آج ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایسے معجزاتی دور میں جی
رہے ہیں جہاں افراد اور قوموں کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لاتعداد مواقع
میسر ہیں.
چین, انڈیا, ملائیشیا, ترکی, سنگاپور, دبئی کے علاوہ مختلف افراد نے ایسی
ملٹی نیشنل کمپنیاں کھڑی کی ہیں کہ ان کے مالی ذخائر کئی ملکوں کی مجموعی
معیشت سے زیادہ ہیں جیسا کہ ایپل, ایمزون, علی بابا وغیرہ. صرف ایپل کے پاس
ڈھائی سو امریکی ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی ذخائر ہیں اور اور اس کے تمام
اثاثوں کی مجموعی مالیت پولینڈ کہ اثاثوں سے زیادہ ہیں جو دنیا کی 20 ویں
بڑی معیشت ہے. علی بابا نے 2018 میں صرف سنگل ڈے کے موقع پر تقریبا 31 بلین
امریکی ڈالر کا کاروبار کیا جو بہت سے ملکوں کی سالانہ بین الاقوامی تجارت
سے زیادہ ہے.
ان سب ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر خود پر بھروسہ
ہو, ویژن ٹھیک ہو, اپروچ سائنٹیفک ہو, خلوص نیت, محنت اور مستعدی سے کام
کیا جائے تو قوموں کو غربت اور پسماندگی سے نکال کر انہیں خوشحالی اور ترقی
کی بلند منازل تک پہنچایا جاسکتا ہے بلکہ باقی دنیا کے لیے مشعل راہ بنا یا
جاسکتا ہے.
آج کا پاکستان جہاں گوناگوں مسائل کا شکار ہے وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے
کہ ہم 70 سالوں میں اپنے لئے سمت کا تعین تک نہیں کرسکے اور اپنے مستقبل سے
ناامید اور مایوس ہوکر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں بیٹھے
ہیں جو آکر نہ صرف ہمارے تمام مسائل حل کرے بلکہ ہر طرف اور شہد کی نہریں
بہا دے. ہم اپنے ارد گرد کی دنیا اور قوانین خداوندی کچھ سیکھنے کو تیار
نہیں. قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
لیس ال انسان الا ما سع
ہم انسان کو وہی کچھ عطا کرتے ہیں جس کی وہ کوشش کرتا ہے
اگر ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو دیکھیں تو صرف وہی قومیں ترقی کی راہ پر
گامزن ہو سکی ہیں جنہوں نے اپنی منزل کا تعین کیا اور اپنے تمام وسائل
بروئے کار لایا کر راہ منزل کی طرف گامزن ہوئی اور اللہ نے انہیں کامیابی
نصیب کی. ترکی اور بالخصوص موجودہ ترک صدر طیب اردگان اس کی زندہ مثال ہے.
ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ استنبول کی گلیوں میں اخبار بیچ کر
اپنے گھر اور تعلیم کے اخراجات اٹھا کر ناصرف اپنا اور اپنے گھر والوں کا
سہارا بنا بلکہ اسی شہر کا میر بھی بنا. میر بن کر اس نے استنبول کی تقدیر
بدل دی. شہر کو تمام قسم کی انتظامی بے اعتدالیوں سے پاک کیا, کرپشن کو جڑ
سے اکھاڑ پھینکا, سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کیا, روزگار کے مواقع پیدا کیے,
تعلیمی نظام بہتر کیا. دو ارب امریکی ڈالر کے مقروض شہر کا نہ صرف قرض
اتارا بلکہ 4 ارب امریکی ڈالر لگا کر شہر کی جدید بنیادوں پر تعمیر نو کی.
طیب اردگان 2003 میں ترکی کے وزیراعظم بنے اس کے بعد ترک عوام نے انہیں
مسلسل منتخب کر کے مسند اقتدار تک پہنچایا.
طیب اردگان نے ترکی کو دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت بنادیا. برآمدات کو بے پنا
اضافے کے ساتھ 168 ارب امریکی ڈالر تک پہنچا دیا. ترکی کے کمزور جمہوری
نظام جس میں فوج باقاعدہ اقتدار کا حصہ تھی کو مکمل اور مضبوط جمہوری نظام
بدل دیا. دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں غرض وہ فلسطینی ہوں, کشمیری ہوں,
افغانی ہو, شامی یا برما میں ہوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی. آج ترکی مسلم
دنیا میں قائدانہ کردار ادا کررہا ہے.
عمران خان جو ترکوں کے قائد اتاترک اور موجودہ رہبر طیب اردگان سے متاثر
ہیں ان کا دورہ ترکی بجا طور پر ترکی سے مثالی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے
جانے, پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے ترکی کے تجربات سے سیکھنا اور تعاون
حاصل کرنے کا ایک سنہری موقع ہے. تین مختلف اور بڑے شعبوں میں ہم اردگان کے
ترکی کے تجربات سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں.
1. ناموافق حالات میں اپنی تعمیر و ترقی کس طرح کرنی ہے. کیونکہ طیب اردگان
کا یہ سفر بہت پیچیدہ اور نشیب و فراز سے عبارت ہے. ترکی کی اسلام مخالف
عدالتوں نے انیس سو ننانوے میں اردگان کو اس کے اسلامی نظریات کے اظہار پر
بطور سزا پابند سلاسل کر دیا تھا اور کسی بھی آئینی عہدے کے لئے نااہل
دیدیا. ترکی کے سیکلر طبقہ اور سخت گیر سیکولر فوج اردگان کے ہر وقت تعاقب
میں تھی اور وقت معزولی کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی.
2. ترکی کی معاشی حالات کم و بیش ہمارے جیسے تھے وہ بھی آئی ایم ایف پیکج
پر تھا. گویا اردگان کو عمران خان کے مقابلے میں سخت ناموافق حالات کا
سامنا تھا.
3. کس طرح اردگان نے خاموشی اور مربوط حکمت عملی سے ترکی کو ترقی کی منازل
طے کرائیں, اسلام مخالف آئینی نکات کو آئین سے نکالا اور جمہور کی زندگی
میں بہتری لا کر جمہور کو جمہوریت پاسبان بنا دیا یہ قابل رشک اور قابل
تقلید ہے.
عمران خان کی حکومت جو کام سے زیادہ تقریریں اور سیاسی کشیدگی پیدا کرنے
والے بیانات کے باعث ہیڈلائنز میں ہے اسے اردگان کی خاموشی سے آگے بڑھنے
اور اپنا راستہ بنانے والی حکمت عملی کی سخت ضرورت ہے.
چین, ملائیشیا اور ترکی جیسے دوست ممالک کی مثالی ترقی کے ماڈلز ایک دوسرے
سے مختلف ہیں لیکن ہر ایک بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جو نہ صرف ہمیں ترقی کی
منازل طے کرنے میں مشعل راہ بلکہ مہمیز کا کام دے سکتا ہے- |