ماضی بعید میں بچوں کی کردار سازی اور شخصیت سازی میں گھر
کے بعد محلے کا کردار نہایت اہم ترین ہوتا تھا۔بچے تعلیم وتربیت تہذیب
وتمدن شعور وآگہی اور رکھ رکھاو کا سبق یہیں سے پاتے تھے۔ مگر اب یہ ادارہ
نہ صرف ختم ہوچکا ہے بلکہ اب ہمارے یہاں اپنے بچوں کے معاملے میں کسی
بیرونی مداخلت کا تصور بھی قابل قبول نہیں ہے۔
ہمارے بچپن کا دور بھی خوب تھا ۔
بڑا سا گھر ہوتا تھا۔
گھر میں بہت سے گھر والے ہوتے تھے۔
ہنستا بستا خوشحال گھرانہ۔
فی زمانہ تو صرف ایک عدد لاڈلی بیگم اور دو عدد بچوں والا گھرانہ ہی
خوشحالی کا حقدار گردانا جاتا ہے۔
بچوں کی تعداد میں کمی کا تمام تر فائدہ بیگم اٹھاتی ہیں اور میاں صاحب
انکو ہی ہمیشہ بچی سمجھ کر انکی ناز برداریوں میں لگے رہتے ہیں ۔
سب کی خوشیاں اور درد سانجھے ہوتے تھے۔
رشتے سانس لیتے تھےاورجیتے دکھائی دیتے تھے۔
گھروں کے ساتھ گھر جڑے ہوتے تھے بڑے اور کشادہ ۔
دلوں کے ساتھ دل ملے ہوتے تھے آئینے کی طرح صاف۔
پڑوسی پڑوسی نہیں تھے بلکہ کوئی ماموں ممانی تھے،کوئی خالہ خالو تھے اور
کوئی چچا چچی ۔بے شمار پھوپھیاں اس کے علاوہ تھیں۔
بچے شام کو محلے کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں ہاکی کرکٹ اور دوسرے گیمز کھیلتے
تھے ۔بچے اور نوجوان خوب کھیلتے کودتے پھر مغرب کی اذان کے ساتھ ہی نماز
ادا کر کے فورا اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے۔صحتمند جسم ہی صحتمند دماغ
فراہم کرتا ہے لہذا یہ بچے دل لگا کر تعلیم میں مشغول ہوجاتے ۔
محلے کے بزرگ نوجوانوں پر گہری نظر رکھتے تھے کہ مبادا کسی غیر شرعی یا غیر
اخلاقی سرگرمیوں میں مشغول تو نہیں ہو رہے ۔
ہمارے محلے میں ایک چچا ہوتے تھے اصل نام تو انکا نجانے کیا تھا مگر سب
انھیں منا کہتے تھے۔منے چچا ایک منحنی سے نوجوان تھے۔مگر رعب ودبدبہ ایسا
تھا کہ ہلاکو اور چنگیز خان بھی انکے سامنے کانپتے تھے۔بڑے سے فریم کی عینک
کے پیچھے چھپی جھیل سی خوفناک آنکھوں سے اگر کسی کو گھور کر دیکھ لیتے تو
بچوں کی روح کا نپ جاتی تھی۔اس زمانے میں ڈائپر کا تصور بھی نہیں تھا۔ماوں
کا کام بڑھ جاتا تھا۔پورے محلے کے بچے منے چچا سے ہوشیار رہتے ہوے کھیل کود
اور شرارتیں کرتے کہیں کوئی بات منے چچا کی طبعہ نازک پر گراں نہ گزر جائے
ورنہ سزا کے طور پر بچوں کو اٹھا کر گٹر میں پھینکنا منے چچا کا پسندیدہ
مشغلہ تھا۔
ماں باپ بے بسی سے یہ سب ہوتا دیکھتے مگر اس فعل کو بچوں کی اخلاقی تربیت
کا حصہ سمجھ کر خاموش رہتے بالکل اسی طرح جیسے آج کل اپنے ننھے ننھے بچوں
کو بے رحم مانٹیسری اسکولوں میں چھوڑ کر آجاتے ہیں کہ ان کا مستقل سنور جاے
گا۔
منے چچا کے ان دہشت ناک تربیتی ہتھکنڈوں کے بچوں کی نفسیات پر کیا دور رس
اثرات مرتب ہوئے ہونگے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے مگر اس بات کا زمانہ شاہد
ہے کی منے چچا کے ڈراے اور سدھائے ہوے بچے دنیا میں جہاں بھی گئے ان کے
اخلاق و کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔
محلے میں ایک بڑی جامع مسجد واقع تھی۔جہاں کے مولانا صاحب ایک خوش پوش روشن
خیال اور تعلیم یافتہ شخص تھے۔ان کا انداز گفتار دل کش اور دلنشین تھا۔بچے
مسجد سے ملحقہ مدرسے میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے ۔بچوں کے تربیت کے
لیے لگ جماعت کا اہتمام ہونا .تربیت کے انداز بے شک نرالے تھے مگر اخلاص کا
عنصر نمایاں تھا۔
ایک کبڑے چچا بھی تھے جو مسجد میں ہمہ وقت پائے جاتے تھے۔ان کا واحد کام یہ
تھا کہ دوران جماعت اگر بھول سے کوئی بچہ بڑوں کی صف میں آکر کھڑا ہوجاتا
تو وہ اچانک چیل کی تیزی سے نمودار ہوتے اور اسے چوزے کی مانند گردن سے
دبوچ کر پیچھے کھڑا کر دیتے ۔یہ بھی ایک دہشت ناک کردار تھا۔مگر اب عشروں
کے گزرنے کے بعد سرراہ ان سے ملاقات ہوتی ہے تو ایک ضعیف اور ناتواں کبڑے
چچا سامنے ہوتے ہیں آنکھوں میں شناسائی پاکر ان کی آنکھوں میں اترتی نمی
صاف دیکھی جاسکتی تھی ۔
گلے ملتے ہوئے نجانے کیوں وہ رو پڑتے ہیں بالکل بچوں کی طرح ؛رشتے سسکتے
ہوئے محسوس ہوتے ہیں، ہماری پلکیں بھی اشکوں سے بھیگ جاتی ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ
"رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے بن
جاتے ہیں اور احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی ہوجاتے ہیں " |