کیا پی پی پی جیسی وفاقی جماعت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ
طالع آزماؤں کی باقیات سندھ میں اس کی حکومت کو ڈنڈے کے زور پر چلتا کر سکے
؟پی پی پی جو پاکستان میں جمہوری قدروں کی علامت ہے اس پر یہ وقت بھی آنا
تھا کہ آمریت کی گود میں پلنے والے سیاستدان اس کی واضح اکثریت کو ہارس
ٹریڈنگ سے اقلیت میں بدل کر اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کر سکیں ۔وہ جے آئی
ٹی کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ سیاسی سکورنگ
کی بجائے سب کو عدالتی فیصلہ کا انتظار کرنا چائیے۔عمران خان جو صاف شفاف
نظام کی علمبرداری کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں ان کے سامنے ان کے کئی وزراء ایک
منتخب حکومت کو برخاست کروانے کیلئے جب ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو ان
کا خاموشی کی چادر اوڑھ لینا معنی خیز ہے ۔انھیں ایسے سب وزراء کی سرزنش
کرنی چائیے کیونکہ ہارس ٹر یڈنگ کی سوچ جمہوری روح کے خلاف ہے ۔جے آئی ٹی
کی رپورٹ اپنی جگہ پر مسلمہ ہے لیکن یہ ایک تحقیقی رپورٹ ہے جس کی کوئی
قانونی حیثیت نہیں ہے ۔عدالتیں اس پر اپنا فیصلہ صادر کریں گی تو پھر اس پر
عملداری کا وقت آئیگا ۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کوئی آسمانی صحیفہ ہ نہیں ہے کہ
س کی آڑھ میں مخالفین کی پگڑیاں اچھالی جائیں۔ پی پی پی عدالتوں کا سامنا
کرنے کیلئے تیار ہے تا کہ اپنی جمہوری اور ساکھ کا بھرم رکھ سکے ۔ پی پی پی
کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ جو لائی ۱۹۷۷ سے وہ مسلسل ایسے ہی
ریاستی جبر کا سامنا کرتے آئی ہے جس میں اسے میڈیا ٹرائل کے زور پر کرپٹ
اور بد دیانت ثابت کرنے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں ۔آصف علی زرداری ساڑھے
گیارہ سالوں تک جیل کی سنگلاخ سلاخوں کے پیچھے قید رہے لیکن ان پر کچھ بھی
ثابت نہ کیا جا سکا۔ان پر سویس بینکوں میں پانچ سو ملین ڈالر منتقل کرنے کا
جو ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ اس کی پرچھائیں آج بھی آصف علی زرداری کا پیچھا
نہیں چھوڑ رہی حالانکہ عدالتوں نے ان کی بے گناہی پر مہر ثبت کر رکھی ہے ۔محترمہ
بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے جمہوریت کی خاطر طویل جیلیں اور صعوبتیں
برداشت کیں لیکن جمہوری قدروں پر کوئی سودے بازی نہ کی۔جلا وطنیاں پھانسیاں
اور کوڑے جیالوں کا مقدر بنے لیکن ان کے عزم کے سامنے ہر طالع آزما آمر کو
سرنگوں ہو نا پڑا۔اپنے لہو سے لکھی گئی حریتِ فکر کی داستان کے دوست دشمن
سبھی معترف ہیں کیونکہ ان کی یہ قربانیاں جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر
تھیں۔استعارے کبھی ماند نہیں پڑتے ،کبھی بے وقعت نہیں ہوتے،کبھی بے مایا
نہیں ہوتے ،کبھی بے رنگ نہیں ہوتے اور نہ ہی انھیں نظر انداز کیا جا سکتا
