نیچے سُروں کا احتجاج

ایک کشادہ کمرے میں آٹھ تخت ایک ایک بالشت کے فاصلے پر قرینے سے لگے ہوئے تھے،ان پر آٹھ دس لڑکے دو دو اور تین تین کے گروہ میں بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے، چھت کے وسط میں لوہے کے ہک سے لٹکا ہوا پنکھا اس طرح چل رہا تھا جیسے ماضی کے دنوں کی سرمستیوں کو یاد کر کے رقص کررہا ہو۔ مدرسہ کی مسجد سے آتی ہوئی عشا کی اذان کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، نوعمر بنگالی مؤذن جب دو کلموں کے درمیان وقفہ کے لئے رکتا اور اپنی سانس درست کرتا تو پنکھے کی تیز گھومتی ہوئی پنکھڑیاں کمرے کی خاموش فضا میں سرسراہٹ پیدا کرنے لگتیں اور اس دوران لڑکے اپنے منہ کی باتوں کو جلدی جلدی اگلنے کی کوشش کرتے، ایسا کرنے کی غیر اختیاری کوشش میں کبھی کبھار سب ایک ساتھ ہی بول پڑتے،اتنے میں بنگالی مؤذن کی آواز میناروں کی بلندیوں سے پھر ابھرتی اور دفعتاً سب خاموش ہوجاتے۔

عقب کی دیوار میں دو بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جو سبزی کے کھیت کی طرف کھلتی تھیں۔ یہ کھیت کسی بدمزاج آدمی کا تھا، وہ اکثر سبزیاں ہی بویا کرتا تھا اور سبزیوں میں بھی زیادہ تر آلو۔ شہر کے گندے پانی کی ایک پتلی سی نالی کھیت کے درمیان سے گزرتی ہوئی قریب کے ایک چھوٹے سے گندے تالاب میں جا گرتی۔ بائیں ہاتھ کا کوئی کھلاڑی جب زوردار شارٹ لگاتا تو گیند کمرے کی چھت کو پھلانگتے ہوئے سیدھے کھیت میں جاگرتی تھی۔کھیت کے مالک کی موجودگی میں کوئی بھی گیند اٹھانے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔جب رات اپنی کالی چادر تان دیتی تو دو تین سائے چھوٹی سی دیوار کود کر کھیت میں رینگ جاتے، دس پندرہ منٹ کے بعد جب وہ سفیدے کے لمبے درخت سے لٹکے ہوئے بلب کی روشنی کے نیچے سے گزرتے تو ہم دیکھتے کہ ان کے ایک ہاتھ میں گیند ہے اور دوسرے کئی ہاتھوں میں تازہ نرم مٹی میں سنے ہوئے چھوٹے چھوٹے آلو۔امتحان کے دنوں میں جب ہم ساری ساری رات پڑھا کرتے تو یہ آلو رُت جگے میں کافی مدد دیتے ۔ جب رات تیسرے پہر میں داخل ہونے لگتی تو چپکے چپکے آلوؤوں کی تہاری تیار کی جاتی اور اس خوف سے کہ کہیں دوسرے لڑکوں کو بھنک نہ لگ جائے گرم گرم نوالے بنا چبائے حلق سے اس طرح اتارے جاتے جیسے انگارے نگلے جارہے ہوں۔کھیت کا مالک کئی مرتبہ ہماری شکایت کرچکا تھا۔

اس کمرے میں دو دروازے تھے جو سامنے میدان میں کھلتے تھے، یہ میدان انگریزی حرف ’ L‘کی شکل میں بنے ہوئے ایک درجن کمروں کا برآمدہ تھا اور پچھم کی طرف سے مسجد کا کھلا ہوا حصہ۔عید کے دنوں میں یہاں چونے کے ذریعہ صفوں کے نشان بنا دئے جاتے اور باقی کے دنوں میں یہ لڑکوں کے لیے کرکٹ کا میدا ن ہوا کرتا۔مدرسہ کی طرف سے جب کوئی جلسہ ہوتا تب بھی یہی میدان کام آتا ۔

