آج بھی ایک بات جو مشہور ھے کہ ایوب خان نے پاکستان کے
دریا ہندوستان کو بیچ دئیےتھے سرائیکی وسیب کا پانی بیچ دیا تھا مگر حقیقت
میں کہانی کچھ اور ہی تھی۔
ڈیوڈ ای لیلین تھال (David E. Lilienthal) ایک عجیب کردار تھا‘ وہ ہارورڈ
یونیورسٹی کا لاء گریجویٹ تھا‘ وکیل تھا لیکن وہ دنیا میں کوئی تاریخی کام
کرنا چاہتا تھا۔
امریکا 1940ء کی دہائی میں خوفناک مالیاتی بحران کا شکار تھا‘ صدر روزویلٹ
نے معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے پورے ملک میں میگا پراجیکٹس شروع کر دیے‘
لیلین تھال صدر کا دوست تھا‘ صدر نے اسے امریکا میں ڈیمز بنانے کی ذمے داری
دے دی‘ لیلین تھال نے دو شرائط پیش کیں اور منصوبہ شروع کر دیا‘ پہلی شرط
فیصلوں کی آزادی تھی اور دوسری وہ صرف اور صرف صدر کے سامنے جواب دہ تھا‘
ڈیمز پراجیکٹ کے لیے ٹینیسی ویلی (Tennessee Vellay) کا انتخاب کیا گیا‘ یہ
وادی امریکا کی سولہویں بڑی ریاست ٹینیسی میں واقع ہے اور یہ ہمارے علاقے
کالاباغ سے ملتی جلتی ہے۔
لیلین تھال ٹینیسی ویلی اتھارٹی کا چیئرمین بن گیا‘ لیلین تھال نے دریائے
ٹینیسی پر درجنوں ڈیمز بنائے‘ ڈیموں کی تعمیر کے دوران اسے محسوس ہوا جوہری
توانائی بجلی حاصل کرنے کا سستا اور محفوظ ترین طریقہ ہے‘ یہ جوہری توانائی
کا منصوبہ لے کر صدر کے پاس گیا اور صدر ٹرومین نے اٹامک انرجی کمیشن بنا
کر اسے اس کا سربراہ بنا دیا ‘ لیلین تھال نے امریکا میں جوہری توانائی کے
ذریعے بجلی پیدا کرنا شروع کر دی یوں وہ اٹامک انرجی اور جدید ڈیمز کا بانی
کہلانے لگا۔
پاکستان اس دور میں ایک نیا اور جدید ملک بن کر ابھر رہا تھا‘بھارت نے
پاکستان کا پانی بند کردیا تھا اور ملک شروع ہی میں مسائل کا شکار ہو گیا
تھا‘ امریکا پاکستان کو کامیاب‘ ترقی یافتہ اور مضبوط دیکھنا چاہتا تھا‘
لیلین تھال 1950ء کی دہائی میں سرکاری افسروں کو لیکچر دینے پاکستان آیا
اور پاکستانی قوم کے جذبے‘ ایمانداری اور جغرافیائی خوبصورتیوں کا فین ہو
گیا ‘ اس نے پاکستان کو پانی اور بجلی دونوں میں خود مختار بنانے کا فیصلہ
کر لیا۔
وہ امریکی اشرافیہ میں بہت پاپولر تھا‘ ورلڈ بینک کا صدریوجین رابرٹ بلیک
اس کا ذاتی دوست تھا‘ وہ یوجین کو پاکستان لے آیا‘ ملک میں اس زمانے میں
ملک فیروز خان نون وزیراعظم تھے‘ وزیراعظم نے لیلین تھال کے مشورے پر
ٹینیسی ویلی اتھارٹی کی طرز پر پاکستان میں واپڈا (واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ
اتھارٹی)بنا دیا‘ واپڈا آگے چل کر دنیا کی مشہور ترین اتھارٹی بنی اور دنیا
کے بیسیوں ملکوں نے اس کو کاپی کیا‘ امریکا اور یورپ 1971ء تک اس کی مثالیں
