داڑھی، دل اور دھوکہ

کبھی کبھی سوچتا ہوں، اگر داڑھی کو انسان بنا دیا جائے تو وہ سب سے زیادہ کنفیوز مخلوق ہو گی۔ نہ اسے خود پتہ ہو گا کہ وہ نیکی کی علامت ہے، فیشن کا حصہ ہے، عمر رسیدگی کی نشانی ہے، یا صرف شوقیہ اگایا گیا کھچڑی باغ ہے جسے صبح شام کنگھی کے ذریعے حوصلہ دیا جاتا ہے کہ ”بس تھوڑا سا اور بڑھ جا، اگلے مہینے نکاح کی بات پکی ہے۔“
اب دیکھیں نا، زمانہ قدیم میں داڑھی مردانگی کی علامت تھی۔ جو جتنی لمبی داڑھی رکھتا تھا، اتنا زیادہ عزت دار سمجھا جاتا تھا۔ لوگ ایسے بندے سے مسئلہ پوچھتے، پانی منگواتے، مسجد کے اگلے صف میں جگہ دیتے۔ اور اگر غلطی سے وہ بندہ اونچی آواز میں کھانستا بھی، تو ساتھ والے فوراً آمین کہہ دیتے۔ لیکن اب داڑھی کے ساتھ دل صاف ہو یا نہ ہو، تصویر صاف ہونی چاہیے۔ انسٹاگرام پر اگر داڑھی ٹھیک سے چمک رہی ہو، تو فالوورز کی لائن لگ جاتی ہے۔ کپڑے استری شدہ ہوں یا نہیں، داڑھی میں بادام کا تیل ضرور ہونا چاہیے، اور وہ بھی برانڈڈ! تاکہ ویڈیو بناتے وقت ”ایمان داری“ کی خوشبو ساتھ ساتھ آئے۔ کبھی کبھی تو داڑھی خود بھی حیران ہو جاتی ہو گی کہ بھائی، میں یہاں دین کی نشانی بن کر آئی تھی، یہ بندہ تو مجھے وی لاگ میں استعمال کر رہا ہے! اب مسئلہ صرف داڑھی رکھ لینے کا نہیں رہا، بلکہ اب تو اس کے maintenance کا بجٹ بھی شادی کے خرچے جتنا ہو گیا ہے۔ ہر مہینے ”داڑھی اسپیشلسٹ“ کے پاس جا کر اس کو خاص زاویے پر کٹوانا، بادام روغن سے چمکانا، پھر اس پر عطر چھڑکنا اور جب آئینے میں خود کو دیکھو تو گمان ہو کہ ابھی خطبہ جمعہ دینے جا رہا ہوں، حالانکہ اصل پروگرام ”مہندی فنکشن“ کا ہوتا ہے۔ پھر ایسے افراد کو جب کوئی سمجھانے کی کوشش کرے کہ بھائی! ظاہری حلیہ اچھی بات ہے، لیکن اصل چیز دل کی صفائی ہے، نیت کی سچائی ہے، تو فوراً جواب آتا ہے: ”استغفراللہ! آپ داڑھی کا مذاق اڑا رہے ہیں؟“ نہیں بھائی، داڑھی کا مذاق نہیں، تمہارے double standards کا مذاق بن رہا ہے۔ داڑھی کو shield نہ بناؤ، خود shield بنو! کردار سے، گفتار سے، عمل سے۔
کچھ داڑھیاں ایسی بھی دیکھی گئی ہیں جو ہر موسم کے ساتھ بدلتی ہیں۔ رمضان میں پوری نیت کے ساتھ اُگتی ہیں، عید کے دن فیشن کی قینچی کے نیچے قربان ہو جاتی ہیں۔ اور کچھ حضرات تو صرف جمعہ کو داڑھی رکھتے ہیں، جیسے باقی دنوں میں ایمان چھٹی پر ہوتا ہے۔ پھر ایک اور قسم ہے: ”داڑھی برائے کاروبار۔“ اب یہ داڑھی نما حضرات مارکیٹنگ کے شعبے میں ہوتے ہیں، لیکن بات ایسے کرتے ہیں جیسے تبلیغی جماعت کے امیر ہوں۔ ہر جملے کے آخر میں ”الحمدللہ“، ”جزاک اللہ“ اور ”بس بھائی، دل صاف ہونا چاہیے“ کہہ کر ایسے معصوم بن جاتے ہیں جیسے کرنٹ لگا ہو۔ اور بعض لوگوں کی داڑھی ایسی متحرک ہوتی ہے کہ ہر دو ہفتے بعد نئی شکل اختیار کرتی ہے۔ آج ”فرینچ بیئرڈ“، کل ”چن اسٹرپ“، پرسوں ”عالمی تبلیغی طرز“ یعنی اُن کی داڑھی کو بھی پتہ نہیں کہ اگلے ہفتے کہاں ٹریول کرنا ہے۔
ایک بار ایک دوست نے کہا، ”یار میں نے تو داڑھی صرف اس لیے رکھی کہ لوگ کہیں گے 'ماشاءاللہ بہت تبدیل ہو گئے ہو'۔“ میں نے کہا، ”بھائی! داڑھی تبدیلی کا ذریعہ نہیں، ذمے داری کا نشان ہے۔“ بس کیا تھا، پہلے بندہ غائب ہوا اور کچھ دن بعد چھِلا ہوا مرغا نظر آیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے داڑھی کو مقصد کی بجائے میک اپ بنا دیا ہے۔ جیسے ہی کوئی داڑھی رکھ لیتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ اب یہ انسان جھوٹ نہیں بولے گا، دھوکہ نہیں دے گا، اور زکوٰۃ میں رعایت نہیں مانگے گا۔ حالانکہ جھوٹ بھی وہی، چالاکی بھی وہی، بس اندازِ گفتگو میں ”میرے محترم بھائی“ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ جب کوءی خاتون میک اپ کر لیں تو سب کہتے ہیں کہ بڑی خوبصورت ہیں۔ اور میک اپ اتار لیں تو لوگوں کو اگلے پچھلے یاد آ جاتے ہیں۔ اور پھر شادی کی بات ہو تو داڑھی اور بھی زیادہ ”پریشان“ ہو جاتی ہے۔ کچھ لڑکیوں کی مائیں کہتی ہیں: ”ہمیں نیک لڑکا چاہیے، مگر شکل ذرا ماڈرن ہو، داڑھی ہو بھی، اور نہ بھی ہو۔“ ارے بی بی! داڑھی کوئی مرض ہے جو کبھی ہو، کبھی نہ ہو؟ یہ تو ایک مستقل طرزِ زندگی ہے، نہ کہ سیزنل بیماری۔ اور ہاں، یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ بعض لوگ داڑھی کے ساتھ اتنے ڈرامائی ہو جاتے ہیں کہ اگر مسجد میں کسی نے اُن سے پہلے سلام کر لیا تو دل ہی دل میں کہتے ہیں، ”اللہ تیرا شکر ہے، میری داڑھی نے کام دکھا دیا!“ اور کیا آپ نے کبھی وہ صاحب دیکھے ہیں جو ATM پر بھی ایسے سنجیدہ ہوتے ہیں جیسے فتویٰ جاری کر رہے ہوں؟ اُن کی داڑھی اتنی وزنی لگتی ہے کہ لگے ابھی کوئی پنج وقتہ نماز کی ویڈیو بنے گی۔ لیکن اندر سے اگر اُن کا WhatsApp کھولو تو پتا چلے گا ”گروپ کا نام: فرشتے ان ایکشن“ اور پوسٹ ہو رہا ہوتا ہے: ”دعاؤں کی درخواست، مگر صرف smart لڑکیوں سے۔“ مطلب یہ کہ ظاہری چیزوں کو نشانِ شرافت مان لینا سادہ لوحی ہے۔ اصلی بزرگی وہ ہے جو اندر سے جنم لے، جو آنکھوں میں ہو، گفتگو میں ہو، اور دِل میں ہو۔
ویسے بعض نوجوان صرف داڑھی رکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب انہیں ہر بزرگ ”بیٹے“ کی بجائے ”مولوی صاحب“ کہہ کر بلائے گا۔ حالانکہ اُن کا موبائل فون مسلسل vibrate کر رہا ہوتا ہے کیونکہ انسٹاگرام پر reels کی notification آ رہی ہوتی ہے، جس میں وہ خود کسی sad ghazal پر ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں اور داڑھی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بے حد ”روحانی“ نظر آنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے، داڑھی چہرے پر ہو مگر دل میں، سچ، اخلاص، کردار، یہ چیزیں ٹرمنگ سے نہیں آتیں۔ داڑھی رکھیے ضرور، یہ سنت ہے، فخر ہے، مگر ساتھ میں خود کو سنوارنا بھی نہ بھولیں۔ کیونکہ اگر داڑھی کے نیچے چہرہ دھوکہ ہو، تو وہ ظاہری احترام بھی ایک دن تھک کر خاموش ہو جاتا ہے۔ آخر میں میری طرف سے داڑھی رکھنے والوں کے لیے محبت بھرا مشورہ:
داڑھی کو عزت دو، وہ تمہیں عزت دے گی۔ لیکن اگر داڑھی کو بہانہ بنا کر بددیانتی کرو گے، تو لوگ کہیں گے، ”یہ تو کھجور کی لکڑی پہ شربت لگا کے بیچ رہا ہے!“ داڑھی صرف اُگانا کافی نہیں، نبھانا بھی آنا چاہیے۔ ورنہ بندہ نہ فیشن میں رہتا ہے، نہ دین میں، صرف memes میں آ جاتا ہے!

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 53 Articles with 17787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.