کمرے میں فرش کی جگہ اینٹیں بچھی ہوئی تھیں،دروازوں کے بیچ میں دیوار سے لگی ہوئی لکڑی کی ایک بڑی سی الماری کھڑی تھی، جس میں لڑکوں کا سامان الٹا سیدھا بھرا رہتا، صندوق،بریف کیس،گتے کے ڈبے او ر کھانے کے برتن، پیالیاں،پلیٹیں اور پلاسٹک کے مگ وغیرہ، بعض لڑکے اپنے بنا دھلے کپڑے بھی کونوں کھدروں میں ٹھونس دیا کرتے تھے ۔ہر روز صبح سات بجے سے دوپہر ایک بجے تک یہ کلاس روم ہوتا تھا اور اس کے بعد اگلے دن صبح تک رہائشی کمرہ۔ ایک مسجد اور بارہ کمروں پر مشتمل یہ ایک مدرسہ تھا ۔ یہاں ہر چیز کی دہری حیثیت تھی ، مسجد نماز کے اوقات میں مسجد ہوتی اور کلاس کے وقت میں درس گاہ، کمرے تعلیم کے وقت میں کلاس روم ہوتے اور دوسرے وقت میں ہاسٹل ۔لڑکے طالب علم بھی ہوتے اور مدرسہ کے خدمت گار بھی، اساتذہ معلم بھی ہوتے ، ممتحن اور ایڈمنسٹریٹر ز بھی۔

دو ٹیوب لائٹس 15x12کے اس بڑے سے کمرے کو دودھیائی روشنی میں نہلارہی تھیں۔اور اس وقت آٹھ دس لڑکے شام کا کھانا کھانے میں اس طرح مصروف تھے جیسے ان کے سروں پر فرشتے بیٹھے ہوں اور وہ احتراماً سرجھکائے ہوئے ہوں۔
”لا الٰہ الا اللہ“بنگالی مؤذن آخری کلمہ ادا کررہا تھا۔
”استاد! کھانا کھالیا آپ نے آپ کو دال میں مہک نہیں آرہی ؟“

درجہ حفظ کے دو تین لڑکے کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھ سے مخاطب ہوئے۔ عصر سے مغرب کے درمیانی وقفہ میں چند لڑکے مجھ سے کراٹے سیکھا کرتے تھے،اور اسی نسبت سے بعض لڑکے مجھے ’استاد‘ بھی کہا کرتے تھے اور ہر طرح کے ہنگامی حالات میں مجھ سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ میں ان کی اگوائی کروں، بطور خاص ایسے معاملات میں جہاں پٹنے پٹانے کا خدشہ لگا ہو۔

”مہک ہاں آ تو رہی ہے مگر اب تو میں پیٹ بھر کے کھا چکا ہوں“میں نے لقمہ ناک کے پاس لے جاکر دو تین لمبے لمنے الٹے سانس کھینچے۔
”اور اس میں ہے ہی کیا سوائے پانی کے دال تو اس میں کہیں سے کہیں تک نظر ہی نہیں آرہی “دوسرا لڑکا آگے بڑھ کر بولا اور ہمارے سامنے سے پلیٹ اٹھا لی۔کمرے کے دوسرے تمام لڑکے بھی ان کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔
”جب سے مہتمم صاحب باہر دورے پر گئے ہیں تب سے منشی جی نے روز روز یہی ناٹک کر رکھا ہے۔ چلئے آج اسٹرائک کریں گے نہیں چاہئے ہمیں ایسا کھانا چلئے اٹھئے دال واپس بھگونے میں ڈال دیتے ہیں“ نوواردوں کے چہروں پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔
”اور روٹی بھی کتنی کچی ہے“ہمارے کمرے کے ایک لڑکے نے لقمہ دیا۔
”ہاں ! جب سے یہ نئی باورچن آئی ہے تب سے کھانا ڈھنگ کا مل ہی نہیں رہا ہے میرا تو من ہی نہیں کرتا اس کے ہاتھ کی روٹی کھانے کوڈھنگ سے ہاتھ بھی نہیں دھوتی اس سے تووہ پہلے والی دادی اماں ہی ٹھیک تھیں“میرے ساتھ کھانے والے لڑکے نے ایسے منہ بنایا جیسے کوئی بدبودار جگہ سے گزرتے ہوئے منہ بناتا ہے۔
”تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ ہوں چلئے“

