دائرہ لازم ہے

اداروں کے درمیان ٹکراؤ کے سبب ریاست زخمی ہوہی ہے۔ہر ادارہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر ڈٹ ہوا ہے ۔پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ۔کچھ لوگ جو ناک سے آگے کا نہیں دیکھ سکتے دوراندیش بنے اس پریکٹس میں لگے ہوئے ہیں۔تھوڑے سے مفاد کے مقابلے میں ریاست کو جو کاری زخم لگ رہے ہیں۔انہیں نظر نہیں آرہے۔کبھی کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے سے نبرد آزما ہوتا ہے تو کبھی اسے کسی اور ادارے سے متصادم دیکھا گیا۔ریاستی مشینری اور وسائل جو ریاست اور عوام کی بہبود کے لیے صر ف ہونا چاہییں۔ اداروں کی باہمی دھینگا مشتی کی نذر ہورہے ہیں۔اس ٹکراؤ سے و ریاست لرزرہی ہے۔مگر ٹکراؤ ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا۔کاغذوں می سب سے بالادست عوامی رائے قرار دی جاتی ہے مگر عوامی رائے پانے والا وزیراعظم ہمیشہ عدلیہ ،فوج اور ایوان صدر کے ہاتھوں بے عزت ہوتا رہاہے۔ایوان وزیر اعظم ہی نہیں کبھی عدلیہ او رکبھی ایوان صدر بھی مظلومیت کی تصویر بنے نظر آئے۔جانے کیا بدقسمی ہے کہ ہمیشہ کسی نہ کسی حالت میں ادارہ جاتی تصادم جاری رہا۔کبھی عدلیہ اور فوج میں بھی توتکار دیکھی گئی۔کبھی ایوان صدر اور عدلیہ کے درمیان بھی گھمسان کا رن پڑا۔کبھی وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں سوکنوں کی طرح کی لڑائی بھی دیکھی گئی۔

نوازشریف کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکام بنا نے کی کوشش کی گئی جووقتی طور پر تو کامیا ب رہی۔مگر اب دھیرے دھیرے سے نوازشریف کی طرف عوامی جھکاؤ بڑھ رہاہے۔پچھلے پانچ سالوں ان کے خلاف سارا ٹبر چورہے کا پراپیگنڈ ہ کیا جارہاتھا ۔اس قدر پرزور اور پلانڈ پراپیگنڈہ تھا کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت اس پریقین کرنے لگی جھوٹ اس تواترسے بولا گیا کہ سچ کا گمان ہوا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ مصنوعی پراپیگنڈا بے اثر ہوتا چلا جارہاہے۔ پراپیگنڈے سے متاثر ہونے والے منحرف ہونے لگے۔سمجھا جارہا ہے کہ بات ویسی نکلی نہیں جیسی بتائی گئی تھی۔اب بھی اسی مصنوعی طریقے سے کام لینے کا سلسلہ جاری ہے ۔ہمارے وزیر اعظم دنیا بھر میں یہی ڈھونڈورا پیٹ رہے ہیں کہ پاکستان میں پہلے چور اور ڈاکو راج کرتے تھے۔اب یہاں دیانت دار اوراہل قیادت آگئی ہے۔اپ پاکستان آئیں یہاں سرمایہ کاری کریں اور ایماندار قیادت کافائدہ اٹھائیں۔ ان دنوں ان کا درس ترکی میں سننے کو مل رہا ہے۔عمران خاں ترکوں کوپاکستان میں ایک بڑی تبدیلی آجانے کا یقین دلانے میں لگے ہوئے ہیں اب یہ ان کی قسمت ہے کہ ترکی بھی پوری دنیا کی طرح کان نہیں دھر رہا ہے ۔مروت اور مہمان نوازی کے تقاضے ہیں جن کے سبب تالیا ں بھی بج رہی ہیں۔فوٹو سیشن بھی ہورہے ہیں مگر عملاًدنیا وزیر اعظم پاکستان کے تبدیلی کے موقف پر قائل نہیں ہورہی ۔ ہماری بھولی بھالی عوام کی طرح تو ہے نہیں جو آنکھ بند کرکے یقین کرلے۔وہ پاکستان کی ساری ہسٹری کو سامنے رکھ کر اس سے تعلقات کا فیصلہ کرتی ہے۔جس اندازمیں کچھ لوگوں کو کرپٹ اور کچھ لوگوں کو ایماندار ہونے کے سرٹیفکیٹ جاری ہوئے دنیا کی نظر سے پوشید ہ نہیں۔ایک دفعہ پہلے بھی زرداری دور میں دنیا نے حکومت پاکستان کی چکنی چپڑی باتوں کو ہنس پر ٹالا تھا اب وہ عمرا ن خان کی باتوں سے لطف اندوز ہورہی ہے۔

