یہ کھلی حقیقت ہے کہ ملک اور معاشرے بغیر منظم ، فعال اور
مبنی بر انصاف نظام کے کسی بھی شعبے میں ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں
ہوسکتے۔ اس حقیقت کو سمجھنا ہو تو دنیا بھر کی ترقی یافتہ اور زوال پذیر
ریاستوں اور معاشروں کا تقابلی تجزیاتی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ریاستی
نظام مقننہ(پارلیمنٹ و سینٹ)، عدلیہ اور بیورو کریسی پہ مشتمل ہوتا ہے۔یہ
نظام کے بنیادی ادارے معاشرے کی کایہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،اگر
کسی ریاست میں یہ تینوں اداروں کا نصب العین یہ ہو کہ قوم کو معاشی،
تعلیمی، سماجی و دیگر جملہ شعبہ جات میں مبنی بر عدل ونصاف قوانین اور
پالیسوں اور ان پہ کامل عمل در آمد کے ذریعے ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار
کرنا ہو تویہ ادارے ہمہ وقت قوم کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشی و
تعلیمی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں کہ جس کے
نتائج رفتہ رفتہ قوم کوبام عروج تک لے جاتے ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ اقوام
نے عملی طور پہ اس کا مظاہرہ کر کے دکھا یا،ان معاشروں میں اداروں کی بالا
دستی نظر آتی ہے،قانون کی حکمرانی ہے، شخصیت کی اہمیت ادارے سے ہوتی ہے،
بڑی سے بڑی شخصیت قانون اور اداروں کے تابع نظر آتی ہے۔قانون کی حکمرانی
اور عوامی فلاح و بہبود پہ مبنی نظاموں نے معاشروں کو امن ،خوشحالی کا
گہوارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے نیز ترقی یافتہ ممالک کے نظاموں کی
فعالیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان تینوں اداروں مقننہ،
عدلیہ اور بیوروکریسی میں ایک بہترین تعلیمی و تربیتی نظام کے ذریعے جن
افراد کو پہنچاتے ہیں وہ اہل اور دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کی
حکمرانی پہ کامل یقین رکھتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سطح پہ افراد
معاشرہ قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے نظر آتے ہیں، عوام کو سہولیات مہیا
کرنے والے تمام اداروں میں بیٹھے افراد قانون کی بالا دستی اور عوامی فلاح
اور بہتری کے عمل کو یقینی بنانے میں اپنا پورا زور صرف کر دیتے ہیں۔ان میں
سے اگر کوئی کسی بھی سطح کی قانون شکنی یا کرپشن میں ملوث ہوتا ہے تو اسے
بلا تاخیر سخت قسم کی تادیبی کاروائی کا سامنا ہوتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق
کسی بھی سطح کے عہدے سے ہو۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی ریاست کی بھاگ
ڈور سنبھالنے والی پہلی قیادت ریاست کے تمام اداروں کی بنیادیں اگر اہلیت ،
انصاف اور قانون کی حکمرانی پہ رکھ دے اور کوئی ایسی گنجائش آئین اور قانون
میں نہ چھوڑے جس سے اداروں کے مقابلے میں شخصیات کی بالادستی قائم ہو اور
کوئی شخصیت چاہے جتنی بھی مالدار اور طاقت ور ہو، قانون سے بالا تر نہ ہو
سکے۔تو اس طرح ریاست کی بنیادیں مضبوط ہونا شروع ہو جاتی ہیں،ادارے فعال ہو
جاتے ہیں،قوم کو بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ بہتری سے ہمکنار کرتے چلے
جاتے ہیں۔اداروں میں شخصیات بدلتی رہتی ہیں لیکن ان کی کار کردگی اور
فعالیت میں فرق نہیں آتا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب قیادت اور ملکی نظام چلانے
