ڈاکٹر شاہد مسعود کا جرم

 نئی حکومت سے جو تواقعات عوام کی ہے وہ آج بھی ویسے ہی ہے جس طرح الیکشن سے پہلے تھی البتہ اب اس میں تھوڑی کمی ضرور آئی ہے کہ مخالفین کا پرو پیگنڈا اور خود حکومت کے اقدامات نے عوام کو اور پی ٹی آئی ووٹرز کو پریشان رکھا ہے کہ شاید حکومت ناکام ہوگئی ۔

پاکستان کی زمینی حقا ئق جاننے والے جانتے ہیں کہ یہا ں کیا کیا خرابی ہے ۔ اداروں سمیت پورا معاشرہ تقریباً کرپٹ ہوچکا ہے ۔ ہربندہ اپنے فائدہ کا سوچتا اور کرتا ہے۔ کئی عشروں پر محیط اس نظام کو اتنی آسانی سے نہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کرپٹ نظام سے فائدحاصل کرنے والے آسانی سے ہار ماننے کو تیار ہے ۔ ہر جگہ مافیا سرگرم ہے ۔ حکومت کی غلطیاں یا سستی روی اپنی جگہ لیکن عوام کے عدالت میں ان کے خلاف ہر جگہ خاص کر میڈ یا میں بھر پور پروپیگنڈا جاری ہے کہ اب تک ان پانچ مہینوں میں عمران خان اور ان کی حکومت نے دودھ کی نہر یں کیوں جاری نہیں کی ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ پانچ مہینوں میں تو وزارتوں اور سسٹم کی خرابی کی تشخیض بھی مشکل کام ہوتاہے لیکن حکومت کے مخالفین سمیت بعض نادان دوست بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ عمران خان نے 22سال پہلے سیاست شروع کی تھی ۔ ان کو ہوم ورک کرنا چاہیے تھا کہ جب اقتدار میں آئے تو دوسرے دن حالات تبدیل ہوچکے ہوں۔ عملی سیاست کرنے والے اور سرکاری ادارے تب کام یا عمل شروع کرتے ہیں جب ان کو اختیارات مل جائے ۔ الیکشن سے پہلے کوئی بھی پارٹی حکومتی نظام کو اپنے ماتحت نہیں کرسکتی اور نہ ہی حکومتوں اداروں میں خرابی کا پتہ ہوتا ہے کہ خرابی کہاں کہاں ہے اور اس کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ بعض بڑی بڑی فیصلوں کرنے کے سوا حکومت کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی کہ وہ نظام کویک دم سے ٹھیک کریں ۔وہ نظام جس کو کرپشن کیلئے جان بوجھ کر خراب کیا گیا ہو۔ بعض تجزیہ کاروں کی سوچ یہ ہے کہ عمران خان کے پاس ٹیم نہیں انہوں نے ابھی تک سرکاری آفسروں کو بھی فارغ نہیں کیا ۔ اگر عمران خان شروع دن سے ایسا کرتے تو ہمارے یہ تجزیہ کار کہتے کہ ان سرکاری ملازمین کو موقع دینا چاہیے تھا ۔ ان کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا ہے اسلئے ان افسران نے آزاد ماحول میں کرپشن کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ سوال یہ ہے کہ ایماندار اور ایکسپرٹ لوگ وزیر اعظم کہاں سے لائے ۔جب نظام بہتر ہوگا تو تمام لوگ درست کام کریں گے ۔ کرپشن اور لوٹ مار بند ہوگی جس کیلئے ابھی تک ہمارا معاشرہ تیار نہیں ۔ ہمیں خود بدلنا پڑے گا۔ حق کو حق کہنا ہوگا۔
 
