سیمی گورنمنٹ نسٹم

کاش کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوجائے جو لوگوں کے دعووں اور نعروں کی حقیقت کوپرکھنے میں مدددے سکے ۔الیکشن میں جو بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں ان کی حقیقت دیکھی جاسکے۔ایسے وعدے کبھی پورے نہیں کیے جاسکے ۔ پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کا وعدہ کیا مگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کی بدحالیوں کو دوسواکرنے کے علاوہ کچھ نہ کرپائے۔روٹی دینے کا وعدہ کرنے والے پانی بھی چھین کرلے گئے۔صحت ارزاں کرنے والوں نے اتنی نالائقی دکھائی کہ صفائی کا ملک میں نام ونشان نہ رہا۔گندگی کے ڈھیرصحت کی بجائے بیماریوں کو ارزاں کرنے کا سبب بنے۔انڈیا کو مزہ چکھانے کا وعدہ کرنے والے پہلی فرصت میں دوستی کے راگ آلاپتے نظر آئے۔جمہوریت کو راج کروانے کا نعرہ لگانے والوں نے سب سے پہلی حاضری ہی غیر جمہوری قوتوں کے در پر دی۔اسی بے مقصدی کے سبب سیاسی قیادت ناکام رہی ۔چور دروازے سے آنے والے فوجی آمر بھی اپنی آمد پر جو دھواں دھار تقریرکرتے رہے۔میدان میں اترنے کے بعد وہ ساری ادھر ادھر کی بھول کر ایسی بھول بھلیوں میں گم ہوئے کہ پتہ ہی تب چلا جب کسی دوسرے سٹک والے نے یا تو خود جانشین ہونے کا اعلان کردیا یا کسی دوسرے کے کندھے سے سٹک ٹکادی۔سیاسی اور غیر سیاسی قیادت میدان سے باہر اور میدان کے اندر والے ماحول کی حقیقت یا تو سمجھنے سے قاصر رہی یا پھر قصداًمقصد پانے کے لیے قوم سے مکر وفریب کرتی رہی۔وزیر اعظم جس طرح سے ان دنوں قرضوں کے جال میں پھنس رہے ہیں اس کے بعد ان کی طرف سے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنا کردینے کا منصوبہ سوالیہ نشان بن رہا ہے۔اربوں کھربوں کے یہ دونوں منصوبے جانے کس بنیا دپر متعارف کروائے گئے تھے۔آج جب کہ خزانے کی حالت اتنی پتلی ہے کہ مہینے مہینے کا بندوبست ڈھونڈنا پڑ رہاہے ایسے میں اگر حکومت اپنے ان دونوں منصوبوں کی بات کرے تو عجب نہ لگے گا۔ہر دوسرے تیسرے ہفتے پچاس لاکھ گھروں سے متعلق کسی نہ کسی شوشے کو چھوڑدینا جانے کیاثابت کرنے کی کوشش ہے۔اس سلسلے میں پہلے پہل جو اعلان ہوا وہ قدرے حقیقت پسندانہ تھا۔ملک بھر میں پانچوں بڑے مراکز سے ایک ایک مقام چن کر وہاں گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ان پانچ مراکز میں سندھ ۔بلوچستان ۔پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے علاوہ گلگت پلتستا ن شامل تھے۔جانے کس سیانے نے اس کار خیر میں مداخلت کرڈالی۔بجائے ان پانچ مراکز پر فوکس کرنے کے دس دس کرکے بیسیوں اور شہر بھی پچاس لاکھ گھر منصوبے میں گھسادیے گئے۔اب آدھے ملک میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا پروگرام سامنے آچکا۔اس بے تکے پن نے یہ منصوبہ ناقابل عمل بنادیا ہے۔حکومت کی پتلی حالت دیکھتے ہوئے اول تو صرف پانچ ہی مراکز میں اس منصوبے کا آغاز آسان نہ تھا۔اربوں روپے لگتے ۔جگہ تو شاید سرکاری زمینوں کی شکل میں مل جاتی مگر تعمیراتی اخراجات بھی کم نہ ہوتے۔