ٹوپی کے نیچے کیا ہے؟

کہتے ہیں انسان کی پہچان اُس کے کردار سے ہوتی ہے، لیکن بھائی آج کل تو پہچان صرف ٹوپی، داڑھی، اور جیب میں موجود ڈونیشن فارم سے ہوتی ہے۔ پہلے دین دل میں ہوتا تھا، اب ٹوپی میں ہوتا ہے۔ جو جتنی اونچی ٹوپی پہنے، اتنا ہی پرہیزگار مانا جاتا ہے۔ اور اگر وہ ٹوپی کے ساتھ ساتھ تصویر میں ہاتھ بھی سینے پر رکھے، تو سبحان اللہ! نیکوکاروں کے امام ٹھہرتے ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ بھائی! تمہیں ٹوپی سے کیا دشمنی ہے؟ تو سن لیجیے، ٹوپی سے نہیں، ٹوپی میں چھپے اُس خالی پن سے ہے جو انسان کی آنکھوں اور عمل سے جھلکتا ہے۔ یعنی زبان پر اللہ، دل میں پلاٹ، اور دماغ میں سیاست ہو تو ایسی ٹوپی کا کیا کیجیے؟
ایک وقت تھا جب ٹوپیاں لوگ تحفے میں دیتے تھے۔ اب تو ہر کوءی ٹوپی ہی دیتا پھر رہا ہے۔ چاہے بچہ ہو یا بڑا، سیاستدان ہو یا مچھردان مطلب اُن کے قدر دان، اُدَبا ہوں یا علما۔ سب ہی ایک ہی تحفہ دے رہے ہیں۔ ٹوپی! پہلے لوگ دین کی بات کرتے تھے تو چہرہ کھِل اٹھتا تھا، اب دین کی بات ہو تو فوراً بندہ موبائل کی سکرین لاک کرتا ہے کہ کہیں کسی گروپ میں نہ ایڈ کر لیا جائے۔ دین اب وہ نہیں رہا جو دل کو روشن کرے، بلکہ وہ ہے جو بغل میں پھڑپھڑاتی تسبیح کے سائز، امامے کے وزن اور سوشل میڈیا پوسٹس کی ریچ سے ناپا جاتا ہے۔ اور سیاست؟ او بھائی! وہ تو اب باقاعدہ اسٹیج ڈراما بن چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاست خدمت کا میدان تھی، آج وہ اداکاری کا مقابلہ ہے۔ نعرے لگاؤ، جذباتی تقریریں کرو، اور اگر موقع ملے تو دو چار ”کاشی“ اسٹائل آنسو بھی نکال دو۔ عوام تالیاں بجائے گی، اور تمہاری ریٹنگ آسمان چھو لے گی۔ ارے بھئی، اصل مسئلہ تو تب ہو گا جب کوئی کہے گا کہ اب کام بھی کرو! تب وہی سیاستدان کہے گا: ”ارے بھائی، میں تو بس ٹوپی پہنانے آیا تھا، کام کی ذمہ داری تو ووٹر پر ہے، مجھے کیوں جتوایا؟“
ہمارے یہاں ہر چیز کا لباس ہے۔ شادی کا لباس، دین کا لباس، محبت کا لباس، افسوس کا لباس، میّت کا لباس، حتیٰ کہ معافی مانگنے کا بھی مخصوص گیٹ اپ ہوتا ہے۔ لیکن اصل چیز، یعنی نیت، سچائی، اور احساس، ان کے لیے کوئی ”ڈریس کوڈ“ نہیں بچا۔ دل کا حال ایسا ہے جیسے کمرے میں بند پرانا سوٹ کیس: ظاہری طور پر صاف، لیکن اندر صرف خالی خالی کاغذوں کی سرسراہٹ۔ یاد رکھو! ٹوپی پہننا منع نہیں، لیکن صرف ٹوپی پہننا دین نہیں ہے۔ ٹوپی پہنانا تو اور بھی اچھا ہے، نہیں، نہیں ہے۔ اگر دل میں محبت، عمل میں سچائی، اور زبان میں خیرخواہی نہ ہو تو بندہ چاہے چار گز کی ٹوپی بھی پہن لے، خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ اور عوام؟ انہیں اب سمجھنا ہو گا کہ وہ صرف اونچی ٹوپی یا بڑی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔ ذرا نیچے جھک کر بھی دیکھیں، کہیں ٹوپی کے نیچے کھوکھلا پن تو نہیں چھپا ہوا؟ جھُک کر صرف ٹوپی ہی دیکھنی ہے۔ اور کچھ بھی نہیں!
ٹوپیوں کا کاروبار اتنا پھیل چکا ہے کہ اب لگتا ہے کپڑے کم اور ٹوپیاں زیادہ بِک رہی ہیں۔ دینی ٹوپی، سیاسی ٹوپی، روحانی ٹوپی، سماجی کارکن والی ٹوپی، لوگوں کو پہنانے والی ٹوپی، اور ایک نئی قسم جو حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہے: وہ ہے سوشل میڈیا انفلونسر کی ٹوپی۔ ان صاحب کی ٹوپی میں خاص بات یہ ہے کہ جب بھی ویڈیو بناتے ہیں، آواز گرجدار اور الفاظ ایسے جیسے ابھی ابھی کسی مولوی صاحب کی کلاس سے نکلے ہوں، ساتھ ٹوپی بھی چُرا لاے ہوں، اور ویڈیو کے آخر میں ”لائک، شیئر، سبسکرائب اور دعا میں یاد رکھیں“ لازمی ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف ٹوپیوں کی اقسام کا نہیں، اصل مسئلہ ہے ”ٹوپی پہنانے“ کا۔ جی ہاں! ہمارے یہاں ”ٹوپی پہنانا“ ایک فن بن چکا ہے۔ استاد جی کہیں کہ ”بیٹا، بس آخری قسط ہے، نمبر آ جائیں گے“، ٹوپی۔ دکاندار کہے، ”بھائی صاحب یہ مال جاپانی ہے“ ٹوپی بلکہ جاپانی ٹوپی۔ اُدَبا کہیں، ”علم کتابوں میں ہے“ ٹوپی، کیوں کہ علم ٹوپیوں میں ہے۔ علما کہیں ”ہمارا فرقہ جنت میں جاے گا“ ٹوپی۔ سیاستدان وعدہ کرے، ”ہر گھر کو نوکری ملے گی“ ٹوپیِ اعظم۔ بس فرق یہ ہے کہ ان ٹوپیوں میں سائز نہیں، صرف بےوقوفی ناپی جاتی ہے۔ آپ کی بےوقوفی۔ اب کچھ لوگوں نے تو یہ کام مکمل طور پر کاروبار بنا لیا ہے۔ جیسے ایک صاحب ہر ہفتے نئی ٹوپی کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ پچھلے جمعے کو عالم دین تھے، اگلے منگل کو یوٹیوبر بن گئے، جمعرات کو ”محبتوں کا پیامبر“ کہلائے اور اتوار کو شادی کی دعوت میں ”قریبی عزیز“ کے طور پر گھس بیٹھے۔ اور سب میں ایک چیز مشترک: ہر کردار میں ان کی ٹوپی بدلی، مگر باتوں میں وہی پرانی چالاکی۔
تو صاحبو، جب بھی کوئی نئے سائز کی ٹوپی، خاص کر سنبھال سنبھال کر پہن کر تمہارے دروازے پر آ جائے، تو ایک بار سوچ لینا کہ وہ دعا مانگنے آیا ہے، یا ووٹ لینے؟ اور اگر دونوں نہ ہو، تو ممکن ہے وہ صرف سیلفی لینے آیا ہو تاکہ کل پوسٹ پر کیپشن لکھے: ”الحمدللہ، آج ایک سادہ مگر باکمال بزرگ سے ملاقات ہوئی“، اور تمہاری شکل پہ بڑا سا بندر کا emoji لگا دے۔
ہمارے معاشرے میں ٹوپی صرف سر ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں، ایک پورا فلسفہ ہے۔ کوئی سفید ٹوپی پہنے تو لگتا ہے ابھی مسجد کے چندے کا حساب لینے آیا ہے، کوئی رنگ برنگی ٹوپی ہو تو سمجھو یہ بندہ عرس میں نعرہ لگاتا ہوا آیا ہے۔ اور اگر ٹوپی کے ساتھ ساتھ جیب میں ایک پرانا موبائل اور زبان پر ”جی حضور“ ہو، تو سمجھ جاؤ کہ بھائی صاحب کسی سیاسی امیدوار کے ”ذاتی خدمت گزار“ ہیں، جن کا کام صرف تصویریں بنوانا، ”ہاں جی جی“ کرنا اور ”کامیاب جلسے“ کی فیس بک پوسٹ پر دل کے ایموجی دینا ہے۔ اور اگر ان میں سے کوءی ٹوپی نہ نظر آے تو پھر آئنہ دیکھیے، ٹوپی نظر آ جاے گی۔
یہاں عوام بھی کمال کی ہے۔ جیسے ہی کوئی بندہ داڑھی بڑھا کر ٹوپی پہن لے، سب کہیں گے ”ماشاء اللہ، کتنے نیک ہو گئے!“ حالانکہ اندر وہی بندہ چھپا ہے جو دو دن پہلے بازار میں آم چکھ چکھ کر بیچنے والے سے الجھ رہا تھا کہ ”بھائی یہ کھٹے ہیں، اس کی جگہ لیموں ہی دے دیتا!“ اب وہی صاحب سوشل میڈیا پر ”اخلاص“ اور ”تزکیہ نفس“ پر لیکچر دے رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ طبقہ جو ہر بات پر کہتا ہے، ”جناب! ہم تو خالص دین کے خادم ہیں"، اُن کے خادم اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ لگتا ہے دین کے اِرد گِرد کوئی ہوٹل کھلا ہے، جہاں سب نے "ویٹر" کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے اور ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر گاہک کو خوش کرنے کی کوشش میں ہے۔
آج کل مسجدوں میں دین ہو یا نہ ہو، ٹوپیاں ضرور ہوتی ہیں۔ بس اتنی تعریف ٹھیک ہے۔ آخر میں اتنا عرض ہے کہ:
ٹوپی اچھی چیز ہے، پہنیں ضرور، دل سے پہنیں، سر پر رکھیں، مگر خدارا اس سے اپنی نیت کو نہ چھپائیں۔ کیونکہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب بندہ قبر میں اترے گا، اور وہاں صرف دل کے اعمال کا وزن ہو گا، ٹوپی کا نہیں۔ اور یاد رکھیے جناب! اگر ہر بندہ ہمیں ٹوپی پہنانے لگے، تو پھر ہمیں خود بھی اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر دیکھنا چاہیے، کہیں عقل بھی ہے یا سب ٹوپی نے ڈھانپ لی ہے؟
یہ تحریر ہر اس قاری کے لیے ہے جس نے کبھی کسی ٹوپی والے کو دیکھا ہو اور دل میں یہ سوال ضرور اٹھا ہو: ”اس ٹوپی کے نیچے آخر ہے کیا؟“

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 52 Articles with 17181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.