مصافحہ اور معانقہ کرنے کے فضائل و آداب

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

معاشرتی و اجتماعی زندگی میں انسان کو بارہا اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور اپنے متعلقین سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔ کبھی ہم کسی کے یہاں ملاقات کے لئے چلے گئے تو کبھی کوئی جاننے والا ہمارے یہاں ملاقات کے لئے آگیا۔ایسے میں ملنے ملانے، ملاقات کرنے اور باہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کے متعلق بھی اسلام نے نہایت ہی عمدہ اور بہترین فضائل و آداب سکھائے ہیں۔

چنانچہ مسند بزار میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے ملاقات ہوئی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن سے مصافحہ کرنا چاہا، حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ نے ایک طرف ہٹ کر عرض کیا کہ اِس وقت حالت جنابت میں ہوں، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے تو ان دونوں کے گناہ ایسے گرجاتے ہیں جیسے (موسم خزاں میں) درخت کے پتے گرجاتے ہیں۔معجم طبرانی میں حضرت جندب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ سے ملتے تو جب تک انہیں سلام نہ کرلیتے اس وقت تک ان سے مصافحہ نہ فرماتے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ۔ حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ نے کہا اگر اس میں راز کی کوئی بات نہ ہوئی تو وہ حدیث تمیں میں ضرور سنادوں گا۔ اس آدمی نے کہا جب آپ حضرات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملا کرتے تھے تو کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تم لوگوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے؟ حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جب بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ضرور مجھ سے مصافحہ فرمایا۔ دار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا یارسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کیا ہم (ملتے وقت) ایک دوسرے کے سامنے جھکا کریں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! ہم نے کہا تو کیا ہم ایک دوسرے سے معانقہ کیاکریں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! ہم نے کہا تو کیا ہم ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کریں ؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہاں! (یعنی ملاقات کے آداب یہ ہیں کہ مصافحہ تو ہر وقت ہونا چاہیے جب بھی ملا کریں لیکن معانقہ کسی سفر وغیرہ یا دور سے آنے کے موقع ہر ہونا چاہیے ویسے نہیں!)جامع ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ علیہ وسلم) جب کوئی آدمی اپنے بھائی یا دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اُس کے سامنے جھک جائے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! پھر اُس آدمی نے کہا کیا اُس سے چمٹ جائے اور اُس کا بوسہ لینے لگے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! پھر اُس آدمی نے کہا کیا اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس سے مصافحہ کرے؟ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ۔ رزین کی روایت میں یہ ہے کہ چمٹنے اور بوسہ لینے کے جواب میں حضور صلی اﷲ علیہ فرمایا نہیں! ہاں! اگر سفر سے آیا ہو ایسا کرسکتا ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ مدینہ آئے تو اُس وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، اُنہوں نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم (فرطِ مسرت میں اوپر سے ) ننگے ہی اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے کھڑے کھڑے ہوکر اُن کی طرف چل دیئے۔ اﷲ کی قسم! میں نے نہ اِس سے پہلے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو (کسی کا اوپر سے) ننگے ہونے کی حالت میں (استقبال کرتے ہوئے) دیکھا اور نہ اس کے بعد۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جاکر ان سے معانقہ فرمایا اور اُن کا بوسہ لیا۔ معجم طبرانی میں حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرتے اور جب سفر سے واپس آیا کرتے آپس میں معانقہ کیا کرتے۔ معجم اوسط میں امام طبرانی رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو رات کے کسی حصہ میں اپنا کوئی بھائی یاد آجاتا تو (رات گزارنی مشکل ہوجاتی) اور اپ فرماتے ہائے! یہ رات کتنی لمبی ہے؟ (فجر کی) فرض نماز پڑھتے ہی تیزی سے (اس بھائی کی طرف ) جاتے اور جب اُس سے ملتے تو اُسے گلے لگاتے اور اُس سے چمٹ جاتے۔ حلیۃ الاولیام میں امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت عروہ رضی اﷲ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ملک شام آئے تو عام لوگ اور وہاں کے بڑے آدمی سب اُن کا استقبال کرنے آئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میرے بھائی کہاں ہیں؟ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ! لوگوں نے کہا ابھی آپ کے پاس آتے ہیں! چنانچہ جب حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ آئے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ (سواری سے )نیچے اتر ے اور اُن سے معانقہ کیا ۔

اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں جب بھی ملاقات کا موقع ملے تو سب سے پہلے سلام کرنا چاہیے اور اس کے بعد آپس میں مصافحہ کربنا چاہیے ، اس سے ایک تو دونوں مسلمانوں کے گناہ اس طرح جھڑجاتے ہیں جس طرح خزاں کے موسم میں پتے درختوں سے جھڑ جاتے ہیں اور دوسرے اس سے باہمی محبت و الفت پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کہیں دُور سے آدمی آئے یا تھا تو قریب ہی لیکن کافی عرصہ بعد ملاقات کا موقع ملا تو ایسی صورت میں سلام کرنے کے بعد پہلے آپس میں معانقہ کیا جائے اور اس کے بعد آخر میں مصافحہ کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ مصافحہ و معانقہ کرتے ہوئے زیادہ جھکنا نہیں چاہیے کہ اس سے سجدہ سے مشابہت پیدا ہوتی ہے اور سجدہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے سامنے کرنا حرام ہے۔چوتھے یہ کہ ملنے کے دوران معانقہ و مصافحہ کے بعد اگر بوسہ بھی لے لیا جائے بشرطے کہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، اس طرح باہم ملنے سے نہ صرف یہ کہ باہمی الفت و محبت اور قریب کا تعلق نصیب ہوتا ہے بلکہ اِس سے برسوں کی دُوریاں اور دل کا میل و کھوٹ بھی صاف ہوجاتا ہے۔ باہمی محبت و الفت اور بھائی چارگی کی اس عمدہ خصلت کو اسلام کی نظر میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.