این آر او کیا ہے ؟

تحریر: مہک سہیل ،کراچی
سوال تو بنتا ہے کہ یہ این آر او ہے کیا چیز اور کون اور کیوں ان سے وہ چیز مانگ رہا ہے جو وزیراعظم انھیں دینے پر ہرگز آمادہ نہیں۔ آئیے یہ اور اس ’این آر او‘ سے جڑی کچھ پورانی دوسری گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔این آر او کیا ہے؟سابق صدر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا جسے این آر او کہا جاتا ہے، 7 دفعات پر مشتمل اس آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا بتایا گیا تھا اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صدر مملکت نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ان تمام مقدمات کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو یکم جنوری 1986 سے لے کر 12 اکتوبر 1999 کے درمیان ’سیاسی بنیادوں‘ پر درج کیے گئے تھے۔جب کہ اس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بھی ختم کیے گئے۔این آر او کو اس کے اجرا کے تقریباً دو سال بعد 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے کالعدم قرار دیا اور اس قانون کے تحت ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کے احکامات جاری ہوئے دو برس بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس آرڈیننس کو مفاد عامہ اور آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد یہ مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے۔بینظیر بھٹو اور ان کی جماعت کے دیگر سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں، جن میں ان کے شوہر آصف علی زرداری بھی شامل تھے، کے خلاف 1986 اور 1999 کے درمیان ڈھیروں مقدمات درج کیے گئے تھے۔این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں جب کہ اسی قانون کے تحت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی بھی ممکن ہوسکی تھی۔ان مقدمات کی موجودگی میں بینظیر بھٹو اور ان کے ساتھی وطن واپس نہیں آ سکتے تھے جبکہ جنرل پرویز مشرف انہیں ملکی سیاست میں واپس لانا چاہتے تھے تاکہ ملک اور اپنے آپ کو بڑے سیاسی بحران اور بین الاقوامی دباؤ سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمات خارج کر دیے گئے۔جن دیگر اہم افراد کے خلاف اس این آر او کے تحت مقدمات ختم کیے گئے ان میں بینظیر بھٹو کے سسر حاکم علی زرداری، ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین، سابق گورنر عشرت العباد، فارق ستار، مولانا فضل الرحمٰن، رحمٰن ملک، حسین حقانی، سلمان فاروقی وغیرہ شامل تھے۔ سپریم کورٹ سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد یہ مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے لیکن اس وقت بینظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں تھیں اور آصف زرداری صدر مملکت ہونے کی وجہ سے ان مقدمات سے استثناٰ حاصل ہو چکا تھا۔

درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی نے مؤقف اختیار کیا کہ این آر او کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان ہوا، این آر او قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا اور این آر او کا اعلان کیا.سپریم کورٹ میں این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے 24 اپریل کو سابق صدر آصف زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کیے تھے۔درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ لوٹے گئے پیسوں کو وصول کیا جائے۔آصف زرداری نے اپنے جواب ان پر خزانہ لوٹنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا، فوج داری مقدمات میں عدالتوں سے رہائی ملی، ان پر مخالفین نے سیاسی مقدمات بنائے، درخواست انہیں اور بڑی سیاسی جماعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ عدالت نے گزشتہ سال 2018 اپریل میں مقدمے پر سماعت کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف اور آصف زرداری کونوٹس جاری کیے تھے جب کہ دونوں شخصیات کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔عدالت نے درخواست گزار پر ابتدائی سماعت کے بعد 24 اپریل کو سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کیے تھے جب کہ آصف زرداری اور دیگر نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب بھی جمع کرادیا ہے۔صدر پرویز مشرف نے بھی این آر او کیس میں جواب جمع کرادیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ این آر او سیاسی انتقام کے خاتمے اور انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے جاری کیا، این آر او کے اجراء میں کوئی بدنیتی اور مفاد شامل نہیں تھا جواب میں مزید کہا گیا ہیکہ این آر او آرڈیننس اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کرجاری کیا، اس وقت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق تھے لہٰذا این آر او سے متعلق درخواست خارج کی جائے۔عدالت نے سابق صدور پرویز مشرف، آصف زرداری اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف این آر او کیس ختم کرتے ہوئے فیروز شاہ گیلانی کی درخواست نمٹا دی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ’ان کی صرف اور صرف ایک کوشش ہے کہ کسی طرح سے ان کو این آر آو دے دیں لیکن میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ سب کان کھول کر سن لیں، آپ نے سڑکوں پر آنا ہے تو ہم آپ کو کنٹینر دینے کو تیار ہیں۔ آپ نے اسمبلیوں میں کرنا ہے جو بھی کھل کر کریں اور جو کرنا ہے کر لیں لیکن کان کھول کر سن لیں کہ این آر او نہیں ملے گا۔‘عدالت میں چونکہ اس طرح کے آرڈیننس کو امتیازی قرار دیا جا چکا ہے جو ایک نظیر کی صورت میں پاکستان کی قانون کی کتابوں میں موجود ہے تو اس طرح کے قانون یا آرڈیننس کو دوبارہ جاری کرنا بھی بیمعنی ہو گا کیونکہ عدالت گزشتہ فیصلے کی روشنی میں این آر او یا اس طرح کے کسی بھی قانون کو فوراً مسترد کر دے گی لہٰذا جب عمران خان یا کوئی اور سیاسی رہنما این آر او کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات یا تحقیقات کو ختم کرنا۔ اس کے لیے صدارتی آرڈیننس یا این آر او ہی واحد طریقہ نہیں ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا کوئی عمران خان سے این آر او مانگ بھی رہا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو پہلے سوال کا جواب دینا آسان ہو جائے گا۔ عمران خان کے اہم سیاسی مخالفین نواز شریف اور ان کی جماعت کے رہنما اور خاندان کے افراد ہیں اس کے علاوہ آصف علی زرداری بھی متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان کے مخاطب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما ہی ہیں۔اب اگر ان میں کسی نے، یا کسی اور نے پردے کے پیچھے چپکے سے وزیراعظم سے مقدمات میں "ہاتھ ہولا" رکھنے کی درخواست کر رکھی ہے تو اس بات کو منظر عام پر لانا وزیراعظم کی ذمہ داری بنتی ہے یک قدیم سیاسی قول ہے کہ سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ یہ منظر آسمان نہیں بار بار دیکھا ہے کہ کل کے سیاسی حواری آج کے دوست اور آج کے دوست کل دشمن بن جاتے ہیں۔ تو آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

Talhan Khan
About the Author: Talhan Khan Read More Articles by Talhan Khan: 60 Articles with 41058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.