اگا دوڑ

ہم جتنے سیانے بنتے ہیں اتنے ثابت نہیں ہوپاتے۔جب بھی وقت آن پڑا کوئی آزمائش آئی سارا سیانا پن جاتارہا۔ اناڑی نکلے ۔ہمیشہ بے بسی نے منہ دکھایا۔ہمارے جتنے بھی بندوبست تھے ناکافی نکلے جتنی باتیں تھیں جھوٹ ثابت ہوئی۔ہماری نام نہاد کاریگریوں نے صر ف تماشہ ہی بنایا شاباشی کبھی نہیں سمیٹنے دی۔یہ نظام قدرت ہی ہے جو ہمارے قول اور ہماری حقیقت کے فرق کو آشکار کرتے رہتے ہیں اگر بحران نہ آئیں۔نتائج سامنے نہ آنئیں تو جانے کتنے ہیں خودساختہ افلاطون داد شجاعت سمیٹتے رہیں۔جانے کتنے چوپٹ راج چلتے رہیں۔انہی آزمائشوں کے سبب نااہلوں کی نااہلی کا پتہ چلتاہے۔نالائقوں کی نالائقی سامنے آتی ہے۔ اداروں میں بیٹھے طرم خانوں کی باتوں کاکھوکھلاپن بھی سامنے آتارہتاہے۔جب بھی کسی ادارے کی جان کارکردگی کا چرچا ہوا اس میں بیٹھے کرتادھرتاؤں کی اصلیت کا پتہ چل گیا۔اگر حکومت عوام کوریلیف نہیں دے پاتی۔عدلیہ انصاف نہ دے پائے۔فوج سرحدوں کی حفاظت نہ کرپائے تو اداروں میں بیٹھنے والوں کی باتوں کی حیثیت کیا ہوگی۔وزیر اعظم عمران خاں اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان مہمند ڈیم کولے کر ایک طرح کی سرد جنگ چل رہی ہے۔اول تو چیف جسٹس کی طر ف سے ڈیم جیسے کسی منصوبے کا بیڑا اٹھانا ہی سمجھ میں نہیںآتا۔نہ وہ وسائل پر دستر س رکھتے ہیں نہ مطلوبہ افرادی مشینری ان کے زیر ہے۔بہتر ہوتا وہ متعلقہ محکمے یا ادارے کو مہمند ڈیم بنانے کے لیے پریشرائز کرتے۔ایسا ہوانہیں چیف جسٹس صاحب اس ڈیم کے لیے پوری طرح متحرک ہیں۔ فنڈریزنگ ہورہی ہے۔کمپئین بھی جاری ہے۔مہمند ڈیم کے معاملے میں ایک او ر بے حکمتی حکومت کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم کی مہمند ڈیم میں خواہ کی دخل اندازی کو عقلمندوں نے نامناسب قرار دیا ہے۔جانے کہاں سے مشورہ آیا کہ وزیر اعظم بھی مہند ڈیم منصوبے میں اپنا نام جوڑلیں۔پہلے صرف سپریم کورٹ کی طرف سے مہمند ڈیم کے لیے فنڈ ریزنگ ہورہی تھی اب فنڈ ریزنگ میں سپریم کورٹ اوروزیراعظم عمران خان کا نام لکھا جانے لگا۔جانے وزیراعظم کو کیا ضرورت آن پڑی کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے ڈیم کے لیے فنڈ ریزنگ میںآن گھسے ۔یہ منصوبہ اگر صرف اور صرف سپریم کورٹ سے ہی منسوب ہورہتاتو کیا حرج تھا۔اگر وزیراعظم اس کارخیر میں حصے دار بننا ہی چاہتے تھے تو تھوڑا بہت جو بن پڑتا اس فنڈ میں بھجوادیتے۔پتا نہیں کس نے ان کے کان میں ڈال دیا کہ یہ کریڈٹ کسی اور طرف نہیں جانا چاہیے ۔ کریڈٹ کوئی غیر متعلقہ بند ہ کیوں لے جائے ؟ بس ایسے ہی کسی مشورے نے وزیراعظم عمران خاں کو مہندڈیم کے منصوبے میں اپنا نام لکھوانے پر مجبورکردیا۔