ہے۔ جیالوں کی قربانیاں ایک نئی صبح کی نوید تھیں ،یہ الگ بات کہ اشرافیہ
نے اسے برگ و بار سے محروم رکھ کر پورے نظام کو ہی یرغمال بنا لیا اور ہم
منہ دیکھتے رہ گئے۔،۔
اصغر خان کیس ایک علامتی کیس ہے جس میں ۱۹۸۸ میں پی پی پی کے خلاف اسلامی
جمہوری اتحاد کی تشکیل کا ڈول ڈالا گیا تھا ۔کئی جرنیلوں نے بھٹو مخالف
قائدین میں پیسے بانٹے تا کہ پی پی پی کو شکست سے ہمکنار کیا جائے ۔وہ ذہنی
خوف کا شکار تھے کہ پی پی پی انتخابی فتح کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ذولفقار علی
بھٹو کی پھانسی کا انتقام لے گی اور یوں ملکی سلامتی خطرات کی نذر ہو
جائیگی۔انتقامی سوچ کا وہ وقت تو بہت پیچھے رہ چکا ہے ۔اب تو کسی خوف کی
کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا سب کو سچ بول کر پی پی پی کے خلاف اپنے گناہ کا
اعتراف کر لینا چائیے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا بلکہ اسٹیبلشمنٹ
پی پی پی پر ایک نئے انداز سے حملہ آوارہو رہی ہے تا کہ اس کی عوامی سیاست
کوداغدار کر کے عوام کی نگاہوں میں اسے بے توقیر کیا جائے۔ اصغر خان کیس پی
پی پی کی عوامی قوت کے خلاف ایک سازش تھی جس کے مہرے اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی
عناصر تھے ۔جنرل حمید گل تو بڑے دھڑلے سے اس بات کا اعترف کرتے تھے کہ
انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا تھا لیکن کسی عدالت نے انھیں کبھی
بھی طلب نہیں کیا کیونکہ کچھ کرداروں کی پردہ پوشی مقصودتھی۔اب تو عمران
خان کی حکومت ہے جو کہ اصغر خان کیس کے بہت بڑے نقیب تھے لہذا ان کے ہوتے
ہوئے اس کیس کا لپیٹا جانا کسی المیہ سے کم نہیں۔اس کیس کی پیروی ہونی
چائیے تا کہ سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرنے والے سارے کردار قانون کے
سامنے سر نگوں ہو سکیں ۔یہ پی پی پی کی نہیں بلکہ قانون کی جیت ہو گی لیکن
ایف آئی اے کے حالیہ بیان کے بعد تو یہ نظر آرہا ہے کہ اصغر خان کیس تاریخ
میں گم ہو جائیگا اور ملزموں کو ریلیف مل جائیگا۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ
عمران خان اور ان کے حمائتی کسی کونے کھدرے میں چھپ کر بیٹھ گے ہیں گویا کہ
وہ گونگے بہرے اور اندھے ہوں۔ایف آئی اے کا یہ کہنا کہ ۱۹۹۰ کا ریکارڈ
ملنا ناممکن ہے خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔اپوزیشن کے خلاف تو پچاس
سال پرانا ریکارڈ بھی ڈھونڈ کر نکال لیا جاتا ہے لیکن جب حساس اداروں کی
باری آتی ہے تو ریکارڈ غائب ہو جاتا ہے شائد اس ملک میں مقتدر قوتوں کا
کبھی احتساب نہیں ہو سکتا ۔کبھی کبھار اشک شوئی کیلئے میڈیا کی حد تک
رپورٹنگ ضرور ہو تی ہے لیکن نتیجہ کوئی بر آمد نہیں ہوتا۔ ۱۹۸۸ میں جب
محمد خان جونیجو کی حکومت کی بحالی کے بڑے واضح اشارے مل رہے تھے تواس وقت
