پاکستان کی سر زمین جہاں اﷲ کے فضل و کرم سے معدنیات
اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہیں اس دھرتی نے عظیم سپوتوں کو بھی جنم
دیا ہے۔ جن کی قابلیت اور اہلیت کو پوری دنیا نے قبول کیا۔ جہاں سائنس اور
ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستانیوں نے اپنا لوہا منوایا وہیں ادیب ، شاعر،
دانشور اور مفکر بھی اپنی مثال آپ ہیں لیکن ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ چند
افراد کو تو بہت پذیرائی ملی لیکن اکثریت گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو کر
اپنی صلاحیت کو منظر عام پر نہ لا سکی ۔ جس کی ایک وجہ حالات کی تنگی اور
حکمرانوں کی عدم دلچسپی ہے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے ضلع میں کئی ایسے افراد
موجود ہیں جنکو اﷲ رب العزت نے قابل رشک صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ لیکن وہ
اپنی صلاحیتوں کو محدود وسائل ہونے کی وجہ سے متعارف نہیں کروا سکے ایسے با
صلاحیت افراد کو حکومتی توجہ اور سر پرستی کی ضرور ت ہے یہ افراد ملک کا
قیمتی سرمایہ ہیں میری نظر میں ا یسے کئی افراد گزرے جن کو اﷲ نے بے پناہ
صلاحیتوں سے نوازا ہے ان لوگوں کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر بات چیت کی جائے تو
پتہ چلتا ہے کہ سادہ سے نظر آنے والے ان اشخاص کی شخصیت کتنی گہری ہے ایسے
ہی ایک شخص سے میری چند روز قبل ملاقات ہوئی جس کے بارے میں سنا تھا کہ وہ
کسی کے پاس بیٹھ جائے تو اس کا دل جیت لیتا ہے ۔ بڑی عمیق سوچ و فکر کا
حامل یہ شخص پرویز جٹ کہلاتا ہے جو کہ پنجاب پولیس جھنگ میں سپاہی کے فرائض
انجام دے رہا ہے جھنگ کا ہر سپاہی اور افسر جانتا ہے کہ اس کی شاعری سب کا
دل موہ لیتی ہے پولیس محکمے میں ہونے کے باوجود ایک ہمدردانہ دل کا مالک
اور انتہائی شفیق انسان ہے جو دل موہ لینے کی خاصیت رکھتا ہے اس کی شاعری
میں کئی اخلاقی ، معاشرتی اور سماجی اسباق موجود ہیں ۔ اپنی شاعری میں
پرویز جٹ نے خوبصورت انداز میں معاشرے کی بے شمار برائیوں پر خوبصورت انداز
میں تنقید کی ہے ۔ اس کی شاعری میں وطن سے بے پناہ محبت کی جھلک بھی واضح
ہے جہاں معاشرے کی برائیوں کا ذکر ہے وہیں اپنے محکمے کی اچھائیاں اور
برائیاں بھی بڑے انوکھے انداز میں بیان کی ہیں ۔ اﷲ سے اپنے پیار اور اس کے
سامنے اپنی گزارشات کو بڑے پیارے اور نرالے انداز میں ظاہر کیا ہے
اﷲ سوہنیا اک گل تے دس۔۔۔دیندا کیوں اے انج دا کس۔۔۔کدی تے ساڈے کول وی
آ۔۔۔سانوں اپنے سامنے بٹھا۔۔۔لگنا کوئی مُل نہ بھاء۔۔۔لہہ جاون ساڈے سارے
چاہ۔۔۔رورو اپنیاں اکھاں بھریے۔۔۔رج کے شکوے شکایتاں کریے
پولیس میں بھرتی ہونے سے پہلے پرویز کے پولیس بارے خیالات عوام سے مختلف نہ
تھے۔اب اسکا کہنا ہے کہ محکمے میں کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورا محکمہ بدنام
ہے ۔فرض شناس پولیس والوں کے بارے پرویز جٹ کہتے ہیں
جاواں صدقے پُلس والیاں تے،جہیڑے سر تے دھوپ گزاردے نیں۔۔۔جہیڑے کھلو کے
روڈاں سڑکاں تے،نہ کدی وی ہمتاں ہاردے نیں۔۔۔اے عوام نوں تحفظ دیونڑ لئی ،ساہنواں
دے نذرانے واردے نیں۔۔۔پلس والے نئی جان دی پرواہ کردے، لوکی فیر وی برا
پکاردے نیں
اپنے محکمے میں موجود کرپشن پر بھی پرویز جٹ نے بڑے دلچسپ انداز میں تنقید
کی ہے ۔ اس کے چند اشعار قارئین کی نذر کرتے ہیں
کُج نا کُج تے ڈیلی لبھے ، پانویں آنا دھیلی لبھے ۔۔۔کھلوئیے جد ناکے اتے ،
اکھ ہندی ہر کاکے اتے۔۔۔اوہی بندہ گھیر لیندے آں ، جیہڑا اپڑیں سہیلی لبھے
۔۔۔پھردے رہیدا آلا دوآلہ ، ویکھے جد کوئی سبزی والا ۔۔۔دابہ مار کے لے
لیندا آں، پالک پانویں کریلی لبھے
پرویز جٹ نے معاشرے میں موجود بہت سی برائیوں کو اپنی نظم ’’قوم دی حالت‘‘
میں بڑے دل گیر انداز میں بیان کیا ہے۔ اپنے تہذیب و تمدن کو پسِ پشت ڈال
کر گمراہی کی طرف جا رہی پاکستانی قوم کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں
اپنے اسلامی روایات اور اقدار کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے ۔
اج حالت ویکھ کے دنیا دی ، میری طبیعت بڑی گھبرا رئی ہے ۔۔۔نیکی ول کوئی
دھیان نئی، دنیا بدی کما رئی اے۔۔۔اے حکومت نوی نویلی اے، من مانی اج منا
رئی اے۔۔۔مینوں کیہندے چپ کر بولیں نا، اے قوم ترقی تے جا رئی اے۔۔۔اج نام
اسلام دا جگہ جگہ، بدنام کرایا جا رہیا اے۔۔۔لے کے نام تجارت دا، سود
کھوایا جا رہیا اے۔۔۔ایس نوں دور تمدن دا آکھن ،پردہ وی ہٹایا جا رہیا اے
پرویز جٹ کی پر کشش شاعری کے چند نمونے قارئین کی نذر کئے ہیں ۔اب تک پرویز
جٹ کی تصنیف ’’وردی ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس وقت پرویز جٹ جیسے
شاعروں کو حکومت کی توجہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے جذبات کے تصور کو ملنے
والے الفاظ تک ہر خاص و عام کی رسائی ممکن ہو سکے اور ان کی فکر و دانش سے
ہر شخص مستفید ہو سکے۔ |