ہم نے اپنی ذات سے آگے کبھی دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس
نہیں کی ۔ہم اگر صحت مند ہیں تو ساری دنیا صحت مند ہے ۔اگر ہمیں ٹھیک نظر
آتا ہے تو ساری دنیا کی بینائی ٹھیک ہے ‘ اگرچلنے میں کوئی دقت نہیں تو
پوری انسانیت آسانی سے چل پھر سکتی ہے ‘ اگر ہمارے کان سنتے ہیں تو ساری
دنیا کے کان ٹھیک ہیں ‘اگر ہمارا دل صحیح دھڑکتا ہے ‘ تو ہم یہی تصور کرتے
ہیں کہ ساری دنیا دل کے امراض سے محفوظ ہے۔ اگر ہم گردوں کے موذی مرض سے
محفوظ ہیں توگردوں کی بیماری میں مبتلا افراد کی تکالیف کا ہمیں احساس نہیں
ہوتا۔ اگر ہمارا جسم کینسر جیسی بیماری سے محفوظ ہے تو ہم یہی سمجھتے ہیں
کہ سبھی لوگ اس موذی بیماری سے محفوظ ہیں۔ اگر ہمیں شوگر اور بلڈپریشر کی
بیماری لاحق نہیں تو ساری دنیا ہی صحت منددکھائی دیتی ہے ۔ ہر انسان کی سوچ
کا دائرہ اپنی ہی ذات تک محدود ہے ۔ اگر خدانخواستہ ہمیں کوئی بیماری لاحق
ہوجاتی ہے تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری ہمیں ہی کیوں لاحق ہوئی‘ باقی
سب تندرست کیوں ہیں ؟ یہ وہ حقائق ہیں جو بطور انسان ہم سب کے ذہنوں میں
پرورش پاتے ہیں ۔بیماری لوگوں کی عیادت ‘ان کی مدد اور دل جوئی کا احساس
ختم ہوتاجارہا ہے ۔ مجھے ایک عزیز کے ساتھ گلاب دیوی ہسپتال جانا پڑا ۔اﷲ
کسی کو ٹی بی کی بیماری نہ لگائے ‘وہاں جاکر جو کچھ میں دیکھا وہ مجھے
مدتوں نہیں بھول سکتا ۔ٹی بی کی بیماری میں مبتلا انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ
دکھائی دیئے ۔ میں ان معالجین اور عملے کی ہمت کی داد دیتا ہوں جو ان کے
علاج و معالجے اور دیکھ بھال کے لیے وہاں ہر لمحے موجود رہتے ہیں۔ سچ
پوچھیں تو وہاں چند منٹ ٹھہرنا بھی محال ہوگیا ۔ اس لمحے میں دو افراد مجھے
بہت یا د آئے۔ ایک ممتاز صحافی ریاض بٹالوی جن کا یہ معمول تھا کہ وہ نماز
فجر اداکرنے کے بعد پھولوں کا گلدستہ بناکر روزانہ گنگارام ہسپتال جاتے اور
فردا فردا مریضوں کے پاس جاکر انہیں تازہ پھول دے کر ان کی دلجوئی کرتے۔ بے
شک پھول شفایابی کا باعث تو نہیں بن سکتے تھے لیکن بیماری سے تنگ آئے ہوئے
مریضوں کو چند لمحوں کے لیے خوشی کا احساس تو کروا دیتے ہوں گے ۔ کسی نے
کیا خوب کہا ہے کہ اگر زندگی کی حقیقت دیکھنی ہو تو ہفتے میں ایک دن کسی
بھی ہسپتال کاچکر ضرور لگائیں‘ جہاں انسانیت سسک سسک کر زندگی کا قرض ادا
کر تی ہے ۔انسان کو اپنی اوقات اوراہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے قبرستان
جانا چاہیئے جہاں بڑے بڑے پھنے خان (جو خودکودنیا کا اہم ترین انسان سمجھتے
تھے ) بے نام قبروں میں سو رہے ہیں۔مجھے دوسرا شخص ‘جنرل محمد ضیاء الحق
یاد آئے جن کی اپنی بیٹی ذہنی مریض تھی جس کو دلجوئی کے لیے وہ اپنے ساتھ
لیئے پھرتے تھے اس کے باوجود کہ خود گھر والے ایسے مریضوں سے تنگ آجاتے ہیں
اور فاؤنٹین ہاؤ س یا دماغی امراض کے ہسپتال میں ہمیشہ کے لیے داخل کروا
آتے ہیں لیکن جنر ل ضیا ء الحق نے پوری عمر ذہنی مریض بیٹی کو سینے سے لگا
ئے رکھا اور اس کی ہر غلط حرکت کو ہنس کے ٹال دیا ۔ میں سمجھتا ہوں یہی
انسانیت کا حقیقی روپ ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی ٹیلی ویژن پر
گونگے بہروں کے لیے اشاروں سے خبریں اور کھیلوں کی کمنٹری نشرہواکرتی تھیں
۔سرکاری ملازمتوں میں معذوروں کا کوٹہ مخصوص تھا ‘ ذہنی و جسمانی معذوروں
کے لیے آسانیاں پید ا ہورہی تھی ۔ یہ عمل ذہنی مریضوں کو معاشرے کا فعال
حصہ بنانے کے لیے اہم ترین فریضہ تھا۔افسوس کہ جیسے ہی ضیاء الحق دنیا سے