عمران خان کے پاس جو ٹیم ہے وہ اسی ملک کے ایم پی ایز اور ایم این ایز پر مشتمل ہے۔ ان وزراء اور افسران نے ہی نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔ جوٹھیک کام کریں گا وہ رہے گا جو ٹھیک کام نہیں کریں گا وہ گھر جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی سوچ اور فکر یہی ہے کہ ملک کے اقتصادی حالت سمیت ملک کے نظام کو میرٹ پر لانا ہے جو ایسے معاشرے میں جہاں پانچ ہزار روپے کے ذاتی فائدے کیلئے دوسرے کو ہم پچاس ہزار نقصان دیتے ہیں وہاں وز یر اعظم عمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ اس ملک کو بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کر رہاہے جس کو ناکام بنانے کیلئے ان کے مخالفین مختلف حربے استعما ل کررہے ہیں ۔ کرپٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ ہر جگہ ان کے لوگ موجود ہے جو نظام کو بہتر کرنے میں ناصرف رکاوٹ ڈال رہے ہیں بلکہ ان مافیاز کے خلاف بولنے والوں کو بھی مختلف طریقوں سے تنگ کررہے ہیں تاکہ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے چند لوگوں کے منہ بھی بند ہوجائے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کا جرم بھی یہی ہے کہ وہ اپنے پروگرامز میں کرپشن اور لوٹ مارکرنے والے مافیاز کے خلاف بات کرتا تھا ۔ آج ان کو اس لئے جیل میں بند رکھا ہے تاکہ دوسروں کیلئے سبق بنے ۔ ڈاکٹر شاہد پر آج تک کوئی جرم یا کرپشن ثابت نہیں ہوئی ہے جس کاغذ پر انہوں نے دستخط کیے تھے وہ پی ٹی وی کے لیگل ڈیپارٹمنٹ سے منظور ہوچکا تھا ۔ بطور ایم ڈی پی ٹی وی انہوں نے صرف دستخط کیے تھے ۔ان کا جرم آج تک ثابت نہیں ہوا لیکن گزشتہ دو ماہ سے وہ جیل میں بند ہے اور ان کو عدالت میں ہتھکڑیاں لگا کر دوسرے مجرموں کے ساتھ باندھ کر پیش کیا جاتا ہے ۔ ہائی کورٹ سے کھر بوں کی کرپشن کرکے مجرموں یعنی نواز شریف وغیرہ کو تو ضمانت مل جاتی ہے لیکن دو کروڑ کے بل پر دستخط کرنے والے ڈاکٹر شاہد کی ضمانت ہر بار منسوخ ہوجاتی ہے جس کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ ڈاکٹر شاہد سمیت ان تمام میڈیا ورکرز اور آزاد صحافیوں کو سبق دیا جائے کہ آئندہ اپ کی بھی باری آسکتی ہے اگر اپ لوگوں نے کرپشن کے خلاف بولنا بند نہیں کیا ۔ عمران خان کو بھی اس میں سبق دیا جارہاہے کہ اپ کے دوست ڈاکٹر شاہد کو دوماہ سے بند رکھا ہے لیکن آپ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے کیوں کہ سسٹم کرپٹ ہے ۔ مافیا ایک دوسرے کو بچانے میں لگا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو شاہداس بارے میں پوری معلومات بھی نہ دی گئی ہو کہ ڈاکٹر شاہد کی ضمانت کیوں نہیں ہورہی ہے۔ ڈاکٹر شاہد کاجرم اصل میں یہی ہے کہ انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن پر مسلسل پروگرامز کیے ۔ ان سمیت کرپٹ مافیا کو بے نقاب کرتا رہاہے ۔ اسلئے آج وہ جیل میں بند ہے لیکن افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ہماری صحافتی تنظیموں نے بھی ڈاکٹرصاحب کے ساتھ زیادتی پر منہ بند رکھا ہے ۔ کسی جگہ بھی ان کے لئے احتجاج نہیں ہوا کہ آخر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہو رہاہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج ہمارے ان صحافی تنظیموں جن میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے حمایت یافتوں لوگوں کا اثررسوخ ہے ۔ یہ تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی ہے تا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو سبق ملے ۔ ڈاکٹر شاہد کے تجز یوں سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن آج تک زیادہ تر انہوں سچ اور حق کا ساتھ دیا ہے ۔ میڈیا تنظیموں کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے اور وزیراعظم عمران خان کو بھی حقائق معلوم کرنے چاہیے کہ آخر ڈاکٹر شاہد مسعود کو کیوں دو ماہ سے جیل میں بند رکھا کیا ہے جس پر آج تک کوئی جرم ثابت ہوا ہے اور نہ ہی ان کو ضمانت مل رہی ہے جبکہ کھر بو ں کی کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے سیاست دانوں سمیت آفسران آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں ۔ اس طرح کے اقدامات سے ریاست کی ناکامی نظر آتی ہے اور عام لوگوں کا بھی بھروسہ عدالتوں سے اٹھ جاتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو آج تک متعلق ادارے ان پر ثابت کیوں نہ کر سکے ؟ آزاد ٹرائل تمام شہر یوں کا بنیادی حق ہے۔ ڈاکٹر شاہد کے ساتھ مجرموں والا سلوک بند ہونا چاہیے ۔ورنہ حق کو حق کہنے والے ختم ہوجائیں گے اور ظلم وجبر کرنے والو ں کا راج ہوجائے گا ۔ جہاں جس کی لاٹی اس کی بھینس والا قصہ ہوگا جو نہ صرف حکومت کیلئے نقصان دے بات ہے بلکہ یہ ریاست کی ناکامی تصورہوتی ہے ۔ امید ہے کہ اﷲ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کو ضمانت بھی مل جائے گی اور ان پر جھوٹا کیس بھی ختم ہوجائے گا لیکن حق اور سچ کا جو سفر انہوں نے شروع کیا تھا وہ ختم نہیں ہوگا بلکہ مافیا کے خلاف ان کا اعلان جنگ مزید تیز ہوگا۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203008 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More