دیتا تھا۔
پاکستان میں 1958ء میں مارشل لاء لگا اور جنرل ایوب خان صدر بن گئے‘ بھارت
بار بار پاکستان کا پانی روک لیتا تھا‘ حکومت بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم
کا معاہدہ کرنا چاہتی تھی‘ ہم چاہتے تھے آدھا پانی بھارت استعمال کرے اور
آدھا ہم استعمال کرتے رہیں لیکن ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ بلیک اور
لیلین تھال کی رائے مختلف تھی‘ ان کا کہنا تھا بھارت اپنے وعدے کی پاس داری
نہیں کرے گا‘ یہ پاکستان کو پانی پر روز بلیک میل کرے گا چنانچہ پاکستان
مسئلے کا مستقل حل تلاش کرے۔
ڈیم بنائے‘ دریائے سندھ کے پانی کو پورے ملک میں تقسیم کرے اور آزاد اور
خود مختار زندگی گزارے‘ صدر ایوب یہ دلیل نہیں مان رہے تھے‘ ورلڈ بینک کے
صدر نے آخر میں کہا ’’آپ پھر بھارت کے ساتھ طویل جنگ کی منصوبہ بندی کر لیں
کیونکہ پانی کا مسئلہ جنگ کے بغیر حل نہیں ہو سکے گا‘‘ صدر ایوب نے سوچا
اور انھیں یوجین رابرٹ کی بات میں وزن محسوس ہوا اور یوں عالمی بینک نے
1960ء میں بھارت کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر سندھ طاس معاہدہ کروادیا۔
بھارت آج بھی سندھ طاس کو نہرو کی سیاسی غلطی قرار دیتا ہے اور یہ اسے
58سال سے تبدیل کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے‘ سندھ طاس معاہدے کے
بعد پاکستان نے تین کام کرنا تھے‘ دھڑا دھڑ ڈیم بنانے تھے‘ بجلی پیدا کرنی
تھی اور بھارت کے حصے آنے والے تین دریاؤں بیاس‘ راوی اور ستلج کے زیر کاشت
علاقوں تک نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی پہنچانا تھا‘ پاکستان اس وقت
ٹیکنالوجی میں پسماندہ ترین ملک تھا‘ ہمارے پاس گدھے‘ بیل گاڑیاں اور ہتھ
ریڑھیاں سب سے بڑی ٹیکنالوجی تھیں۔
ہم ان سے ڈیم تو دور نہر تک نہیں بنا سکتے تھے‘ ملک میں اس وقت غلام اسحاق
خان اور غلام فاروق دو بڑے بیورو کریٹس تھے‘ صدر ایوب نے یہ کام ان دونوں
کو سونپ دیا‘ یہ دونوں کمال انسان تھے‘ آپ آج واہ فیکٹری سے لے کر پی آئی
اے اور واپڈا سے لے کر ایٹمی پروگرام تک ملک کا کوئی بڑا منصوبہ نکال کر
دیکھ لیجیے آپ کو اس میں ان دونوں کا ہاتھ ملے گا‘ اللہ تعالیٰ نے1958ء سے
1971ء تک اس ملک پر نوازشات کے دروازے کھول رکھے تھے۔
ملک کو جتنے ایماندار اور وژنری بیورو کریٹس‘ سیاستدان اور تاجراس دور میں
ملے وہ دوبارہ نصیب نہیں ہوئے ‘ اس دور کے بیوروکریٹس ریاست کے لیے ہر
فیصلہ اللہ کا حکم سمجھ کر کرتے تھے‘ آپ اس دور کی ایمبیسیوں کی فہرست نکال
کر دیکھ لیں‘ نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل ہو یا پھر امریکا ‘ لندن‘ فرانس اور
