ان دونو الفاظ میں صرف اس حد تک مشابہت نہیں کہ یہ "ر" سے
شروع ہوتے ہیں بلکہ بات اس سے کہیں آگے جا چکی ہے اور بات نکلی تو بہت دور
تلک جاے گی نہیں جا چکی ہے اور اس پر اپنا شعر یاد آیا
بات جو نکلی تو گئ دور تک
چلی جو نزاکت سے تو گئ حور تک
تجلی سے جو نکلی تو گئ طور تک
تخلیق سے جو نکلی تو گئ نور تک
بات ہو رہی تھی رکشہ اور رومان کی آپس میں تعلق کی
تو بچپن سے ہی مجھے رکشہ مجھے اچھا لگتا تھا اس کے تیکھے نقش و نگار اور
اور زمانے کو جگاتی سریلی آواز ایک رومانوی کیفیت پیدا کر دیتی اور اُس میں
بیٹھنے والے رومانوی جوڑے میرے لیے کشش کا باعث ہوتے
کم عمری میں میرا بھی دل چاہتا تھا کہ میں بھی اسی طرح بیٹھوں رکشہ میں کسی
ڈولتے ہم سفر کے ساتھ جھولتی محبت میں کسی محبت نا آشنا کو آشنا کر کے
آشنای کے آداب سیکھتے اور دیکھتے ہوے
جھولتے محبوب کا جمال
اور اچھلتے خدوخال
محبت میں آتا "حال"
ساتھ رکشہ کا دھمال جھومتے ہوے اور گھومتے ہوے منزلِ مقصود پر پہنچ پایں
مقصود رکشہ ڈرایور کی رہنمای میں
ایسے تو موٹر سائکل بھی اچھی لگتی تھی اور خاص طور پر اس پر انسان کا انسان
سے قریب ہونا اور اُن رومانی جوڑوں کی قُربت مگر یہی فرق ہے کہ موٹر سائکل
پر قُربِ مسلسل ہے اور درمیان میں کچھ دوری نہ آے تو قربت کے فُرقت میں بدل
کر دائمی فراق کی شکل اختیار کرنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے جبکہ رکشہ اس
لحاظ سے مناسب ہے کہ ایک فاصلہ بھی قائم رہے اور قربت بھی ہو ایسے کہ وقفہ
وقفہ سے کبھی ہجر کے جھٹکے تو کبھی حادثاتی لمس اور موڑ مڑتے وقت وصل کی
لذت محبت کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور گھٹن بھی نہ ہو کہ دونو
طرف دروازے کھلے ہیں بلکہ سرے سے موجود ہی نہیں اور آزادی اور رضامندی سے
سفر پورا ہو
ایک زمانے میں ہمارے ہاں ایک رکشہ ڈرایور جز وقتی ملازمت کرتا تھا جس کا
نام عزیز تھا اور وہ ہمیں عزیز بھی تھا مگر ہم سے زیادہ وہ اپنی بیگم کو
عزیز تھا کیونکہ اس کے بارہ بچے تھے جو اُس کی رومانوی زندگی کا منہ بولتا
ثبوت تھے اور میرے رکشہ اور رومان میں تعلق ہونے کے خیال کو مزید تقویت
بخشتے تھے
ہم اُس سے مزاق میں کہتے
کم بچے خوشحال گھرانہ
وہ کہتا
زیادہ بچے دربار گھرانہ
اور یہ کہہ کر وہ حکومت کے اس نعرہ کی خلاف ورزی کر کے نظریہ ضرورت پر
ضرورت سے زیادہ زور دے کر اپنی اس رومانوی زیادتی پر سختی سی عمل پیرا ہوتا
رکشہ عوام کے لیے گلی گلی سہولت اور حلال رزق کمانے کا بہترین ذریعہ معاش
بھی ہے جو کسی حد تک طبقاتی فرق کو مٹاتا اور کلچر اور زبان کے فاصلوں کو
کم کرتا ہے اور اُس کی آرایش و زیبائیش مشرقی خطاطی اور جمالیاتی حس کو
بیدار اور اس پر لکھے اشعار عوامی سطح پر ادب سے لگاو کی عکاسی کرتیے ہیں
اور نہ جانے کیوں رکشہ چلانے والے اور اُس میں بیٹھنے والے اور سائکل چلانے
والے مجھے معصوم لگتے ہیں
رومانوی خیالات اور حقیقی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے اس کا اندازہ اس وقت
ہوا جب حال ہی میں رکشہ میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور وہ بھی منگھوپیر کی
ناہموار سڑک پر کیونکہ یہ علاقہ کریم کی پہنچ سے دور ہے نتیجتاً کریم خان
رکشہ ڈرایور مجھے بھگا کر لے گیا اور پھر مُجھے ہوش نہ رہا
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
کیپٹن کریم کی ناہموار پرواز نے مُجھے وقت سے پہلے ہی منزلِ مقصود پر پہنچا
کر دم لیا جو مُجھے مقصود بھی نہ رہی تھی
اور وہ پرواز کوی عام نہیں بلکہ جنگی جہاز کی پرواز تھی
پلٹ کر جھپٹنا
جھپٹ کر پلٹنا
اور اُس طائرِ لاحوتی نے رزق بھی خوب کمایا اور پرواز میں کوتاہی بھی رتی
برابر نہ کی
اے طائرِ لاحوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
پرواز سے یاد آیا کہ ایک معصوم بچے نے پہلی بار جہاز دیکھا اور زہن نشین کر
لیا تھوڑے دن بعد اپنی امی کی گود میں بیٹھا تھا گاڑی میں کہ برابر میں
اچانک رکشہ کو دیکھ کر بے اختیار بولا
ارے ائروپلین (جہاز)
شاید اسے جہاز کی چونچ اور رکشہ کی ناک میں مماثلت محسوس ہوی اور کوکپٹ اور
رکشہ کے فرنٹ کے شیشے کی گولای ایک جیسی لگی ہو گی
بہرحال رکشہ میں بیٹھنے کا ہاضمہ کے نظام کی درستگی کے علاوہ یہ بھی فایدہ
ہوا کہ اعتماد آگیا کہ گھڑ سواری کی جا سکتی ہے اور گھوڑے پر بیٹھی انگریزی
فلموں کی الھڑ دوشیزہ بھی نظر آنے لگی جو اپنے رومانوی انداز کی ذومعنوی
ترنگ سے آپ کے اندر جل ترنگ بجاتی ہو مگر ہمارے رکشے میں بیٹھے مشرقی حجاب
کا مقابلہ نہیں کر سکتی
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوے سورج کو زدا دیکھ
سفر رکشے کا ہو یا جہاز کا
پیدل ہو یا زندگی کا سفر خُدا آسانی سے پار کرا دے
اور ہماری حفاظت فرماے
فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِين
خیر الله سب سے بڑھ کر نگہبان اور سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے |