اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور کے انسان نے بہت
ترقی کر لی ہے اور اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت زندگی کے ہر شعبہ ہا
ے میں واضح تبدیلیاں کی ہیں جیسا کہ تعلیم، کام کاج ،رہن سہن ،رسم و رواج ،تفریحات
، عمارتیں اور دیگر سہولیات شامل ہیں .گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے انسان
نے اپنی زندگی کو آسان سے آسان تر بنا نے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ...مگر
افسوس !یہ سب کچھ کرنے میں مصروف انسان اپنے خاندان ،بچوں کی تربیت اور
گھریلو زندگی کو یکسر بھول گیا . معاشر ے میں ہر انسان پیسہ کمانے اور بلند
مرتبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں تو لگ گیا لیکن یہ بھول گیا کہ آخر یہ سب کچھ
کس کیلئےکر رہا ہے؟.... اس طرح کے حالات ویسے تو پوری دنیا میں تقریباً ایک
جیسےہی ہیں چاہے وہ مشرق ہو یا پھر مغرب .
لیکن اگر ہم اپنے معاشر ے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دوسرے معاشروں کی نسبت اس
میں زیادہ مسائل نظر آئیں گے .اگر ہم یہ کہیں کہ ان مسائل میں سب سے زیادہ
بچے یا ہماری نئی نسل تباہ ہو رہی ہے تو کچھ غلط نا ہو گا.ہمارے ہاں اکثر
والدین یہ شکایت کرتے ہوے نظر آتے ہیں کہ آج کل کے بچے اور نوجوان بہت بگڑ
گئے ہیں ... یہ پڑھائی پرتوجہ نہیں دیتے ، لڑائی جھگڑا کرتے ہیں ، بڑوں کی
عزت نہیں کرتے ، جھوٹ بولتے ہیں ، ان میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہیں
ہے ..وغیرہ ...اور پھر سوال کرتے ہیں کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟...ہم نے تو
ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی .....!!
ہم اکثر والدین سے پوچھتے ہیں کیا آپ نے کبھی اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت
نکال کر اپنے خاندان یا بچوں کو دیا ؟کیا کبھی اپنے بچوں میں بیٹھ کر ان سے
تعلیم ، کھیل یا دیگر کاموں اور مسائل کے بارے میں بات چیت کی ؟اپنے خاندان
والوں کے ساتھ ملکر کہیں سیر و تفریح پر گئے ہوں ؟ یا ان کے ساتھ مل کر
کبھی گھریلو حالات پر تبصرہ کیا ہو ؟ ...تو ان کا جواب ہمیشہ ...نا ...
اور... نہیں...میں ہی ہو گا . یوںایسا سنتے ہی کافی دکھ ہوتا ہے کیونکہ
بچوں کی پرورش میں والدین کا کردار بنیادی اورنہایت اہم ہوتا ہے ...والدین
کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر کھانا ہی کھا لیں
...تو ایسے میں کیو ں نہ بچوں میں کرداری مسائل پیدا ہوں ؟..بات یہاں ہی
ختم نہیں ہو جا تی بلکہ اس سے کئی طرح کے ازدواجی اور گھریلو مسائل پیدا ہو
جاتے ہیں جو کہ پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں اور پھر یہ آگے چل کر سارے
معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں .
ماہرین نفسیات نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے یہ ثابت کیا ہے کہ والدین
(دونوں میاں اور بیوی ) کا بچوں کی تربیت اور شخصیت کی نشوونما پر بڑا گہرا
اثر پڑتا ہے ... ان کا آپس میں تعلق کیسا ہے؟ ...کیا ہر وقت جھگڑتے رهتے
ہیں یا پھر پیار اور محبت سے پیش آتے ہیں ؟... بچوں کو کتنا وقت دیتے
ہیں... دن بھر آفس میں کام کرنے کے بعد گھر میں بھی ٹیلی ویژن دیکھنے ،
موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر ایس ایم ایس کرنے یا واٹس ایپ ، فیس بک اور ٹویٹر
وغیرہ کے استعمال میں لگے رہتے ہیں ؟..بچوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہے ...
بچوں پر زیادہ سختی کرتے ہیں یا نرم مزاجی سے پیش آتے ہیں ؟ ...مشہور ماہر
نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے مطابق بچپن کے ابتدائی پانچ سال بہت زیادہ اہمیت کے
حامل ہوتے ہیں کیونکہ انسان کی شخصیت کی بیشتر نشوونما تقریبًا اسی حصے میں
ہوتی ہے اور انسان بچپن کے ان ابتدائی سالوں میں جتنی تیزی سے سیکھتا ہے
شاید باقی عمر میں اتنی رفتار سے نہیں سیکھ پاتا .
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو ماحول میں سب سے پہلے اس کا واسطہ اپنے والدین
اور قریبی رشتہ داروں سے پڑتا ہے اور پھر معاشرے کے دوسرے انسانوں سے ....