روم کے سفارت خانے ہوں آپ عمارتیں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں‘ آپ پاکستان
کے اداروں کی تاریخ بھی نکال کر دیکھ لیجیے‘ ہر ادارہ وژنری تھا اور ہر
وژنری ادارے کے پیچھے کوئی نہ کوئی غلام اسحاق خان یا غلام فاروق جیسا
بیورو کریٹ تھا۔
صدر ایوب خان نے غلام فاروق اور غلام اسحاق خان کو ڈیمز بنانے کا حکم دیا
اور یہ دونوں جت گئے‘ ملک کے تمام اداروں سے انجینئرز واپڈا میں اکٹھے کیے
گئے اور کام شروع ہو گیا لیکن یہ حقیقت ہے ایسے منصوبے پاکستان جیسے ملکوں
کے بس کی بات نہیں ہوتے چنانچہ غلام فاروق امریکا گئے‘ ورلڈ بینک کے
صدریوجین رابرٹ سے ڈیم ڈیزائن کرنے والی دس بڑی کمپنیوں کی فہرست لی اور
پھر صدر سے پوچھا ان میں سے کون سی کمپنی کا سی ای او امریکی صدرآئزن
ہاورکے قریب ہے۔
ورلڈ بینک کے صدر نے قہقہہ لگا کر تیسری فرم پر انگلی رکھ دی‘ وہ فرم
Harzaانجینئرنگ تھی‘ فرم کا سی ای او صدر آئزن ہاورکے ساتھ گالف کھیلتا
تھا‘ غلام فاروق نے سی ای او کے ساتھ ملاقات کی اور پہلی میٹنگ میںفرم کو
منگلا ڈیم کی ڈیزائننگ کا کام دے دیا‘ آپ ملاحظہ کیجیے یہ فیصلہ ایک شخص نے
امریکا میں بیٹھ کر ایک میٹنگ میں کیا اور ملک کے کسی ادارے‘ کسی اتھارٹی
نے اس سے یہ نہیں پوچھا تم نے پہلی دو کمپنیاں چھوڑ کر یہ کام تیسری کمپنی
کو کیوں دیا اور کیا اس کے لیے پیپرا رولز فالو کیے گئے؟ جی نہیں‘ یہ علتیں
اس وقت موجود نہیں تھیں‘کیوں؟ کیونکہ اس دور میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کوئی
بے ایمان اور نالائق افسر کسی اعلیٰ عہدے تک پہنچ جائے۔
ہمارے اس پاکستان میں فیصلہ ساز کرسیوں پر صرف اور صرف ایماندار اور
باصلاحیت لوگ ہوتے تھے چنانچہ پوری ریاست کا خیال تھا غلام فاروق نے جو بھی
فیصلہ کیا وہ درست ہو گا اور اس میں بے ایمانی کا شائبہ تک نہیں ہو گا‘ میں
آج دل سے سمجھتا ہوں اگر اس زمانے میں نیب‘ ایف آئی اے‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
اور پلاننگ کمیشن جیسے ادارے ہوتے تو پاکستان میں آج منگلا ڈیم ہوتا اور نہ
ہی تربیلا اور نہ ہی ہم ایٹمی طاقت ہوتے اور آپ اگر آج بھی ان جیسے بڑے
منصوبے بنانا اور مکمل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ملک کے تمام ترقیاتی
منصوبوں کو احتساب اور روک ٹوک سے بالاتر کرنا ہوگا‘ آپ کو اٹامک انرجی
کمیشن کی طرح اداروں کو خودمختاری دینا ہوگی ورنہ ہم اگلے پچاس سال تک ملک
میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنا سکیں گے۔
غلام فاروق مرحوم نے ہارزا کا انتخاب اس کے سی ای او کے صدرآئزن ہاورکے