والے اداروں کے افراد قانون کی گرفت میں رہتے ہیں تو عام عوام خود بخود
اپنا مزاج درست کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور یوں معاشرہ بحثیت مجموعی آگے
بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
لیکن جب ان بنیادی تین اداروں کی ابتداء ہی کرپٹ،جھوٹے اور بددیانت افراد
سے ہو،تو اس کا نتیجہ پوری قوم اور معاشرے کے لئے بھیانک صورت میں نکلتا
ہے۔اور ریاست ہر وقت خطرے سے دوچار رہتی ہے۔دنیا بھر میں زوال پذیر اقوام
کی بنیادی وجہ یہی ہے۔اگر ان تباہ حال معاشروں کا تجزیہ کیا جائے تو ہر سطح
اور شعبہ میں ان تینوں اداروں کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔چونکہ ریاست ان
تینوں اداروں ہی سے کنٹرول ہوتی ہے لہذا ان کے ذیلی ادارے اور شعبے بھی ان
کے گہرے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں اور بلکہ رفتہ رفتہ مرکزی اداروں میں
بیٹھے ہوئے افراد اور گروپوں کے مفادات کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں۔قومی
مفادات کی بجائے شخصی اور خاندانی مفادات کا تحفظ مد نظر رہتا ہے۔ریاستی کے
تینوں اداروں پہ بر اجمان افراد کا نقطہ نظر فقط اپنے اثاثے بنانے اور
انہیں تحفظ دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔لہذا وہ مال و جائیداد کے حصول کے
لئے ریاست کے تمام اداروں کو استعمال میں لاتے ہیں،ذیلی ادارے ہوں یا اہم
ترین مرکزی ادارے ان میں ایک مخصوص استحصالی اور مفاد پرست طبقہ کنٹرول
حاصل کر لیتا ہے۔قانون اور انصاف کی تمام ڈوریں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں
اور وہ جب چاہیں اپنی کرپشن اور چوری اور بددیانتی کو قانون کے تقاضوں میں
ڈھال لیں،اور جب چاہیں اور جس طرح چاہیں قومی ٹیکس کو اپنے ذاتی اور
خاندانی مفادات کے لئے بے دردی سے استعمال کریں،کیونکہ ہر ادارے میں ان کے
اپنے متعین کردہ کرپٹ اور مفاد پرست عناصر بیٹھے ہوتے ہیں جس سے ان کا بال
بیکا نہیں ہو سکتا۔اس طرح ریاست کے تمام ادارے ایک مخصوص طبقے کے مرہون منت
ہو جاتے ہیں۔جب کبھی ان کی اس کرپشن ، بددیانتی اور ظلم پہ کہیں سے آواز
اٹھتی ہے تو یہ فوراً جمہوریت اور قومی سلامتی کو اپنے لئے ڈھال کے طور پہ
استعمال کرتے ہیں۔اگر کسی کرپٹ خاندان یا شخصیت کے خلاف کسی قسم کی چارہ
جوئی کی کوشش ہوتی ہے تو فوراً یہ واویلہ شروع کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو
سنگین خطرہ ہے۔اس طرح ایک ریاست جب اس طرح کی مافیا کے نرغے میں آ جاتی ہے
تو پھر وہاں عام عوام کی زندگی’’غلاموں ‘‘کی سی ہو جاتی ہے۔جو بنیادی
ضروریات کو تو ترستے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں قانونی انصاف لینے کے
لئے دھکے کھاتے کھاتے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔یوں معاشرے کی
اکثریت ’’جانوروں‘‘سے بھی بدتر زندگی گذارتی ہے۔جب یہ حالت کسی قوم کی ہو
جائے تو سمجھ لینا چاہئے وہاں نظام کے’’ بنیادی اداروں ‘‘میں مکمل تبدیلی
کا شدید تقاضہ پیدا ہو چکا ہے۔۔۔اسی کو تبدیلی نظام کہیں گے۔۔۔۔لیکن اگر ان
اداروں میں جزوی تبدیلی لائی جائے یعنی چند چہروں کو تبدیل کیا جائے اور
باقی اوپر سے لے کر نیچے تک وہی’’مافیا‘‘سب کچھ کنٹرول کر رہی ہو تو کسی
بھی طرح کی تبدیلی کی توقع رکھنا ’’انتہائی درجہ کی بے شعوری‘‘ کے سوا کچھ
بھی نہیں ہو سکتا۔ ۔۔عام طور پہ الیکشن کے ذریعے مقننہ کا انتخاب کیا جاتا
ہے اور عام طور پہ اس طرح کے ریاستی ماحول میں ایک مخصوص مافیا ہی پارلیمنٹ
میں سیٹیں لے کر کنٹرول حاصل کرتی ہے چونکہ نظام کے باقی تمام اداروں میں
ان ہی کہ زر خرید موجود ہوتے ہیں لہذا وہ ہر طرح کی دہن، دھونس اور دھاندلی
کے ذریعے اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔اور اس طرح اپنی من مرضی کے قوانین
پاس کر تے ہیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنی ’’ لوٹ مار‘‘ بھی کرتے رہیں اور
اس لوٹ مار کو قانونی تحفظ بھی فراہم کرتے رہیں۔۔۔اس حوالے سے وہ کرپٹ ججوں
اور وکیلوں کا ایک مضبوط ٹولہ بھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں جو انہیں ہر
طرح کا قانونی تحفظ فراہم کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور تاحیات ان سے
وفاداری نبھاتے ہیں۔
اگر کبھی کبھار عوام میں کسی قدر تھوڑا بہت شعور نمودار ہو جائے یا وہ
مہنگائی اور بے انصافی سے تنگ آ کر کسی مخلص سیاسی لیڈر کو ووٹ دے کر
کامیاب بھی کر دیں تو عدلیہ اور بیورو کریسی میں بیٹھے ’’مافیا‘‘کے دست
راست انہیں چلنے نہیں دیتے،اور جب کبھی بھی کسی خاندانی اور شخصی مفادات کے
خلاف اداروں کی بالا دستی کے لئے کوشش کی جاتی ہے تو اسے ہر طرح سے ناکام
بنایا جاتا ہے۔ایسے ایسے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے
ہوئے افراد اور کابینہ ان کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔عدالتی نظام اور
بیورو کریسی قومی فلاح و بہبود اور عوامی مفادات اور قانون کی حکمرانی کے
کسی پروگرام کو معاشرے میں فعال نہیں ہونے دیتے۔۔۔اس طرح سے پارلیمنٹ کو
ناکام کیا جاتا ہے۔یا پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے’’مافیا‘‘ کے ہرکارے اسے ناکام
بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔۔اگر کبھی کبھار عدلیہ میں کچھ ایسے
افراد آ جائیں جو کہ آئین اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے پہ اتر
آئیں تو انہیں بھی دھمکیوں دھونس اور دیگر ہتھکنڈوں سے پیچھے دھکیلا جاتا
ہے۔۔۔اور انہیں کسی طاقتور خاندان اور شخصیت کی قانون شکنی اور کرپشن پہ
کسی قسم کی قانونی گرفت کرنے سے مکمل طور پہ باز رکھنے کی کوششیں شروع ہو
جاتی ہیں۔۔۔پارلیمنٹ میں بیٹھے کرپٹ اور بددیانت اور بیوروکریسی میں موجود
نااہل اور بددیانت طبقہ عدلیہ کے کسی بھی مبنی بر انصاف قدم کو ناکام بنا
دیتا ہے۔۔۔۔۔اور ہاں اس سارے عمل میں جب کسی بھی ریاست میں استحصالی مافیا
مکمل قابض ہو جاتی ہے تو اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے’’میڈیا‘‘بھی اہم
کردار ادا کرتا ہے۔۔۔سچ پوچھیں تو ریاستوں اور قوموں کو ذلیل و خوار کرنے
میں فی زمانہ جس قدر میڈیا کردار ادا کرتا ہے شاید ہی کوئی اور شعبہ کرتا
ہو گا۔۔۔ملکی دولت کو لوٹنے والے خاندان اور شخصیات باقاعدہ ’’میڈیا‘‘ہاؤسز
اور اخبارات کو گود لیتے ہیں۔۔۔۔میڈیا اینکرز،اور صحافی اور اخبارات کے
مالکان کی چاندی ہو جاتی ہے۔۔۔خوب دل کھول کر مال بٹورتے ہیں اور سچ کو
جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔عوامی
خزانوں کو لوٹنے والوں کو’’ جمہوریت کے محافظ‘‘ بنا کر دکھانا ہو یا آمروں
کو قومی ترقی کا نشان بنا کر دکھانا ہو۔۔۔یا معاشرے کے اندر انتشار پھیلانا
ہو یا خوف و ہراس پھیلا کر لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا ہو ،یہ سب
