ایک حد میں رہتے ہوئے کسی کے نظریات کے ساتھ اختلاف کرنے
اور اپنی رائے دینے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے
کسی کے ساتھ اختلاف کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔کیونکہ اس کے ذریعے
مستقبل میں پیدا ہونے والے فتنوں کو روکا جاسکتا ہے۔ بے جا اعتراضات اور
ناشائستہ گفتگو کے بجائے اختلاف کو دلائل کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ بعض
حضرات اختلاف کے اصولوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے دلائل دینے کے بجائے
نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اختلاف کی آڑ میں دوسروں کی تذلیل
کرجاتے ہیں۔ مذکورہ اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تحریر کا آغاز کرنا
چاہوں گا۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ 17 جنوری کو ایک قومی شخصیت کی سالگرہ
منائی جارہی ہے تو دل میں ایک ہوک اٹھی کہ اہلِ نظر کے سامنے اس عظیم شخصیت
کے نظریات کو مختصرًا پیش کیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل غلام مرتضیٰ سید المعروف
جی ایم سید کی کتاب "جیئن ڈٹھو آہ موں(جیسا دیکھا ہے میں نے)" کے سندھی
ایڈیشن کو پڑھنے کا موقعہ ملا۔ موصوف نے اپنی بساط کے مطابق کتاب کے ایک
ایک ورق پہ اسلامی نظریات کے خلاف قلم فرسائی کی ہے۔ ملا کا نام لے کر جس
طرح اسلامی اصول پر تنقید کی گئی ہے وہ قابلِ مذمت ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے
مجھے ایک دانشور کا قول یاد آیا کہ اگر کسی نے اسلام کو گالی دینے ہوتی ہے
تو وہ مولوی کو گالی دے کر اپنی بھڑاس نکالتا ہے۔ بلکل اسی طرح موصوف نے
بھی اپنی کتاب میں اسی روایت کو اپناتے ہوئے ملا کی آڑ میں اسلام کے خلاف
زبان درازی کی ہے۔ موصوف کے مطابق اسلامی قوانین قدیم دور کی روایات پر
تعمیر کیے گئے ہیں لہٰذا موجودہ دور میں ایسے قوانین کی کوئی ضرورت نہیں
(ص93) موصوف کے نزدیک اسلام ایک نامکمل مذہب ہے (ص 98) خلقتِ انسان، حیات
بعد الممات، روزِ قیامت، پلصراط، جنت اور دوزخ ملا کے ایجاد کردہ فرسودات
ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں (ص 94،97) اس کے علاوہ موصوف نے اس کتاب
میں بیسیوں ایسے دعوے کیے ہیں جو صریح قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔ انہی
نظریات کی بنیاد پر مفتیانِ کرام نے موصوف پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ لیکن اس
کے باوجود بعض روشن خیال اور ترقی پسند افراد اسلامی تعلیمات کے مقابلے میں
موصوف کے نظریات کی نہ صرف تائید کرتے ہیں بلکہ ان کا تحفظ بھی کرتے نظر
آتے ہیں۔ بعض حضرات موصوف کو عالمِ دین اور صوفی اعظم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ
شرعی اصول سے اعراض کرکے تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ الگ بات ہے
کہ آج کچھ اسلام دشمنوں نے تصوف کا معنیٰ ہی بدل دیا ہے۔ نماز، روزہ و دیگر
شرعی احکام سے دور انسانیت کے نام کا چورن بیچ کر عام اور سادہ لوگوں کو
پھنسانے اور بے رحمی سے ان کو لوٹنے کا نام صوفی ازم رکھا گیا ہے۔ لیکن
حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے شریعت اور طریقت (تصوف) ایک دوسرے
کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ شرعی اصول سے قطع نظر تصورِ تصوف غیر متصور ہے۔
جی ایم سید کے نظریات کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد متاثر
ہوئی۔ اس زہر کا اثر آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
اسلام بیزار لوگوں کے لیے جب اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو
وہ اپنی خواہشات کا تحفظ کرنے کے لیے اسلام کے خلاف زبان درازی کرنا شروع
کردیتے ہیں۔ یہ بات عقلًا بھی جائز نہیں کہ ایک یا چند معمولی افراد کے
مقابلے میں مخبر صادق نبی کریم صہ ، صحابہ کرام رضہ اور علماء و صلحاء کی
ایک بڑی جماعت سے متواتر منقول دین کی مخالفت کی جائے۔ اگر سلیم العقل اور
سنجیدہ افراد غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جی ایم سید کی صرف اس کتاب (جیئن
ڈٹھو آہ موں) کا مطالعہ کریں تو حقیقت ان کے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح
ہوجائے گی اور ان کے پاس موصوف کو خارج از اسلام کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ
ہوگا۔
|