کریڈٹ لینے کا خبط بھی ہماری ناکامیوں کا ایک سبب ہے۔ہماری تنگ نظری دیکھیے کہ بڑے سے بڑا کام بھی خود ہی کرنا چاہتے ہیں اور چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کسی کے کھاتے میں جاتے نہیں دیکھ سکتے ۔کاروبار مملکت کے سینکڑوں شعبے ہیں۔ سینکڑوں محکمے قائم ہیں۔جانے ہم سب کو بائی پاس کیوں کردیا جاتاہے۔یہ نااندیشی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہسپتالوں کے افتتاح وزیر اعظم یا صدر کرتا پھرے حالانکہ ملک میں وزارت صحت موجود ہو۔سڑکوں اور پلوں کے فیتے وزیر اعلی ٰ اور گورنر کاٹتے پھریں جب کہ وزیر مواصلات یا شاہرات بھی موجود ہو۔جانے ہم سب کچھ اپنے نام سے کرنے کے خبط میں کیوں مبتلا ہیں۔ مہند ڈیم کو لے کر بھی چیف جسٹس اور وزیر اعظم بڑے پرجوش ہیں۔حالانکہ ان سے بھی زیادہ پرجو ش تو بجلی اور پانی سے متعلقہ وزارتوں کو ہونا چاہیے تھا۔مگر اس منصوبے کو لے کر کبھی بھی مذکورہ وزارتوں کی پھرتیاں نظرنہیں آئیں۔سرد جنگ کا ایک ثبوت مہمند ڈیم کے افتتاح کی تاریخ میں تبدیلی کیے جانا ہے۔چیف جسٹس نے برہمی کااظہا رکرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے علم میں لائے بغیر یہ تبدیلی کی گئی۔اب شاید میں افتتاحی تقریب میں شریک نہ ہوں۔اس تاریخ میں تبدیلی کا سبب بظاہر اس کے سوا کچھ نہیں کہ کچھ لوگ اس؂ ڈیم کا کریڈٹ کسی طور سپریم کوٹ کو دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔سپریم کورٹ نے ڈیم کابیڑا اٹھا کر نامناسب نظیر قائم کی۔یہ کام جس کا تھااسی سے کروایا جاتاتوزیادہ اچھا ہوتا۔کیا سپریم کورٹ اپنے اصل کام سے پوری طرح سبک دوش ہوچکی تھی کہ وہ باہر کے کاموں میں ہاٹھ ڈال پائے ۔ ابھی ہزاروں کیسزتکیل کی راہ دیکھ رہے ہیں۔مانا ان کی تکمیل میں عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ دیگر شعبے بھی ذمہ دار ہونگے۔مگر نظام انصاف کو آسان اور سریع بنانا صریحا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔کیا اہل عدل کے لیے اچھا نہیں ہوگا کہ وہ غیرعدالتی معاملات کے سبب بھی ہونے والی رکاوٹوں پر ہاتھ ڈالتے ۔ انصاف کی عدم فراہمی کی ذمہ داری کبھی بھی کسی دوسرے محکمے کے کھاتے میں نہیں گئی۔ہمیشہ عدلیہ کو باتیں سننا پڑیں۔کیا عدالتوں میں بیٹھنے والوں کے لیے زیادہ بہترنہیں کہ اگرکبھی فرصت پائیں تو تکمیل انصاف کے دیگر معاملات پر کام کریں۔یہ معاملات پانی اور بجلی پر توجہ دینے سے کہیں زیادہ ضروری ہیں۔عدلیہ جانے کیوں غیرمتعلقہ معاملات میں سرکھپا کراگا دوڑپچھا چوڑکی تصویر بننا چاہتی ہے۔ حکومت کی طرف سے مہمند ڈیم کے افتتاح کی تاریخ بدلنا بھی بے تکے پن کی دلیل ہے۔بھئی دل بڑ اکریں، ہزاروں دیگر پروجیکٹس ہیں۔آپ وہاں اپنی تختیاں لگوالینا۔ایک تختی اگر آپ کے نام کی نہ بھی لگے گی تو کیا فرق پڑے گا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.