اگرحکومت صر ف پانچ مراکز تک ہی توجہ مرکوز رکھتی تو شاید دیر سویر میں یہاں مطلوبہ تعداد میں رہائشیں تعمیر کرلی جاتی ۔اب جب کہ درجنوں مراکز تجویز ہوچکے۔اس منصوبے کے مستقبل پر سوال کھڑے ہوچکے۔کچھ لوگ اس منصوبے کے لے نجی شعبے سے تعاون حاصل کرنے کی ضروت پر زور دے رہے ہیں۔انہیں سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔کچھ نجی شعبے والے بھی بڑے ڈرے ہوئے ہیں۔حکومت نے آتے ہی جو اتھل پتھل مچادی ہے ۔اس کا فائدہ کم ہوانقصان زیادہ ۔جانے کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا محض اتفاق کہ تحریک انصاف والے اپنے سو ا کسی پر بھروسا کرنے پر آما دہ نہیں ہورہے۔ بیوروکریسی ہویا نجی شعبے کے ٹائیکون سب کو اس قدر ڈرا دیا گیا ہے کہ سبھی بددل ہیں۔وہ تو نئی اور اجلی قیادت کا ہاتھ بٹانے کے موڈ میں تھے مگر یہ نئی اور اجلی قیادت سڑیل اور تنگ نظر نکلی جس کے سبب سارے ایک ایک کرکے اس سے منہ پھیر نے پر مجبور ہوگئے۔

اگر اس حکومت کو اگر پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتوں جیسے تاریخی پروجیکٹس میں کامیابی پانا ہے تو اسے سرکاری اور نجی دونوں شعبوں سے معاملات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔دونوں شعبوں کے تعاون کے بغیر میگا پروجیکٹس کی تکمیل ممکن نہیں۔سرکاری اور نجی شعبے باہمی تعاون سے کمال کرسکتے ہیں۔پرفیکشن کے لیے سرکاری شعبہ کام دے گا۔پراگرس کے لیے نجی شعبے سے بہتر کوئی چوائس نہیں۔جو کام سرکاری کھاتوں میں مہینوں برسوں نہیں ہوپاتا۔نجی کمپنیوں نے ہفتوں دنوں میں کردکھایا۔پراگرس میں نجی شعبہ ہمیشہ آگے رہا۔اگر حکومت دونوں میکا پراجیکٹس پر نجی اور سرکاری لوگوں سے کامیاب تعاون لے پائی تو ایک ٹرم کے قیام کا سبب بنے گا۔نیم سرکاری شعبے کا تصور نیا نہیں بیسیوں نیم سرکاری کمپنیاں اور کارپوریشنز موجود ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ نیم سرکاری ماحول جو ہونا چاہیے نظرنہیں آتا۔بجائے بیلنس رکھنے کے ہر نیم سرکاری ادارہ ایک طرف جھول مار ے نظر آتاہے۔ کوئی کمپنی یا کارپوریشن یا تو پوری کی پوری سرکاری بنی ہوئی ہے یا پوری کی پوری پرائیویٹ ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ سہولتیں سرکاری سطح کی ہوں اور پراگرس پرائیویٹ سطح کی ۔مگر ایسا کچھ ہونہیں پارہا۔جہاں کچھ ایسے لوگ حاوی ہیں جو سرکار کے قریب ہیں وہاں یہ سیمی گورنمنٹ ادارہ بالکل سرکاری ادارہ بنا ہوا ہے ۔اسی طرح جہاں کہیں ایسے لوگ بالادست ہیں جن کی وفاداریاں پرائیویٹ شئیر ہولڈر کے ساتھ ہیں وہ اس ادارے کو کلی طور پر پرائیویٹ بنا نے پر تلے ہوئے ہیں۔نیم سرکاری اداروں کا اصل مقصدکہیں گم سا گیا ہے۔اگر حکومت اپنے دونوں میکاپرجیکٹس کے لیے نیم سرکاری بندوبست کو اس کی درست اساس کے ساتھ استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ نیا ٹرینڈ سیٹ کرنے کے برابر ہوگا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.