کوئی بھی انسان اپنی رائے کا سو فیصد صحیح اظہار اسی زبان
میں کر سکتا ہےجس میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں آسانی ہو۔ اور تسلی
محسوس کرے کہ ما فی الضمیر شرح صدر کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اس لئیے میں
اپنا موقف وضاحت کے ساتھ اردو میں بیان کر رہا ہوں۔ یہ نہ تو کسی ایک بھائی
کے لئیے مخصوص ہےاور نہ ہی کسی بھائی کا جواب الجواب ہے۔ بحث و مباحثہ سے
بزرگ منع کرتے ہیں کیونکہ اس میں ذاتی انا شامل ہو جاتی ہےجو تلخی کو جنم
دیتی ہے۔ افہام و تفہیم کے جذبہ سے تبادلۂ خیالات بہت مثبت عمل ہے۔ اس سے
خیر پھیلتی ہے۔ باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات چیت ہر حال میں
مفید ہوتی ہے۔ اور حسن اخلاق اسلام کی خوبصورتی ہے۔
ڈاکٹر شریف صاحب کے ویڈیو شئیر کرنے کے بعد خیال آیا کہ میں اپنے موقف کی
وضاحت کر دوں۔میرا موقف یہ ہے کہ چینی مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔ اور میری
یہ رائے زمینی حقائق پہ مبنی ہے۔ افغانستان سے روسی فوج جب شکست کے بعد
جاچکی اور روس کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ تو امریکہ کے تین سرکردہ افراد
اٹارنی جنرل آف امریکہ، ڈپٹی کمانڈرآف امریکن آرمی اور صدر امریکہ سے تین
مختلف افراد نے تین مختلف اوقات میں ایک ہی سوال پوچھا۔ سوال تھا کہ روس
ختم ہو چکا ہے۔ اب نیٹو کی کیا ضرورت ہے۔ تینوں سرکردہ امریکن شخصیات کا
ایک ہی جواب تھا کہ ابھی اسلام باقی ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ چینی
مسلمانوں کو دہشت گرد اسی ایجنڈے کے تحت کہا جارہا ہے۔
تقریباً پچھلے پچاس سال سے جماعتیں چین جا رہی ہیں۔ وہاں جماعتیں کن مشکلات
سے کام کرتی ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے۔ جماعتیں کئی کئی ماہ وہاں گزار کرآکر
بتاتی ہیں کہ چینی مسلمان بہت پرامن سیدھے سادے مسلمان ہیں۔ کئی عشروں سے
کشمیر کی طرح مسلمانوں کی اکثریت کم کرنے کے لئیے غیر مسلم چینی بزور طاقت
وہاں بسائے جارہے ہیں۔ اسلامی عبادات کی ادائیگی قانونا ً اور جبرا ً منع
کر دی گئی ہیں۔ میں دو بار چین جا چکا ہوں۔ میری رائے میڈیا رپورٹس پہ قائم
نہیں ہے۔ زمینی حقائق پہ مبنی ہے۔ میڈیا پہ میں اعتبار بھی نہیں کرتا
کیونکہ میڈیا کہتا ہے کہ صدام حسین کے پاس نیوکلیر ہتھیار ہیں۔ فلسطینی
مسلمان دہشتگرد ہیں۔ کشمیری مجاہدین دہشت گرد ہیں۔ دختر اسلام بہن عافیہ
صدیقی دہشت گرد ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک دہشت گرد ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور میں
کھلی آنکھ کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ افغانستان، عراق، سیریا (شام) ، لیبیا،
صومالیہ، برما ، فلسطین اورکشمیر میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
زمینی حقائق کو جانتے اور اچھی طرح سمجھتے ہوئے میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ
چینی مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بہت پر امن لوگ ہیں۔ ان پہ مظالم بین
الاقوامی ایجنڈے کے تحت ڈھائے جا رہے ہیں۔ مزہبی شعائر پہ پابندیاں بھی اسی
ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ اور میڈیا میں ان کے بارے دہشت گرد کی گردان بھی ایجنڈے
میں شامل ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا پہ انحصار کر کے ہمیں اپنی رائے
قائم نہیں کرنی چاہئیے۔ زمینی حقائق مدِنظر رکھ کر ہمیں سوچنا چاہئیے۔ یہ
ایک بہترین اور عقل مندی کے قریب تر عمل ہے۔ میڈیا سفید کو سیاہ اور سیاہ
کو سفیدچند سیکنڈ میں ثابت کر دیتا ہے۔
اسلام ایک ہی اسلام ہے جو نبی اکرم ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اور اسی دین اسلام پہ
سو فیصد عمل کرنے ہی میں دونوں جہاں کی کامیابی کا وعدہ ہے۔ میڈیا ہی نے
ایک نیا دین ایجاد کر لیا ہے۔
اور میڈیا پہ بیٹھے سیکولر حضرات اس کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ واضع رہے کہ
دین اسلام صرف نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰتہ کا نام نہیں ہے۔ دین اسلام اللہ
تعالی ٰ کا بنایا ہوا اور نبی اکرمﷺ کا بتایا ہوا اپنا معاشی نظام ہے۔ نظام
ِعدل ہے۔ نظام ِتجارت ہے۔ نظام ِتعلیم ہے۔ سٹیٹ اور رعایا کے حقوق کا نظام
ہے۔ نظام ِمعاشرت ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی اور عملی رہبری موجود
ہے۔ اسی لئیے مسلمان دین اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کہتے ہیں۔ جس کا بدل بنی
نوح انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اور یہی اہل کفار کی اسلام کے ساتھ دشمنی
کا سبب ہے اور یہی سیکولر لوگوں کے لئیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ اسی سسٹم کے
مدعی مسلمان کا نام بنیاد پرست رکھ دیا گیا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر
دنیا میں کہیں بھی نظام ِ اسلام نافذ ہو گیا تو ہماری بنائی ہوئی عمارت (کیپیٹل
ازم ) زمین بوس ہو جائیگی۔ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ جہاں کہیں سمجھتے ہیں کہ
فلاں ملک یا فلاں علاقہ کے مسلمان اسلامی نظام نافذ کر سکتے ہیں۔ یا نظام ِاسلام
کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر
فوج کشی کر دی جاتی ہے۔
اب یہی سب کچھ انڈیا میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ وہاں کا میڈیا پہلے ہندوستان
کے مسلمان کو دہشت گرد ڈکلئیر کرے گا اور پھرقتل وغارت۔ سابق انڈین چیف
جسٹس کی ویڈیو ایک بار پھر سماعت فرمائیں۔ بات بہت واضع ہے۔ میرا اندازہ ہے
کہ باری باری ہر اسلامی ملک متاثر ہوگا۔ اللہ تعالی ٰ حفاظت فرمائے۔ آمین
واٹس ایپ گروپ میں بیجھی گئ ایک وڈیو کا جواب |