پنجاب دو لفظوں کا مجموعہ ہے ۔پنج (پانچ)آب (پانی)، یعنی
پانچ پانیوں یا پانچ دریاؤں کی سرزمین۔وید جو ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتابیں
ہیں، ان میں اس سرزمین کو سپت سندھو کہا گیا ہے سپت سندھو کا مطلب ہے سات
دریاؤں کی سرزمین ۔شاید کسی دور میں یہاں سات دریا ہوتے ہونگے۔جن میں
ہندوؤں کا مقدس دریا سرسوتی بھی شامل ہے جو کہیں صحراؤں میں خشک ہو چکا۔یہ
علاقہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کا علاقہ
تھا۔ ویدوں کے مطابق اس خطے کا اس وقت کا اہم ترین واقعہ دس بادشاہوں لڑائی
ہے جو دریائے راوی کے کنارے ہوئی۔مہا بھارت میں بیان پانڈؤں اور کوروں کی
لڑائی بھی پنجاب کی دوسری اہم تریں لڑائی جانی جاتی ہے۔ 330 ق م میں سکندر
اعظم نے پنجاب پر حملہ کیا۔ 320 ق م میں اقتدار میں آنے والے چندر گپت
موریہ کے زمانے میں پنجاب بر صغیر میں علم و ہنر کا بہترین مرکز مانا جاتا
تھا ۔ گندھارا کی ٹیکسلا یونیورسٹی میں اس وقت ساٹھ کے قریب مضامین کی
تعلیم دی جاتی تھی۔
مگر آج یہ پانچ دریاؤں جہلم ، چناب، راوی، ستلج اور بیاس کی سر زمین ہے اور
ابتدائی مسلمان حملہ آوروں نے اسے پنجاب کا نام دیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ
خطہ ایک تکون ہے۔جس میں دریائے سندھ اور ستلج کا درمیانی علاقہ شامل ہے۔
1849 میں سکھوں کے اقتدار کے مکمل خاتمے کے بعد انگریزوں نے پنجاب کو
انتظامی طور پر چھ ڈویژن میں تقسیم کیا۔ 1901 میں شمال مغربی سرحدی صوبے کی
تشکیل کے وقت پنجاب کی ہزارہ ڈویژن کو نئے صوبے میں شامل کر لیا گیا اور
پنجاب پانچ ڈویژنوں پر مشتمل رہ گیا جو دہلی، جالند ھر، لاہور، ملتان اور
راولپنڈی تھے۔ ان ڈویژن کے علاوہ پنجاب میں اٹھارہ خود مختار ریاستیں بھی
تھیں جن کے والی انگریزوں کے سائے تلے اپنی خود مختاری قائم رکھے ہوئے
تھے۔1947 میں پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً54 فیصد تھی ۔مذہبی
بنیادوں پر بر صغیر کی تقسیم ہوئی توپنجاب بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ دہلی
اور جالندھر کے دونوں ڈویژن مکمل اور لاہور ڈویژن کے دو علاقے امرتسر اور
گورداسپور بھارت کے حصے میں آئے۔ لاہور ڈویژن کے علاقے لاہور، گوجرانوالہ،
گجرات،لائلپور، منٹگمری، شیخوپورہ اور سیالکوٹ پاکستان میں شامل ہوئے۔ ان
کے علاوہ دو پورے ڈویژن، راولپنڈی جس میں راولپنڈی، جہلم، شاہ پور(سرگودھا)
اور اٹک کے علاقے شامل تھے اور ملتان جس میں ملتان ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی
خان، جھنگ اور میانوالی شامل تھے ،پاکستان کے حصے میں آئے ۔پنجاب کے کل
133741 مربع میل رقبے میں سے 79284 مربع میل پاکستان اور 54457 بھارت کے
حصے میں آیا۔پنجاب کی 18 ریاستوں میں سترہ نے بھارت سے الحاق کیا جبکہ فقط
ایک ریاست بہاولپور نے پاکستان سے الحاق کیا۔
بھارت کے حصے میں آئے مشرقی پنجاب میں ہندوؤں کی آبادی64 فیصد کے لگ بھگ
تھی۔اور 1947 کے بعد میں بھارت میں جتنے بھی انتخابات ہوئے،ان میں کانگرس
بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔جس کے نتیجے میں سکھوں میں ایک بے چینی پیدا
ہوئی اور انہوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ کیا۔ ستمبر 1966 میں
بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ان کا مطالبہ مان لیا اور مذہبی
بنیادوں پر پنجاب ایک دفعہ پھر تقسیم ہو گیا۔پنجاب کے شمال میں واقعہ
پہاٖڑی علاقوں پر مشتمل علاقے کو کچھ مزید علاقے شامل کر کے ہماچل پردیش کے
نام سے ایک صوبے کی شکل دے دی گئی۔ پنجاب کے جنوب میں ہندی بولنے والی
اکثریتی ہندو آبادی کے علاقے کو ہریانہ کے نام سے ایک صوبہ بنا دیا گیا اور
یوں مرکزی حصہ پنجاب کے نام سے سکھوں کو دے کر انہیں مطمن کر دیا گیا۔ دہلی
بحیثیت بھارت کے دارالحکومت پہلے ہی پنجاب سے علیْحدہ ہو چکا تھا۔
1947 میں پاکستان کے حصے میں آنے والے پاکستانی پنجاب میں خالصتاً
مسلمانوں(97.2 %) کی آبادی تھی۔ اور یہاں سبھی کی زبان یا ماں بولی پنجابی