ریاست سسک رہی ہے۔اسے ملنے توایسے بندے چاہییں جو قابل ہو ں،جو اسے بنائیں، سنواریں۔اسے مضبوط کریں ہم اسے یا تو نالائق اور کاٹھ کے گھوڑے دے رہے ہیںیا پھر بدکردار اور بے یمان۔ریاست کا بھلا کیوں کر ہوسکتاہے۔اگر دہ دن بدن کمزور ہوتی چلی جارہی ہے تو بے سبب نہیں ۔آئے دن کے نت نئے تجربات ریاست کے کھوکھلا ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔عجب حماقت ہے دنیا نوازشریف دور کو قدرے بہتر دور قراردیتی ہے جب کہ ہم نے نوازشریف کو ہر حال میں قومی قیادت سے دور کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ہم جانتے بھی ہیں کہ بد کردار اور لفنٹر قسم کے لوگ ریاست کے لیے کچھ نہ کرپائیں گے۔ہم ہر حال میں انہیں مسلط کرنے اور ان کے دفاع جتے ہوئے ہیں۔ہماری سدھ بدھ مر چکی۔دھڑا دھڑ نقصا ن ہورہے ہیں مگر ہم پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ہم نے ریاست کی بجائے اپنے مفادات دیکھنے ہیں۔شخصی مفادات ۔گروہی مفادات یا پھر ادارہ جاتی مفادات ۔اس کا نتیجہ کیا نکلتاہے کچھ پرواہ نہیں۔کچھ بھی ہوجائے ہمیں بس ڈٹے رہنا ہے۔ہم نے پہلے بھی ایک بندے کو کسی بھی حالت میں حکومت بنانے سے روکنے کے سبب آدھا ملک گنوالیا اب پھر ایک آدمی کو کسی بھی حال میں قومی قیادت سے آؤٹ کرنے پر بضد ہیں۔ادارے ایک دوسرے کے معاملا ت میں زبردست قسم کی مداخلت میں مشغول ہیں۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کس ادارے کا کیا کام ہے۔عدلیہ ۔فوج ۔اور ایوان وزیراعظم کے درمیان پچھلے کچھ سالوں سے سخت قسم کی کشمکش پائی جاتی ہے۔یہ طے کرنا کہ کاربار مملکت کس کے ہاتھ ہیں مشکل ہوچکا۔یہ صورت حال الارمنگ ہے۔آگے چل کر محاز آرائی مذید بڑھ جانے کے امکانات روشن ہیں۔نوازشریف کے خلاف جو ممکن بن پڑا زور لگایا جاچکا مگر وہ اب بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ۔ان کے خلاف مصنوعی پراپگینڈ ا کرکے عوام کو دور کیا گیا تھا اب وہ دوبارہ پلٹ چکی۔اب شاید ہی کوئی ایسا ہو جو نوازشریف کے مخالفیں کو حق پر سمجھ رہا ہو ۔نوازشریف اب وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوچکے۔اب جب کہ ان کے مخالفین بھی ہار ماننے پر آمادہ نہیں تو ایک بڑا تصادم آنے والے دنوں میں ہوتالازم ہے۔عقلمندی ہوگی کہ اس تصادم کو روکنے کے لیے سرجوڑ لیے جائیں۔یہ جو ادارے ایک دوسرے میں گھسے نظر آرہے ہیں۔ان کی الگ الگ حدود طے کرلی جائیں۔ہمیشہ کے لیے اس دھینگا مشتی کو ختم کرنے کے لیے ہر ادارے کے لیے ایک دائرہ بنا دیا جائے ۔کسی بھی صورت میں اس دائرے کو کراس کرنے کی اجازت نہ ہو۔اس دائرے سے باہر آنے کو درست قراردینے والے ہر نظریہ ضرورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلط،ناجائز اور حرام طے کرلیا جائے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.