میں ، بے شک سیدھی راہ غلط راہ سے الگ کرکے
دکھائی جاچکی ہے۔ (القرآن ، سورہ البقرہ ، آیت ۲۵۶) اسی طرح اسلام دوسرے
مذاہب کے رہنماؤں کو برا کہنے کو منع کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے۔ وَلَا تَسَبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔ترجمہ:
اور جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتے ہیں انہیں گالی مت دو کہ
وہ اللہ رب العزت کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے۔ مسلمان
کافروں کے بتوں کی برائیاں کرتے تھے وہ بے وقوف شانِ الٰہی میں بکواس کرنے
لگے۔ تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بت پرستوں کے سامنے
ان کے معبودوں کو برا نہ کہو۔ (القرآن سورہ الانعام ، آیت ۱۰۸)اسلام
مذہبی عقائد اور اشاعت دین کے سلسلے میں نہایت انسان دوست اور برد بار ہے۔
جبراً کسی پر مذہب نہیں تھوپتا ہے۔ اسلام زور زبردستی ، اذیت پسند اور فساد
انگیزی کو نہ پسند کرتاہے اور نہ ہی بڑھاوا دیتاہے بلکہ بین الاقوامی سطح
پر زمین پر بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی اعلیٰ درجہ کے حسن
ِ اخلاق کی ہدایت دیتا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:جن
لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا
ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے والا منصفانہ اور اچھے برتاؤ کرنے سے اللہ
تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا
ہے۔(القرآن سورہ ممتحنہ، آیت ۸)اسلام کے اچھے برتاؤ اور عدل و انصاف کا
یہی وہ حقیقی تصور تھا جس کی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے
گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے لڑکے کو (جس نے ایک ریس
کورس(گھوڑ سواری مقابلہ) میں ایک غیر مسلم کو اس بنا پر ماراتھاکہ اس کا
گھوڑا گورنر کے گھوڑے سے آگے نکل گیا تھا) کوڑے لگوائے تھے اور پھر بھری
محفل میں مصر کے گورنر کوبھی،اس غیر مسلم کو حکم دیا گیا تھا کہ انہیں بھی
کوڑے لگائے۔ اس لئے کہ لڑکے کو باپ کی وجاہت (حکومت کا دبدبہ) کی وجہ سے
جرأت ہوئی تھی۔وہ غیر مسلم مدعی یہ سن کر شرم سے پانی پانی ہوگیا ۔ اس
موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلیغ خطبہ دیا ۔لوگوںکو مخاطب کرتے ہوئے
فرمایاتھا ،تم نے ان کو غلام کب سے بنا لیاہے، ان کی ماؤں نے تو انہیں
آزاد پیدا کیا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہِ
خلافت میں مصر سے ایک خاتون نے آپ کو خط لکھاکہ میرے گھر کی چہار دیواری
نیچی ہے جس کی وجہ سے اجنبی لوگ میرے گھر میں جھانکتے ہیں اور چور سامان
اٹھا لے جاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے مصر کے گورنر
کو خط لکھا کہ عورت کے گھر کا جائزہ لیا جائے اور گورنر اپنی نگرانی میں اس
کے گھر کی تعمیر کرائیںاور گھر کی چہار دیواری کو اونچا کر دیں۔ وہ عورت
ایک حبشی تھی اور غیر مسلم بھی تھی۔مصر کے گورنر خود کھڑے ہوکر اپنی نگرانی
میں اس کے گھر کی تعمیر کرائی۔ مذہب اسلام امن و صلح ، بھائی چارگی کی نہ
صرف تعلیم دیتاہے بلکہ عملی طور پر اس کو کرکے انجام تک پہنچاتا ہے۔
اسلام میں انسانی عظمت کا تصور:
مشہور بزرگ الرفاعی علیہ الرحمتہ رضوان اپنے منقولات میں فرماتے ہیں : اے
فرزند دلبند! پانچ چیزیں آخرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اللہ کی خشیت ، اس
کے لئے عاجزی، خاکساری، حسنِ اخلاق اور دل میں راج کرنے والا زہد۔یعنی اے
برادر عزیز!اللہ کی مخلوق کے ساتھ جس قدر آداب و محبت کے ساتھ پیش آسکتے
ہو ،پیش آیا کرو۔اپنے والدین کریمین پر شفقت و رحمت کی بھرپور نگاہ ڈالا
کرو۔رشتہ داروں کے بندھن جوڑے رکھو۔ پڑوسیوں کو ٹوٹ کر چاہو، رحمت و
مہربانی کا پیکر بنے رہو۔دیکھنے والا کہے کہ یہ تو اخلاصِ مصطفی کا نمونہ
معلوم ہوتاہے۔ یعنی اے (میرے عزیز ، بار دیگر کہتاہوں کہ ) اپنے ہمسائے کے
ساتھ اچھائی و بھلائی سے پیش آنا۔ مصطفی جانِ رحمت کی فرمان عظمت ہے۔ حضرت
جبرئیل علیہ السلام نے مجھ پر پڑوسیوںکے بابت اتنی وصیت و تاکید کی مجھے
محسوس ہونے لگا شاید انہیں وراثت میں شریک کر دیا جائے گا۔ یہ ہے اسلام
۔حاصل ِ کلام یہ ہے کہ اسلامی تاریخ ، روایات اور مزاج اس بات کے گواہ ہیں
کہ اس نے کبھی دہشت گردی اور تشدد کی اجازت نہیں دی ہے اور دنیا میں جو اس
نے عظیم انقلاب برپا کیا وہ اپنے اخلاق حسنہ کے زور پر کیا ہے، جسے ہم صالح
اور پر امن انقلاب کا نام دے سکتے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کب تک ہم
کہتے رہیں گے کہ اسلام دہشت گرد مذہب نہیں ہے، مسلمان نہیں ہے تو جواب یہی
ہے جب کلامِ الٰہی نے اس کا اعلان فرمایا تو آنے والی صبحِ قیامت تک ہماری
ذمہ داری ہے کہ زور شورسے عمل کے ساتھ جواب دیں ۔ تمام مسلمانوں خصوصاً
اہلِ علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ساتھ ساتھ
دوسروں خصوصاً برادرِ وطن تک اسلام کو پہنچائیں۔ یہ ہماری دینی و سماجی
دونوں ذمہ داری ہے۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین، |