تھی۔ چنانچہ ایک بولی، ایک مذہب اور ایک کلچر کی بنیاد جو کسی علاقے کی
ثقافت کہلاتی ہے،یہ حصہ پنجاب کے نام سے پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔آج یہ صوبہ
گیارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا
اور 205344 Sq KM رقبے کے ساتھ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ
ہے۔
ناکام سیاستدان اپنی ناکامیوں کو سہارا دینے کے لئے علاقائی اور لسانی
سیاست کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ 1905 میں پنجاب سے علیحدہ ہونے والی ہزارہ
ڈویژن کے لوگ ایک خاص لہجے میں پنجابی بولتے ہیں جسے’’ ہندکو‘‘ کہتے ہیں۔’’
ہندکو‘‘ بولنے والے لوگوں نے خیبر پخونخواہ سے علیحدگی کے لئے کئی بار
بھرپور مہم چلائی مگر ہر دفعہ ان کی تحریک کچل دی گئی۔ پنجاب کے جنوب میں
سرائیکی لہجے میں پنجابی بولنے والے علاقے میں بھی سرائیکی صوبے کی تحریک
ایک عرصے سے چل رہی ہے۔ اس علاقے کو لسانی بنیادوں پر صوبہ بنانے کا وعدہ
پچھلی سبھی حکومتیں کرتی رہی ہیں مگر عملی اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہیں۔
موجودہ حکومت کے منشور میں بھی یہ وعدہ شامل تھا اور کمال یہ تھا کہ اس پر
عملدرآمد فقط سو دن میں کرنے کی نوید بھی تھی۔جو اب تک اک مذاق ہی سمجھا جا
رہا ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ یہ تفریق جو آج ہم لسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں، کہاں
ٹھہرے گی۔ وہ پنجابی لہجہ جو پنجاب کا سٹینڈرڈ لہجہ ہے وہ مشرقی پنجاب میں
ماجھی بولی کہلاتا ہے ۔ پاکستانی پنجاب کے بیشتر علاقوں، لاہور ،
گوجرانوالا، قصور، سیالکوٹ ،گجرات ، ساہیوال وغیرہ میں یہی سٹینڈرڈ لہجہ
بولا جاتا ہے۔یہی لہجہ پنجابی فلموں، ڈراموں اور تھیٹرکا لہجہ ہے۔جوں جوں
مرکزی پنجاب سے پنجاب کے دوسرے علاقوں کو بڑھیں۔ لہجے میں تھوڑی تھوڑی
تبدیلی آتی جاتی ہے۔گجرات سے آگے راولپنڈی تک پوٹھوہاری اور اس سے آگے
ہندکو لہجہ ہے۔سرگودھا میں شاہ پوری،فیصل آباد اور ساہیوال کے گرد و نواح
میں جانگلی، خانیوال، جھنگ اور حافظ آباد کے علاقوں میں جھنگوی،چکوال اور
اٹک وغیرہ میں دھانی، ملتان میں سرائیکی اور ان کے علاوہ پنجاب میں سینکڑوں
لہجے ہیں۔ لسانی بنیادوں پر اگر جنوبی پنجاب کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے ،
تو کیا ضمانت ہے کہ اس صوبے میں شامل بہاولپور والے ریاستی اور چولستان
والے چولستانی اورسندھ اور بلوچستان سے ملحقہ علاقے جعفری اور کھیترانی
بولی کی بنیاد اپنے اپنے صوبے کی بات نہیں کریں گے۔ لسانی یابولی کی بنیاد
پر اگر تقسیم کی ابتدا ہو گئی تو ایک نہ رکنے والا افسوسناک سلسلہ شروع ہو
گا جسے روکنا ممکن نہیں ہو گا۔
ابن خلدون کہتے ہیں کہ نظام کے اعتبار سے کوئی قبیلہ کتنا ہی سادہ کیوں نہ
ہولیکن اس میں حکومت کے حصول کی قدرتی خواہش ہوتی ہے۔ اس خواہش پر حکومتیں
قائم ہوتی اور مجتمع وجود میں آتا ہے۔ابن خلدون اس خواہش کو عصبیت کا نام
دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عصبیت نسب، رشتے علاقے اور دین کے ذریعے حاصل
ہوتی ہے اور دینی عصبیت سب کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتی ہے۔ 1947 میں جب
پاکستان وجود میں آیایہی عصبیت سب سے زیادہ کارفرما تھی۔مگر آج ہماری ساری
مشکلات کا سبب لسانی اور علاقائی عصبیتیں ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ امیر
جماعت اسلامی جنہیں دینی عصبیت کا امین ہونا چائیے آج لسانیت کی بنیاد پر
صوبوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ لوگوں کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے نئے
صوبوں کا قیام ضروری ہے۔ مگر صرف پنجاب میں نہیں۔ بلوچستان میں ایرانی سرحد
کے قریب بسنے والے لوگوں کو کوئٹہ آنے میں جن مشکلات کاسامنا ہوتا ہے اس کے
بارے بھی سوچنا ہو گا۔ مشکلات بہت سے علاقوں میں ہیں ۔ان تمام لوگوں کی
مشکلات نئے صوبے بہت ضروری ہیں مگر یہ نئے صوبے لسانی نہیں خالصتاً انتظامی
بنیادوں پر وجود میں لانے ہوں گے۔ً
|