امور میڈیا میں بیٹھی ’’مافیا‘‘بخوبی طور پہ انجام دیتی ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ
ایک اور اہم کام بھی میڈیا کے یہ سرخیل انجام دیتے ہیں وہ عالمی سامراجی
مقاصد کی تکمیل کا کام۔۔یا سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے معاشی مفادات کا
تحفظ ہو۔۔حکومتوں کو گرانے کے لئے پرو پیگنڈہ مہم ہو یا بیرونی دشمن
ایجنسیوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے اندرونی انتشار کو ہوا دینا ہو۔۔۔یہ سب
کام نہایت ہی مہارت سے کئے جاتے ہیں۔۔۔اور کبھی کبھار کوئی یہ جرات کر
بیٹھے ان پہ گرفت کرنے کی تو ۔۔۔۔زمین اور آسمان چیخ اٹھتا ہے۔۔۔آزادی
اظہار رائے پہ پابندی کے نام سے ایسا شور و غو غا مچایا جاتا ہے کہ بیرون
ملک ان کے محافظین حرکت میں آ جاتے ہیں اور پھر ’’مفادات‘‘کی احسن تکمیل کے
بعد یہ شور ختم ہو جاتا ہے۔۔۔لیکن اس طرح کے شور اور بلیک میلننگ کا سلسلہ
بہر حال ہر وقت ان کے زیر غور و عمل رہتا ہے۔۔۔۔تو اس طرح سے’’ مافیا کے یہ
مختلف گروہ ‘‘ ہر ادارے اور شعبے پہ اپنی گرفت کے ذریعے گٹھ جوڑ بنا لیتے
ہیں کہ اداروں کے اندر جزوی تبدیلی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔۔وہ اسے
انتہائی آسانی سے غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔۔۔
نتیجہ معلوم کہ جزوی تبدیلی سے نظام کی فرسودگی کو ختم کرنا تو درکنار اس
کے کسی ایک ذیلی شعبے کو بھی شفاف انداز سے چلانا اور اس سے بہتر نتائج
حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔لہذا جس معاشرے کے اندر نظام کلی طور پہ
کرپٹ اور ناہل مافیا کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہو وہاں ایک بھر پور اجتماعی
جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔جس طرح اجتماعی طور پہ اداروں کو یر غمال بنا کر
پوری قوم کو دست نگر بنا دیا جاتا ہے اسی طرح اس سے چھٹکارے کے لئے بھی
اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ یہ اجتماعی کاوش ایک حقیقی
انقلابی فکر کی حامل تربیت یافتہ منظم جماعت ہی سے وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔جو
نہ صرف فرسودہ نظام کو حقیقی معنوں میں تبدیل کر کے اوپر سے نیچے تک اداروں
کو مکمل طور پہ کنٹرول کر کے ا نہیں ملک اور قوم کی فلاح و بہبود کے لئے
بروئے کار لانے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہو۔بلکہ اس کے اندر بھی
انتہا درجہ کا ڈسپلن اور فکری ہم آہنگی موجود ہو تاکہ وہ مخالف قوتوں کی
ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہو سکیں۔تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ اسی طرح کی
اجتماعی جدو جہد کرنے والی انقلابی جماعتوں نے اقوام کی کایہ پلٹی ہے اور
اقوام کو بہترین قیادتیں فراہم کر کے انہیں ذلت سے نکال کر بام عروج تک
پہنچایا۔یہ وہ شعوری تقاضہ ہے جسے سمجھنے اور اس کی روشنی میں مسلسل جدو
جہد کرنا نئی نسل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔وگرنہ قومی زوال وقت کے ساتھ ساتھ
گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور قوم کو ملیا میٹ کر دیتا ہے، لہذا یہ شعوری طور
پہ سمجھنا چاہئے کہ کلی طور پہ فرسودہ نظام میں جزوی تبدیلی بے اثر اور بے
ثمر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ |