’’آج سے انتالیس برس قبل 27دسمبر 1979ء کو سابق سوویت
یونین کے سرخ ریچھ نے افغانستان پر وحشت ناک جارحیت کی۔اس جارحیت کے زمانے
میں سرخ ریچھ دنیا پر قبضہ جمانے کے اسی طرح عزائم رکھتا تھا، جس طرح آج
امریکہ کے ہیں۔روس مشرقی یورپ پر قبضے بعد افغانستان کے راستے سے خاص کر
بحیرۂ عرب ہند کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا مگر وہاں پہنچنے سے قبل
افغانوں کی مزاحمت کے لہو کے گرداب میں اس طرح غرق ہو اکہ ماسکو کے یورپی
مقبوضات کے علاوہ وسطی ایشیا کے مقبوضہ ممالک بھی اس کے چنگل سے نکل گئے۔
افغان مجاہد عوام آج اس حال میں شکست خوردہ روسیوں کی جارحیت کی 39 ویں
برسی کی مذمت کر رہے ہیں، جنہوں نے اسی طرح اﷲ تعالی کی نصرت اور اپنے سترہ
سالہ جہادی مزاحمت کی برکت سے امریکی استعمار کو آج اسی حالت سے دوچار کیا
ہوا ہے، جس طرح روسی حملہ آور ذلیل ہوئے تھے۔امریکہ کی فوجی طاقت کو کمزور
کر دیا ہے۔ اس کی تاریخ کی طویل ترین لڑائی میں افغانستان سے نکلنے
اورٹھہرنے کی راہ بند کر دی ہے۔ حقیقت کو دیکھا جائے، تو افغانستان پر سابق
سوویت یونین کی وحشیانہ جارحیت کی 39ویں برسی امریکہ کے لیے ایک بہترین درس
ہے جس سے امریکی حکام کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ وہ روس کی شکست سے عبرت
حاصل کریں اور آزمودہ کار افغانوں سے مزید طاقت آزمائی کی سوچ چھوڑ
دیں۔امارت اسلامیہ افغانستان روسی جارحیت کے نتیجے میں افغانوں پر سرخ فوج
کے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی اور ان کے خلاف افغان جہاد کی ستائش
کرتے ہوئے اس پر فخر کرتی ہے ۔ اسی مناسبت سے امریکی استعمار کوپھر دامن
تھام کر افغانستان سے نکلنے اور آئندہ طاقت آزمائی کے بجائے قانونی،سفارتی
اور معاشی روابط کی تلقین بھی کرتی ہے۔‘‘
27دسمبر 2018کو جب افغانستان پر روسی قبضے کے 40سال مکمل ہو رہے تھے تویہاں
اس حملے کی 39ویں برسی تھی۔ وہ 24 دسمبر 1979ء کا دن تھا جببے پناہ طاقت کے
ساتھ روسی فوجیں سرحد عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوئی تھیں تو 27دسمبر
کو کابل’’ فتح‘‘ کر کے اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا تھا۔ اسی موقع پر
ذبیح اﷲ مجاہد نے یہ بیان جاری کیا تو کرہ ارض کی واحد سپر بلکہ سپریم پاور
نے جوابی بیان داغا ’’ ہم افغان طالبان کے لئے روزگار کا سوچ رہے ہیں‘‘
یہ ساری باتیں تب ہو رہی ہیں جب افغانستان میں امریکہ نے انتہائی محفوظ
کیمپوں میں محصور اپنی 14ہزار فوج میں سے نصف کو نئے سال کے نصف میں نکالنے
کا اعلان کیا ہے۔وہی امریکہ جس کے تکبر کا یہ عالم تھا کہ اس نے محض
نافرمانی پر اس بے یار و مددگار اور نحیف و نزار ملک کو مکمل تہ و بالا
کرتے ہوئے اپنے تئیں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا تھا۔نائن الیون کے بعد جب
امریکہ نے بپھرے ہاتھی کی طرح چنگھاڑتے ہوئے مقابل کی چیونٹی کو لاکھوں ٹن
بارود کی بے محابا بارش وبرسات کے ذریعے روندا تھا تو اس کی ’’بہادر فوج
‘‘نے اس زمین پر اتر کر پہلا قدم تب رکھا تھا جب انہیں اس بات کا 100% یقین
ہو گیا کہ اب یہاں ان کے مقابل کوئی اونچا سانس لینے والا بھی نہیں
بچا۔کہاں وہ دنیا کی ساری طاقتیں اور کہاں لٹا پٹا اور بے آب و گیاہ
افغانستان اور کہاں آج انہی کے قدموں میں گری سپر پاوری اور اس کی شان۔
افغانیوں نے امریکہ کواس روس کا سبق کیوں یاد کروایا جسے شکست دینے اور
شکست و ریخت سے دوچار کرنے کے دعوے ایک زمانے میں امریکہ کرتا رہا ۔آج بھی
ہمارے ہاں پائے جانے والے کتنے بزعم خویش نقل کے گھوڑے دوڑانے والے بزر
جمہر کہتے پھرتے ہیں کہ روس کو تو امریکہ نے شکست دی تھی لیکن اب کی بار ان
کی زبانیں پکی گنگ ہیں کہ تب ایسا ہوا تو اب امریکہ کیوں اس حال سے دوچار
ہے جس کے سامنے تو سارا جہاں دم سادھے کھڑا ہوتا تھا۔یہ لوگ اتنا کبھی نہیں
بتا پاتے کہ روس کے خلاف افغان جہاد میں امریکہ کا اتنا بڑا کردار تھا تو
اس کے کتنے لوگ یہاں مارے گئے؟البتہ آج اس امریکہ کو روس کی شکست سے تاریخ