رخصت ہوئے پھروہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے ‘والی بات شروع
ہوچکی ہے ۔ کسی کوکم سنائی دیتا ہے کسی کو کم دکھائی دیتاہے ‘ کسی سے چلا
نہیں جاتا ‘کوئی زمین پر گھٹنوں کے آپریشن کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتا ‘کوئی
گھٹنوں میں درد کی وجہ سے سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا‘ کوئی معذوری کی وجہ سے
عام واش روم استعمال نہیں کرسکتا ۔صحت مند افراد اہم فیصلے کرتے وقت معاشرے
کے ان بیمار اور معذور افراد کی ضرورتوں کا ہر گز خیال نہیں رکھتے ۔کسی
مسجدمیں معذوروں کے لیے کموڈ والا باتھ روم نہیں ہوتا ۔میں نے اپنی آنکھوں
سے دیکھا کہ لوگ کھلی جگہوں پر جہاں واش روم نہیں ہوتے ‘شادی کے فنکشن رکھ
لیتے ہیں نوجوان تو چار پانچ گھنٹے برداشت کرسکتے ہیں لیکن کتنے ہی بزرگ
ایسی شادیوں میں موجود ہوتے ہیں جن کو حاجت روائی کے لیے سخت مشکلات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پنشنروں اور بل جمع کروانے والوں کی لمبی قطاریں بنکوں
کے باہر دکھائی دیتی ہیں بلکہ کئی بزرگ تو پنشن کے انتظار میں اﷲ کو پیارے
بھی ہوچکے ہیں ۔ گھٹنوں میں درداور آپریشن والے لوگ کموڈ کے علاوہ عام واش
روم استعمال نہیں کرسکتے لیکن حاجت روائی کی ضرورت ہر صحت مند انسان کی طرح
معذوروں اور بزرگوں کو بھی پیش آتی ہے ۔ لیکن پبلک ٹویلٹ ‘ مسجدوں کے
استنجا خانوں ‘ عام گھروں ‘ فیکٹریوں اور سرکاری و نیم سرکاری دفتروں میں
کہیں بھی کموڈ والے باتھ روم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے معذور اور بزرگ خواہش
کے باوجود کہیں آجا نہیں سکتے ‘ اگر کہیں چلے بھی جائیں تو ان کو اس قدر
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آنکھوں میں اپنی بے بسی کار ونا رونے کے
لیے آنسو اتر آتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار جو خود بھی ریٹائرمنٹ
کی عمر کو پہنچنے والے ہیں کہ وہ ہر قسم کے جسمانی معذوروں کی زندگی کو
آسان کرنے کے لیے حکومت کو حکم دیں کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی بھی کرے
اور ہمیشہ کے لیے معذوروں کو ذہنی اذیت سے بچانے کے لیے مطلوبہ اقدامات
اٹھائیں۔ جو معذور ملازمت کے اہل ہیں انہیں ملازمت دی جائے اور جو معذور
ملازمت کے قابل نہیں انہیں ماہانہ کم ازکم 15ہزار روپے معذوری الاؤنس کے
ساتھ ساتھ حکومت ایک ایسا کریڈٹ کارڈ جاری کرے جسے دکھاکر تمام معذور افراد
مفت علاج ‘ مفت سفر ‘ ہوٹلوں میں مفت رہائش ‘ مفت کھانا اور اپنی ضرورت
کومفت پورا کرسکیں ۔ان کی ضروریات زندگی پر جو بھی اخراجات اٹھیں وہ Easy
paisa سکیم کے ذریعے حکومت ادا کرے ۔ مزید برآں تمام بنکوں سرکاری اداروں ‘
بطور خاص پبلک ڈیلنگ کے اداروں (جن میں نادرا ‘ پولیس اسٹیشن ‘ لائسنسنگ
اتھارٹی ‘ الیکشن اتھارٹی‘ موٹررجسٹریشن ) کو ہدایت فرمائیں کہ معذوروں کو
بوقت ضرورت دفاتر میں آنے کی بجائے ان کے گھروں میں سرکاری اہلکار جاکر
ضروریات زندگی اور معاشرتی سہولتیں فراہم کریں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کینسر
کے امراض میں مبتلا 2 کروڑ ‘1 کروڑ دل کے امراض ‘2 کروڑ ہیپٹاٹائٹس ‘
اڑھائی کروڑ گردوں کے امراض ‘ پچاس لاکھ قوت سماعت سے محروم ‘ایک کروڑ ‘
بینائی سے محروم ‘ ایک کروڑ گھنٹوں کے میں درد میں مبتلا ‘ جبکہ شوگر کی
بیماری میں تین افراد مبتلا ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے کہ پاکستان کی آدھی آبادی
موذی بیماریوں میں مبتلا ہے تو یہ بات غلط نہ ہوگی ۔ |