یوں انسان ان کی طرح کا رویہ اپنانے کی کوشش کرتا ہے ، رسم و رواج سیکھتا
ہے، اچھائی اور برائی کے بارے میں جانتا ہے . اگر عمر کے اس حصہ میں انسان
کی تربیت میں کوئی کمی رہ جائے تو شخصیت میں توازن نہیں رہتا اور انسان کئی
طرح کے نفسیاتی ، کرداری اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے . اسی لیے ایک
اور ماہر نفسیات جے –بی واٹسن نے کہا تھا کہ اگر آپ مجھے چند بچے دے دیے
جائیں تو میں اپنی تربیت سے انھیں ڈاکٹر ، انجینئر، سیاستدان ،ادیب ،شاعر ،
چور ، ڈاکو یا جو آپ کہیں بنا دوں گا چاہے ان کا کوئی بھی پس منظر ہو یا وہ
کسی بھی نسب سے تعلق رکھتے ہوں .اسی طرح ایک ماں اپنے دو سال کے بچے کو
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈکے پاس لے کر آئی اور کہا "کہ اسے شاہکار بنا دو "
سگمنڈ فرائڈنے کہا " کہ تم نے دیر کردی ہے " اس ماں نے سوچا کہ شائد اس نے
دو سال دیر کر دی ہے ؟ اس پر سگمنڈ فرائڈنے کہا کہ نہیں "بلکہ اس بچے کے
پیدا ہونے سے پہلے تمہیں میرے پاس آنا چاہیے تھا تا کہ میں تمہیں شاہکار
(تربیت )بناتا تو یہ بچہ شاہکار بنتا ".
تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جو والدین یا افراد دن اور رات صرف
اپنی کاروباری یا دوسری مصروفیات میں ہی لگے رہتے ہیں اور اپنے بچوں یا
خاندان وا لوں کے لئے وقت نہیں نکالتے ان کے بچوں میں مندر جہ ذیل مسائل
پیدا ہو سکتے ہیں ...جیسا کہ پڑھائی میں کمزور ہونا، آپس میں پیار محبت نہ
ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑا کرنا، جھوٹ بولنا، عزت و احترم کا نہ کرنا،
منشیات کا استعمال ، جنسی تعلقات ، سماجی مہارتوں میں کمی اور دیگر کئی طرح
کی شخصی اور نفسیاتی مسائل کا پیدا ہو جانا شامل ہے . ہم سب ان مسائل کے
بارے روزانہ اخبارات میں پڑھتےہیں اور ٹی –وی پر بھی دیکھتے ہیں کہ فلاں
لڑکے نے قتل کر دیا ......فلاںلڑکی بھاگ گئی ...وہاں لڑائی جھگڑا ہو گیا
....میاں بیوی میں طلاق ہو گئی...کسی نو عمر نے خود کشی کر لی ...اور اس
طرح کے کئی واقعات ہوتے رهتے ہیں .ان سب باتوں کا تعلق بنیادی طور پر
والدین کا اپنے خاندان اور بچوں کو وقت نہ دینے سے ہےجوپھر نئی نسل میں
تباہی کی جڑ بنتی ہے .
چند اہم تجاویز
انہی مسائل اور باتوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ آپ کیلئے چند اہم تجاویز پیش کی
جا رہی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سےنا صرف بچوں کی تعلیم و تربیت کو بہتر
کیا جا سکتا ہے بلکہ ان میں پاے جانے والے کئی طرح کے مسائل کو بھی حل کیا
جا سکے گا .
1 - سب سے پہلے والدین (میاں اور بیوی ) کا آپس میں پیار اور محبت سے
بھرپور مضبوط رشتہ قائم ہونا چاہیے .کیونکہ اس سے وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح
سمجھ سکیں گےاور اسطرح یہ رشتہ ایک صحت مند گھرانےکی بنیاد بنے گا اور یوں
کئی طرح کے مسائل میں کمی واقع ہو گی .
2 – والدین بچوں کے سامنے کبھی بھی لڑائی جھگڑا نہ کریں. کیونکہ وہ ہر چیز
کو اچھی طرح سے نوٹ کرتے ہیں جس سے ان کی دماغی صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور
یوں ان کی شخصیت میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں .
3 -ابتداسے ہی بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں . انہیں اچھائی اور برائی میں
تمیز کرنا سیکھائیں . ان کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی
زور دیں تاکہ وہ بڑے ہو کرایک بہترین اور اچھے اخلاق کے مالک انسان بن سکیں
.
4 -اپنے بچوں کے ساتھ نا تو زیادہ سختی سے پیش آئیں اور نا ہی انھیں بہت
زیادہ آزادی دے دیں . بلکہ ان کے ساتھ میانہ روی اختیار کریں .اس طرح بچوں
کا نظریہ اپنے والدین کے بارے میں ہمیشہ مثبت ہی رہے گا .
5-بچوں کو کبھی بھی کسی اجنبی شخص یا غیر کے سامنے ڈانٹ پیٹ نہ کریں کیونکہ
اس سے بچے کی عزت نفس یا خود عزتی میں کمی واقع ہوتی ہے. اور بچوں کے دل
میں اپنے والدین کے لیے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے . بلکہ والدین کو چاہیے کہ
غلطی کی صورت میں بچے کو پاس بیٹھا کر آرام سے کہیں کہ آپ نے غلطی کی ہے آپ
کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اورساتھ ہی بچے کو کام کرنے کا صحیح طریقہ
بتائیں .
6 – اپنے بچوں کو کسی دوسرے شخص کے کہنے پر سزا یا بے عزتی نہ کریں بلکہ
معا ملہ کی باقاعدہ تحقیق کریں اور پھر سوچ سمجھ کر فیصلہ لیں .کیونکہ بے
وجہ سزا دینے اور بغیر سوچے سمجھے فیصلہ لینے سے خاندان تباہی کا شکار ہو
جاتا ہے اور پھر سے صرف غلط لوگوں کوہی فائدہ پہنچتا ہے.
7 -اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں سےضرور کچھ وقت نکال کر اپنے بچوں کے ساتھ
گزاریں اور ان سے زندگی کے روزمرہ کے معمولات ، مسائل اور تعلیم وغیرہ کے
بارے میں بات چیت کریں .اس طرح بچوں کے حالات جاننے کے ساتھ ساتھ ان کی
تعلیمی کاکردگی کا علم بھی ہو جائے گا .
8 -بچوں میں سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے غلط اور بے دریغ استعمال کی روک
تھام کیلئے اقدامات کریں کہ وہ پڑھائی کرنے اور کھانا کھانے کے اوقات میں
انکے استعمال سےبالکل پرہیز کریں اور مزید انہیں اس سے ہونے والے طبی اور
نفسیاتی نقصانات کے بارے میں بھی آگاہ کریں .
9 -بچوں کی تعلیم و تربیت میں مثبت تقویت اور منفی تقویت کو فروغ دیں جیسے
کہ اگر بچہ اچھے گریڈ لیتا ہے یا پھر اچھا کردار ظاہر کرتا ہے تو اسے انعام
سے نوازیں یا شاباش دیں اور اگر بچے کی کارگردگی اچھی نہ آ رہی ہو یا برا
رویہ اختیار کرے تو اس کو ملنے والی مراعات میں سے چند ایک کو وقتی طور پر
لے لیں . اس طرح بچے کوبھی یہ اندازہ ہو جائے گا اسے کون سی چیز کرنی چاہیے
اور کون سی نہیں .
10 -ہفتہ میں ایک دن یا پھر کسی چھٹی والے دن اپنے خاندان والوں کے ساتھ
کہیں سیر و تفریح کرنے یا پھر کھانا کھانے جائیں اور اگر کسی وجہ سے ایسا
نہیں کر سکتے تو اپنے گھر میں ہی کبھی کبھی پارٹی والا سماں پیدا کر لیا
کریں . کیونکہ ایسا کرنے سے والدین اور بچوں کے درمیان ایک دوستانہ رشتہ
قائم ہو تا ہے جو رشتوں میں پیدا ہونے والی خلیج کو کم کرنے میں فائدہ مند
ثابت ہو گا .
11 -جب بچے نو سال سے پندرہ یا سولہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان میں
پیدا ہونے والی جسمانی ،جنسی ، نفسیاتی اور سماجی تبدیلیوں اورانکے مسائل
کے بارے میں خود آگاہ کریں . بجاے اس کے کہ انھیں یہ سب معلومات کسی غیر
اور غلط ذرائع سے حاصل ہوں ... یوں وہ برائی کے راستے پر چل نکلیں اور
حقیقت سے دور ہو جائیں.
12 -پیچیدہ مسائل کی صورت میں (مثلا جن مسائل کا حل آپ کے پاس نا ہو ) کسی
اچھے ڈاکٹر یا کلینکل سائیکالوجسٹ(ماہر نفسیات) سے رجوع کریں . کیونکہ
مسائل کو زیادہ طول دینے سے وہ اور زیادہ خرابی کا باعث بنتے ہیں .
اگر ہم اسلامک نکتہ نظر سے بات کریں تو بھی اسلام ہمیں بچوں کےساتھ حسن
سلوک اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت پر خاصا زوردینے کا حکم
دیتا ہے . اسی طرح ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ " تم میں سے ہر ایک
نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا
.اور وہ آدمی جو اپنے گھر والوں پر نگران ہے تو اس سے اس بارے میں پوچھا
جائے گا اور بیوی اپنے شوہر اور اس کی اولاد پر نگران ہے تو اس سے ان کے
بارے میں پوچھا جائے گا ".
ذرا سوچئے ...!کیا یہ سب باتیں صرف کہنے اور سننے کی حد تک ہیں ؟....نہیں
....بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کےلیے ایک فرض کی طرح ہے اور والدین
کو یہ چاہیے کہ اپنا فریضہ پوری لگن اور ایمانداری سے ادا کریں . ....اگر
والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد اپنی زندگی ان کیلئےوقف کر یں ، انکے تا
بع و فرمانبردار ہوں اور پڑھ لکھ کر ایک اچھا شہری بھی بن سکیں ...تو آئیں
اور قدم بڑھائیں ....آج انھیں اپنا وقت دیں کل وہ اپناوقت آپ کو دیں گے .
...!!
|