میں نے اپنے ہاتھ کا آخری نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔ حالانکہ میرا پیٹ بھر چکا تھا ۔ میری پلیٹ میں تھوڑی سی دال باقی تھی اور شاید ڈیڑھ روٹی۔میں ان کے ساتھ ہولیا اور باقی کے تمام کمروں میں گھوم کر دیگر لڑکوں کو بھی کھاتے سے اٹھا لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب نے اپنی پلیٹوں میں بچی ہوئی دال واپس بھگونے میں ڈال دی۔ ذرا سی دیر میں بھگونہ آدھا بھر چکا تھا ایک شریر لڑکا بھاگا بھاگا گیا اور ایک جگ پانی لے کر دال میں ڈال دیا۔دال جو پہلے ہی سے پتلی تھی اب نینی تال کے تلّی تال کا منظر پیش کررہی تھی۔

یہ جمعہ کی ایک کالی رات تھی، جو درودیوار ، میدان اور کمروں کے سامنے کھڑے سفیدے کے اونچے اونچے درختوں سے اسی طرح لپٹی ہوئی تھی جس طرح اجگر چندن کی ڈالیوں سے لپٹے رہتے ہیں۔اگلے دن چھٹی تھی،قرب وجوار کے بہت سارے طلبہ اور اساتذہ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے ، درجہ حفظ کے لڑکوں کو سبق یاد کرنے کی فکر نہ تھی۔اور اس لیے بھی ان کی رگِ شرارت تیزی کے ساتھ پھڑک رہی تھی۔
عید توسال میں دو بارہی آتی ہے مگر مہتمم صاحب جب جمعہ کے خطبہ میں فضائلِ جمعہ بیان کرتے تو یہ بھی بتاتے تھے کہ جمعہ ہفتہ کی عید ہے۔ اور لڑکوں کے لئے جمعہ عید ہی کا دن تھا، شاید اس لیے کہ یہ دن چھٹی کا دن جو ہوتا تھا۔اس دن وہ شہادت کی انگلی کے برابر موٹی اور ایک ہاتھ لمبی شہتوت کی چھڑی کے خوف کا بھوت اپنے سر وں سے اتار پھینکتے تھے۔جمعرات کی دوپہر سے لے کر جمعہ کو مغرب کی اذان تک یہ بھوت ان سے اسی طرح بھاگتا تھا جس طرح کچی مسجد کے امام صاحب کے تعویذ سے بھاگا پھرتا ہے۔ لڑکوں کو تو یقین نہیں آتا تھا مگر کھانا بنانے والی چاچی کہتی تھیں کہ امام صاحب کے تعویذ سے بڑے سے بڑا بھوت بھی اس طرح بھاگتا ہے کہ پھر کبھی واپس نہیں لوٹتا۔مگر جیسے ہی مغرب کی نماز ختم ہوتی یہ بھوت دوبارہ ان کے سروں پر سوار ہوجاتا اور انہیں لگتا کہ چاچی جھوٹ بولتی ہیں۔ہم میں سے کسی نے بھی اپنی آنکھوں سے بھوت نہیں دیکھا تھا پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ بھوت ہوتے ضرور ہوں گے۔
”عارف اقبال سہیل چلو باہر نکلو کمروں سے“

نماز کے بعد جب نمازی اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اور درجہ حفظ کے طلبہ پڑھائی کے وقت سے چند منٹ چرا کر اپنے کمروں میں جا گھستے اور مٹر گشتی کرنے لگتے تو معاً بعدقاری صاحب کی گرجدار آواز اندھیرے اور ہوا کا سینہ چاک کرتی ہوئی لڑکوں کے اعصاب پر اس طرح گرتی کہ اگلے پانچ منٹ میں تمام لڑکے قرآن شریف کھول کر بیٹھ جاتے اور آگے پیچھے ہلتے ہوئے زور زور سے سبق یاد کرنے لگ جاتے۔ قاری صاحب اکثر انہیں لڑکوں کا نام لے کر پکارا کرتے تھے۔

”کھوں کھوں کھوں حرام خورو! کچھ تو شرم لحاظ کرو کیوں گال پھول رہے ہیں تمہارے پکی پکائی مل رہی ہے نا اس لیے ارے شیطان کے بچو! کچھ تو خدا کا خوف کھاؤ“منشی جی کھانستے ہوئے کمرے سے نکلے اور چھوٹے لڑکوں پر برس پڑے۔ منشی جی مہتمم صاحب کی عدم موجودگی میں لڑکوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ، انہوں نے پہلے تو خود ہی اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کی مگر جب حالات حد سے زیادہ بگڑتے اور بے قابو ہوتے دیکھے تو فوراً قاری صاحب کو بلا بھیجا، جو آج جمعہ کی چھٹی کی وجہ سے اپنے گھر چلے گئے تھے۔قاری صاحب پانچ چھ لڑکوں کے جلو میں دروازے سے ہی ہانک لگاتے ہوئے مدرسہ میں داخل ہوئے۔

”باہر نکلو سب لوگ ادھر آؤ میدان میں بتاؤ کیا بات ہے چلو نکلو باہر ارے سنا نہیں تم لوگوں نے نکلو باہر“

تھوڑی بہت نان نکر اور گھسر پسر کے بعد ایک ایک کر کے تمام لڑکے میدان میں جمع ہونے لگے، پہلے چھوٹے لڑکے باہر نکلے اور پھر بڑے لڑکے زبردستی اپنے پیروں کو گھسیٹتے ہوئے میدان میں جمع ہونے لگے۔
”کیوں بے نسیم! کھانا کھایا تو نے؟“
قاری صاحب کی مخصوص چھڑی جسے درجہ حفظ کے لڑکے اچھی طرح پہچانتے تھے، ہوا میں لہرائی اور قطار کے ایک سرے پر سہمے سہمے کھڑے نسیم کی آنکھوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی اس کے سینے پر خاص دل کے مقام پر آکر ٹہر گئی۔ان کی آواز میں گرج تھی اور آنکھوں میں لال لال ڈورے، وہ سفیدکرتہ پاجامہ پر کالی صدری پہنے ہوئے تھے، چہرے پر جلال تھا اور سینہ میں یہ عزم کہ وہ اس بغاوت کو چشم زدن میں فرو کرلیں گے۔

نسیم کی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس کے کاندھے کے اوپری حصہ کو چھوتی ہوئی ان لڑکوں کی آنکھوں کی پتلیوں پر جاکر چپک گئی جنہوں نے اسے کھانے سے روکا تھا اور پھر دوسری نگاہ اس کے سینے میں اترتی ہوئی چھڑی اور قاری صاحب کے ہاتھ پر پھسلتی ہوئی ان کی ناک کے دونوں طرف کے ڈھلان پر اتر کر رخساروں پر پھیل گئی۔ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ اگر آج اس نے ’نہیں‘ کہا تو وہ قاری صاحب کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے گر جائے گا اور ان کی محبت اور پیار کو کھو دے گا۔ چار ماہ پہلے جب اس کے ابو اسے یہاں لے کر آئے تھے تو قاری صاحب نے کتنی محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور اس کے ہم عمر اپنے بیٹے کے پہلو میں بیٹھنے کو جگہ دی تھی۔اور پھر محض ایک ہفتہ کے اندر دونوں ایک دوسرے کے جگری دوست بن چکے تھے۔اس کے گاؤں کا لڑکا اشرف اسی لیے اس سے جلنے بھی لگا تھا کیونکہ وہ خود قاری صاحب کے لڑکے سے دوستی کرنا چاہتا تھا یکبارگی اسے لگا کہ اس ’نہیں‘ کا اثر سیدھا اس کی دوستی پر بھی پڑ سکتا ہے۔اور اشرف اس موقع کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس نے خیالوں میں اشرف کو کھل کھلاکر ہنستے ہوئے دیکھا،پھر اس نے دیکھا کہ وہ قاری صاحب کے لڑکے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح گھوم رہا ہے جیسے وہ خود ہی قاری صاحب کا لڑکا ہو۔اس نے ایک لمبا سانس کھینچا پوری قوت جمع کی اور ایک لفظ باہر ہوا میں اچھال دیا۔
”جی “
”جی کیا؟“قاری صاحب نے چھڑی کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور وہ پیچھے کو گرتے گرتے بچا۔
”جی جی کھا لیا“ اس سے پہلے کہ چھڑی کو ایک اور جھٹکا لگتا اس نے جلدی جلدی جگالی کی اور پورا جملہ اگل دیا۔
”پیٹ بھر گیا؟“
”جی بھر گیا“
چشم زدن میں چھڑی اس کے سینے سے اٹھی ، ہوا میں لہرائی اور تڑاخ تڑاخ دو باراس کے کھولہوں سے ٹکرائی۔
”تو چل یہاں سے کمرے میں جاکر بیٹھ چپ چاپ“
نسیم کولہے کو سہلاتا ہوا کمرے کی طرف بھاگا اور کواڑ کی اوٹ لے کر کھڑا ہوگیا۔
چھڑی ایک سینے سے دوسرے سینے کی طرف منتقل ہوتی رہی اور چھوٹے بڑے جبڑے اسی ایک جملہ کی جگالی کرتے رہے جو نسیم نے ان کے سامنے اگلا تھا۔
”اور تو نے؟“
”جی کھا لیا“
اور تو نے حامد؟“
”جی میں نے بھی کھا لیا“
جو لڑکے شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ جملہ دہراتے گئے وہ دو دو قمچیاں انعام کے طور پر پاتے گئے۔ یہاں تک کہ اب ان لڑکوں کی باری آئی جو اس پورے معاملے میں لیڈر بنے ہوئے تھے۔
”کیوں بے ارشد تو نے کھایا؟“
چھڑی کی نوک ایک چوڑے چکلے سینے پر جم گئی ۔قاری صاحب نے اپنے حوصلوں کو یکجا کیا،ایک دو بار پلکیں چھپکائیں اور اعصاب میں تناؤ پیدا کرتے ہوئے چھڑی کو جنبش دی۔ایک لمحے کے لیے انہیں لگا کہ اصل معرکہ تو اب شروع ہوا ہے۔
”بول بولتا کیوں نہیں ایسے کیا دیکھ رہا ہے کھا جائے گا مجھے“ اب وہ پہلے سے زیادہ تن کر بول رہے تھے۔
میں سب سے آخر میں تین چار لڑکوں کے بعد کھڑا تھا،میرا دماغ پھرکی کی مانند تیزی سے گھوم رہا تھا، میں سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکے کچھ ہمت دکھائیں گے اور پانسہ پلٹ جائے گا۔پھر سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا ہم نے پلان کیا ہے ۔ہماری بات سنی جائے گی اور منشی جی اور کھانا بنانے والی چاچی کو ڈانٹ پلائی جائے گی۔ اور پھر ہمیں اس پانی کی طرح پتلی دال سے اور ادھ پکی روٹیوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ہوا کا ایک جھونکا میر ی پیشانی کے بالوں کو چھوتا ہوا گزر گیا،اس نے میرے دماغ کی ہانڈی میں پکتے ہوئے اس خیال کو اس طرح بدل دیا جس طرح ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبانے سے چینل بدل جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے جب میں اکیلا کھڑا رہ گیا تھا ۔ میرے جسم میں جھری جھری پیدا ہوئی کیا اس بار بھی میرے اعصاب میں کرنٹ دوڑنے لگا۔ ہم پانچ لڑکے تھے جو بلا اجازت باہر گھومنے چلے گئے تھے اور جب شام کو اندھیرے منہ مدرسہ میں داخل ہوئے تو اچانک مہتمم صاحب سے مڈبھیڑ ہوگئی۔جیسے وہ ہمارے انتظار میں بیٹھے تھے۔پوچھ تاچھ شروع ہوئی اور سب ایک دوسرے کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلا نے لگے ، سب نے جھوٹ بولا اور بہانے کیے کچھ چھوٹ بھی گئے اور کچھ کو سزا بھی ملی۔حالانکہ مدرسہ میں داخل ہونے سے پہلے سب نے پلان بنایا تھا کہ سب ایک ہی بات کہیں گے ۔ میں اس وقت بھی سچ بولا تھا اور اپنی بات پر قائم رہا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے زیادہ مار مجھ ہی کو لگی تھی۔
”جی کھا لیا“

ارشد کے منہ سے بھی جب یہی جملہ نکلا اور میری سماعتوں سے ٹکرایا تو میں خیالات کی وادی سے نکل کر لمحہ موجود میں آکھڑا ہوا۔مجھے اس سے ایسی توقع نہ تھی۔ یہ وہی لڑکا تو تھا جس نے مجھے کھانا کھاتے سے اٹھایا تھا اور احتجاج میں شریک کیا تھا۔مجھے لگا جیسے میرے پیروں تلے سے زمین آہستہ آہستہ کھسک رہی ہے اور یہ کالی رات مجھ پر اسی طرح آگرے گی جس طرح کالی چمگادڑیں اپنے شکار پر گرتی ہیں۔

”تڑاخ تڑاخ “ دو چھڑی ارشد کے داہنے بازو پر لگیں اور وہ بے پروائی کے ساتھ قطار سے نکل کر دوسری طرف جاکھڑا ہوا۔ارشد کے اس طرح پگھل جانے سے باقی لڑکوں کی بھی سٹی گم ہوگئی، ان کے سروں میں سمایا ہوا احتجاج کا بھوت بغلیں جھانکنے لگا۔اور وہ بھی قاری صاحب کی آتش نگاہ سے اسی طرح پگھل گئے جس طرح جون کے مہینے میں گرم لوسے آئس کریم پگھل جاتی ہے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی ، آج بھی بالکل وہی منظر تھا۔ میں نے ارشد کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا،جی میں آیا کہ اس کی ناک توڑ دو یا اس کی ریڑھ کی ہڈی پر اتنی زور سے لات ماروں کہ یہ پھر کبھی اٹھ نہ سکے میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ چھڑی کی نوک مجھے اپنے سینے میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی
”اور تو نے؟“قاری صاحب نے میرا نام لیے بغیر اور مجھ سے نظریں چار کئے بنا مجھے مخاطب کیا۔

دوسرے لڑکوں کے برعکس میں کھانا کھا چکا تھا اس لیے میں اگر ’ہاں‘ کہتا تب بھی جھوٹ نہ ہوتا اور اگر”نہیں“کہتا تب بھی میرے پاس اس کا جواز تھا کہ دوسری صورت میں احتجاج کا فائدہ ہی کیا نکلتا مگر اب تو میں تنہا ہی میدان میں کھڑا تھا باقی سب لڑکے دروازوں اور درختوں کی اوٹ لیے کھڑے تھے اس لیے اب میری ”ہاں“ یا” نہیں“ سے کچھ بھی ہونے والا نہ تھا میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا میں دل ہی دل میں ان لڑکوں کو لعن طعن کررہا تھا جنہوں نے مجھے اس احتجاج میں گھسیٹا تھا اور اب مجھے اس طرح تنہا چھوڑ دیا تھا میرا سر چکرانے لگا اور مجھے پہلی بار زمین گھومتی ہوئی معلوم ہوئی میں نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں پہلی بار ان لوگوں کو موٹی سی گالی دی جنہوں نے ایک سائنسدان کو صرف اس لیے سزا دی تھی کہ وہ زمین کی گردش کا قائل تھا اتنی موٹی گالی میں نے آج تک کسی اور کو نہیں دی تھی میں نے ایک لمبا سانس کھینچا اپنے بھاری جبڑوں تلے چند حروف چبائے اور ذہن میں ایک جملہ ترتیب دیا مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے چھڑی ناچتی ہوئی دکھائی دی اوراس کے لمبے لمبے نوکیلے دانت بھی ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ابھی چشم زدن میں میرے جسم میں پیوست ہوجائیں گےمیں نے جملہ کی ترتیب مکمل کی اور اگلے لمحے قاری صاحب کے کانوں کی سیدھ میں اچھال دیا
”میں نے نہیں کھایا دال میں کچے تیل کی مہک آرہی تھی اور روٹیاں بھی کچی تھیں“یہ کہتے کہتے میری آنکھیں خود بخود مند گئیں۔

فیصلہ ہوچکا تھا ،احتجاج فرو کیا جا چکا تھا اور میرا کچھ بھی بولنا بے کار تھا میں نے آنکھیں کھولیں میری نظر قاری صاحب کی پیٹھ سے ٹکرائی وہ دوسری طرف منہ کئے منشی جی کو تاکید کر رہے تھے کہ آئندہ کھانے میں احتیاط برتی جائے اب میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا دور کھڑے ہوئے لڑکے بھی تیز تیز پلکیں جھپکا رہے تھے جیسے انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا ہو مجھے دو قمچیاں انعام میں کیوں نہ ملیں جبکہ سب نے سچ بولا تھا اور میں نے جھوٹ سب نے سرینڈر کیا تھا اور میں نے احتجاج جاری رکھا تھا میں نے سوچا اور فتحمندی کے گرم احساس سے ایڑیاں اچکاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور چادر سے منہ ڈھک کر لیٹ گیا۔ چند منٹ بعد ارشد اور اس کے ساتھی آئے اور معذرت کرنے لگے وہ پکار رہے تھےاستاد استاد اور میں ایسے بودے لڑکوں کے ساتھ آئندہ کسی احتجاج میں شریک نہ ہونے کی قسم کھارہا تھا۔
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 21917 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.