ساتھ تعلقات کی وجہ سے کیا ‘ امریکا منگلا ڈیم میں پاکستان کا معاون تھا
اور یہ منصوبہ امریکی صدر کے تعاون کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا تھاچنانچہ
ڈیزائن میں جہاں مشکل آتی تھی‘ کمپنی امریکی صدر کے ساتھ بات کرکے وہ مشکل
دور کرا لیتی تھی‘ غلام فاروق اور اسحاق خان نے ہارزا کے ساتھ یہ معاہدہ
بھی کیا تھا کمپنی 270 امریکی انجینئرز کو پاکستان لائے گی۔
امریکا کا ہر انجینئر ڈیم پر کام کے دوران دو پاکستانی انجینئرز کو ٹرینڈ
کرے گا‘ یہ معاہدہ بھی ہو گیایوں ہارزا نے پاکستان کے پانچ سو انجینئرز
ٹرینڈ کیے‘ پاکستان نے1962ء میں منگلا کا انٹرنیشنل کانٹریکٹ جاری کیا‘ یہ
اس دور میں دنیا کا سب سے بڑا سول انجینئرنگ کانٹریکٹ تھا‘ پوری دنیا حیران
تھی پاکستان کہاں ہے اور یہ اتنا بڑا پراجیکٹ کیسے شروع کر رہا ہے؟ پاکستان
کے پاس منصوبے کی کل لاگت کا صرف 15 فیصد تھا‘ ہمیں 17 ملکوں نے 80 فیصد
رقم کے برابر گرانٹ دی۔
پانچ فیصد ورلڈ بینک نے ڈالا اور منگلا ڈیم شروع ہو گیا‘ امریکا نے ڈیم کے
لیے منگلا میں ائیرپورٹ بنایا‘ امریکا سے انجینئرز کا پورا پورا جہاز منگلا
آتا تھا‘ واپڈا نے منصوبے کی پڑتال کے لیے اپنا ہوائی جہاز خرید لیا ‘ دو
سال بعد تربیلا ڈیم پر بھی کام شروع ہو گیا‘ یہ منگلا سے دو گنا بڑا تھا‘
یہ منصوبہ اتنا بڑا تھا کہ تین ملکوں کی کمپنیوں نے مل کر یہ ٹھیکہ لیا اور
امریکا دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے طالب علموں کو
جہازوں میں بھر کر تربیلا لاتا تھا اور وہ طالب علم پندرہ پندرہ دن سائٹ پر
رہتے تھے‘ تربیلا ڈیم اس دور کا اہرام مصر تھا‘ پوری دنیا میں اس کے بارے
میں مضامین بھی چھپے اور دنیا کی بڑی انجینئرنگ یونیورسٹیوں نے اس پر تھیسس
بھی کیے‘ منگلا اور تربیلا دونوں ڈیم اپنی مدت سے کم میں مکمل ہوئے اور
دنیا پاکستان کے جذبے‘ شفافیت اور قوت فیصلہ کی معترف ہو گئی۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کو منگلا‘ کالاباغ اور تربیلا تین ڈیم بنا کر دینے
تھے‘ کالاباغ نسبتاً آسان تھا چنانچہ واپڈا نے فیصلہ کیا ہم امریکی
انجینئرز سے منگلا اور تربیلا بنوالیتے ہیں‘ ہمارے انجینئرز اس دوران ٹرینڈ
ہو جائیں گے اور ہم کالاباغ خود بنا لیں گے اور یوں یہ ہمیں سستا بھی پڑے
گا اور ہمارے انجینئرز بھی ٹرینڈ ہو جائیں گے اور یہ ہماری وہ غلطی تھی جس
کا خمیارہ آج ساری قوم بھگت رہی ہے‘ ہم آج تک اپنی نالائقی کے زخم چاٹ رہے
ہیں‘ پاکستان کیا تھا اور یہ کیا ہو گیا‘ ہم کس بلندی سے کس پستی تک آ گئے؟
آپ سوچیں گے تو شرمندہ ہو جائیں گے- |