کا سبق وہی پڑھا رہے ہیں جنہوں نے ماسکوکو یہ سبق سکھایا تھا۔ وہی
افغانستان جس کے بارے میں ضرب المثل مشہور ہے ’’اﷲ آپ کو کوبرا سانپ کے زہر،
شیر کے دانتوں اور افغان کے انتقام سے بچائے۔‘‘ وہی افغان جن کے بارے میں
ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے انہوں نے اپنی تاریخ میں کبھی کسی غیر ملکی جارح
کو اپنے اوپر نہ حکومت کرنے دی اور نہ یہاں ٹھہرنے دیا۔فاتحین عالم میں سے
ایک سکندر اعظم کی بے محابا طاقت نے انہیں بے پناہ قتل کر کے ان پر قبضے کا
اعلان تو کیا لیکن جیسے ہی سکندر نے یہاں سے باہر موجودہ پاکستان کی جانب
قدم بڑھایا تویہ صرف افغان تھے جنہوں نے اس سے اپنی سرزمین چھین لی تھی۔ ان
افغانوں نے اس کے بعد اگر کسی کو اپنے ہاں دل میں صحیح معنوں میں جگہ دے کر
اپنا تن من دھن بلکہ وطن تک ان کے سپرد کیا تھا تو وہ اسلام اور مسلمان تھے۔
انہوں نے اسلام کی اپنے ہاں آمد کے ساتھ ہی یہ دین قبول کر لیا تھا۔اس کے
بعد انہوں نے اسلام کو ایسا سینے سے لگایا کہ اپنے خطے کے بدترین اسلام
دشمنوں یعنی ہندوؤں کو ہمیشہ سبق سکھایا۔ یہیں سے نکلنے والے محمود غزنوی ،شہاب
الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی اسلام کی تاریخ کے وہ روشن ستارے بن کر
ابھرے کہ جن پر تاریخِ اسلام ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔اس کے مقابل مسلمانوں
کی عظیم سلطنت کو مٹانے اور عالم اسلام کو سب سے زیادہ خون میں نہلانے اور
سب سے زیادہ تباہی مچانے والے فاتح عالم کہے جانے والے چنگیز خان کو 13یں
صدی میں عبرت ناک شکست دینے والے واحد یہی افغان تھے۔انہی افغانوں نے سپر
پاور برطانیہ کو ایسی شکست در شکست دی کہ 1841ء میں کابل جنگ سے18500 فوج
میں سے اکیلے انگریزڈاکٹر برائڈن کو صرف اس لئے نکلنے دیا کہ وہ اپنی قوم
کو آ کر یہ بتا سکے کہ ان کے ساتھ کیا بیتی ۔ اب کے افغانوں کی طرح تب کے
امیر افغانستان نے برطانوی فوج سے کہا تھا ’’یہ سرزمین صرف پتھروں اور ُمرُدوں
کی ہے۔‘‘اسی عبرت انگیز مار کا نتیجہ تھا کہ اکتوبر 1963ء کو لگ بھگ سوا
صدی بعد جب برطانیہ میں ہیرلڈ میکملن نے حکومت نئے وزیر اعظم ایلک ڈگلس
ہیوم کے سپرد کرتے اسے مشورہ دیا۔ ’’جب تک تم افغانستان پر حملہ نہیں کرتے
تب تک تمہیں حکومت کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔‘‘
اسی افغانستان پر روس نے حملہ کیا تو یہاں افغانوں نے پھر تاریخ دہرائی۔ وہ
دنیا کی سب سے بڑی مہاجر قوم بنے۔20لاکھ سر کٹوا دئیے لیکن سوویت یونین کو
اس قدر مارا کہ ملک بھر میں آج بھی ان کے ٹینکوں ،ہوائی جہازوں اور ہیلی
کاپٹروں کے ڈھانچے ساری دنیا کوروسیوں پربیتی داستاں بیان کرتے نظر آتے
ہیں۔امریکی یہاں آئے تو ان کے سارے اتحادی یہ سب دیکھ کر اور اپنے ساتھ
بیتنے والے واقعات کے بعد جلد ہی بھاگ نکلے، البتہ امریکہ کچھ عزت کے ساتھ
نکلنے کی آرزو میں فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ اپنا تباہ شدہ سامان جنگ بھی
ڈھوتا رہا۔یہ سامان اتنا زیادہ تھا کہ کئی سال پہلے امریکی میڈیا نے باربار
لکھا ، امریکہ دنیا کا سب سے بڑا کباڑیا بن چکا ہے۔
افغانوں نے امریکہ کو ماضی اور مستقبل دونوں کا حال بتا بھی دیا اور دکھا
بھی دیا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کتنی جلدی یہاں سے سبق سیکھتا اوراپنی
لنگوٹی بچا کر نکلتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تب سوویت یونین کاسب سے بڑے
دعوے دار دوست بھارت تھا اور آج امریکہ کی پکی یاری کا بھی وہی دم بھر رہا
ہے تو افغانوں کی تاریخ اور حالات و واقعات دیکھ کر اس کی سانسیں خشک ہوئی
جا رہی ہیں کہ اسے روندے جانے کی بھی یقینا تاریخ دہرائی جانے والی ہے کہ
ظلم نے بہرطور مٹ ہی جانا ہوتا ہے۔افغان جب بھی ہند کی طرف بڑھے، ہندکے ظلم
کے خلاف بڑھے اور آج بھارت نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ظلم روا رکھا
ہوا ہے وہ بھی اسی تاریخ سے دوچار ہونے والا ہے جو افغانوں سے وابستہ ہے۔ |