کے سپہ سالار مرزا اسلم بیگ نے سینیٹ کے چیر مین وسیم سجاد کے ذریعے منصفوں
کو پیغام بھیجا کہ ہم شاہراہ کی دوسری جانب بیٹھے ہیں لہذا محمد خان جو
نیجو کی حکومت بحال نہیں ہونی چائیے لہذا خفیہ دباؤ کے تحت جو نیجو حکومت
بحالی سے محروم رہی ۔اس وقت ایک نتہائی اہم مقدمہ دم توڑ رہا ہے لیکن ہم سب
خاموش ہیں ۔لبوں کو جیسے سی لیا گیا ہو۔اگر ریکارڈ نہیں ملتا تو کوئی بات
نہیں لیکن وہ جھنوں نے پیسے بانٹنے کا اعتراف کیا تھا ان کو تو سزا سنائی
جا سکتی ہے تا کہ ریاستی ادارے آئیندہ سے ملکی معاملات میں مداخلت سے باز آ
جائیں لیکن جب اقتدار ریاستی اداروں کی اشیر واد سے ملتا ہو تو کون کافر
انھیں سزا دلوانے کا عزم ظاہر کریگا۔؟ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جھنیں اس
بات کا پکایقین ہے کہ ہمارے ہاں احتساب صرف مخالفین کا ہو تا ہے۔طاقتور
حلقوں کا کبھی احتساب نہیں ہوتا ۔ہمارے سامنے طا لع آزما جنرل پرویز مشرف
کی مثال موجود ہے ۔وہ انتہائی اہم مقدمات میں ملوث تھے لیکن انھیں کوئی بھی
جوابدہ نہ بنا سکا۔لال مسجد اپریشن ،بے نظیر بھٹو قتل کیس،نواب اکبر بگٹی
قتل کیس او ر آئینی غداری کیس ۔یہ سارے اتنے اہم کیس ہیں کہ کوئی ان میں
ضمانت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھالیکن عدالت اپنی بے پناہ حواہش کے
باوجود کمانڈو کو عدالت میں حاضر نہ کر سکی ۔ ججز کی نظر بندی کا معاملہ
ہوا یا ایمرجنسی کا نفاذ ہو انھیں عدالتوں میں جوابدہ نہ بنایا جا سکا۔ہم
نے تو دیکھا ہے کہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ
نہ لینے پر نا اہل کر دیا گیا اور انھیں دس سال کی سزا بھی سنائی دی گئی
جبکہ مقتدر حلقوں سے کوئی باز پرس نہ کی جا سکی ۔ شہباز شریف اور سعد رفیق
کو انکوائری کے دوران محبوس کر دیا گیا اور عوامی نمائندوں کو سرِ عام ذلیل
و رسوا کیا گیا ۔کیا پاکستان میں قانون ایک ہے یا یہاں پر دو قوانین ہیں ۔
طاقتور کیلئے ایک قانون اور کمزور کیلئے دوسرا قانون۔نئے پاکستان میں ایک
قانون ہو نا چائیے اور ایسا کرنے کی ذمہ داری عمران خان کے کندھوں پر
ہے۔ہمیں ان کی ذات سے یہ توقع ہے کہ وہ نئے پاکستان میں ایک قانون کی
حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔ان کے نعرے کمزوروں کو طاقتور بنانے اور
طاقتوروں کو جوابدہ بنانے کے گرد گھوم رہے تھے۔انھوں نے ایک روشنی دکھائی
تھی کہ انصاف سب کیلئے برابر ہو گا اور اس میں کسی کی حیثیت نہیں دیکھی
جائیگی اور قانون اپنی اصلی روح کے ساتھ سب پر لاگو ہو گا لیکن ابتدائی چند
ماہ میں ہی ان کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔وہ اصر خان کیس پر خاموشی کی
چادر اتاریں ، بے خوف اور بہادر بنیں اور ان تمام افراد کو جھنوں نے قانون
کو ہاتھ میں لیا تھا انھیں قانون کے سامنے جوابدہ بنائیں تا کہ قانون کی
حکمرانی سے نیا پاکستان مہک اٹھے۔،۔ |