اور بالآخر مولانا فضل الرحمان اسمبلی سے باہر رہتے ہوئے
بھی اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گئے۔گو کہ مولانا فضل
الرحمان قومی اسمبلی کا الیکشن بڑے عرصے بعد ہاارے اور انہیں کشمیر کمیٹی
کی چیئرمین شپ بھی نہیں ملی لیکن وہ عمران خان کے خلاف متحرک نظر آتے
ہیں۔الیکشن ہارنے کے بعد انہوں نے الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا
،اسوقت جماعتوں کو متحد کرنے کا اعلان کیا لیکن دوسروں کو متحد کرتے کرتے
متحدہ مجلس عمل بھی توڑ بیٹھے ۔اب پھر ان کی ایک کوشش کامیاب ہوئی۔آصف
زردار ی اور شہباز شریف کی ملاقات کے بعد اپوزیشن متحد نظر آئی اورقومی
اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے فوجی عدالتوں سمیت تمام معاملات میں مشترکہ
حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کر
دیا ہے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہر معاملے پر مشترکہ
حکمت عملی اپنائی جائے گی جبکہ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ اپوزیشن
جماعتوں کا اتحاد ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف
کے چیمبر میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین
بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن رہنماؤں
نے شرکت کی۔ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا
فیصلہ کر لیا ہے اور ذیلی کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کے ناموں
کا جلد اعلان کیا جائے گا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو چور کہا
جاتا ہے اور ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ دہرائے بھی نہیں جاتے، ملک
کے معاشی حالات ابتر ہیں اور بیرون ملک سے سرمایہ کار بھی پاکستان آنے کو
تیار نہیں ہیں۔ آج کے اجلاس میں تمام امور پر بات چیت ہوئی ہے اور آج طے
پایا ہے کہ معاشی معاملات ہوں یا میڈیا کی آزادی، ہر معاملے پر اپوزیشن
مشترکہ حکمت عملی اپنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
بھی کیا گیا ہے جس میں تمام اپوزیشن کی نمائندگی ہو گی۔اجلاس کے بعد ایک
صحافی نے آصف علی زرداری سے سوال کیا کہ کیا اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہو
سکتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اتحاد ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مشترکہ کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق ہوا ہے جو
مشترکہ لائحہ عمل کیلئے تجاویز مرتب کرے گی، حکومت انسانی اور جمہوری حقوق
پر حملہ کر رہی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔وزیراعظم کے معاون
خصوصی برائے سیاسی امور نعیم الحق نے اپوزیشن کے اجلاس پر ردعمل دیتے ہوئے
کہا ہے کہ سابق حکمرانوں کا قانون ختم، اب قانون کی حکمرانی ہو گی، چور اور
لیٹرے متحد ہو گئے، ان سے ایک ساتھ ہی نمٹیں گے۔پاکستان کو لوٹنے والا ٹولہ
اکٹھا ہو گیا ہے، اگر ان کا سمجھوتہ ہو گیا تو بڑی خوش آئند بات ہے۔ ہم
چوروں اور ڈاکوؤں کے اس گروہ سے ایک ساتھ ہی نمٹیں گے۔ ان کے اکٹھے ہونے سے
ہمارے لیے مزید آسانیاں ہو جائیں گی۔ شریف اور زرداری خاندان کا زوال شروع
ہو چکا ہے۔ انہوں نے قوم کی دولت کو بے دردی کیساتھ لوٹا، قوم کی لوٹی دولت
کا ان کو جواب دینا پڑے گا۔ سابق حکمرانوں کا قانون ختم، اب ملک میں قانون
کی حکمرانی ہوگی۔ چور اور لیٹرے متحد ہو گئے ہیں، ان کے اکٹھے ہو جانے سے
ہمیں آسانی ہوگی، ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، نیب آزاد ادارہ،
حکومت کو جوابدہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت بی
این پی مینگل نے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کیلئے پہلا عملی قدم اٹھایا ہے۔
بی این مینگل نے سینیٹ نشست میں حمایت نہ ملنے اور دیگر مطالبات پورے نہ
ہونے پر حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں بی این پی
مینگل کے وفد نے منگل کے روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں
شرکت کی۔اس حوالے سے بی این پی مینگل کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت
نے ان کا ایک بھی مطالبہ پورا نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ان کے 6
نکاتی ایجنڈا میں سے ایک بھی ایجنڈا پر عمل نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں
بلوچستان نیشنل پارٹی کی کل 4 نشستیں ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اگر حکومتی
اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہے، تو ایسے میں حکومتی نمبرز 176 سے کم ہو
کر 172 تک آ جائیں گے۔ یوں حکومتی اراکین اور تمام اپوزیشن کی جماعتوں کے
کل نمبر برابر ہو جائیں گے۔فواد چودھری نے اپوزیشن کے اجلاس کو’’الائنس فار
ریسٹوریشن آف کرپشن‘‘قرار دے دیتے ہوئے کہا کہ جب ان سے حساب لیا جائے تو
فوری اٹھارویں ترامیم اور جمہوریت کو خطرہ ہو جاتا ہے۔ فوجی عدالتوں کا
فیصلہ غیر معمولی حالات میں کیا گیا تھا، اپوزیشن کو ہر معاملے کو کیسز ختم
کرنے کے لیے نہیں جوڑنا چاہیے، ایوان میں یہ لوگ ملکی مسائل پر بات نہیں
کرتے۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ہمیں اتحادی کیوں چھوڑیں گے؟ پی ٹی آئی
کے علاوہ کوئی چوائس نہیں، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے ہمارے اتحادی اور ساتھ
کھڑے ہیں۔ ہمارے ایم پی ایز کو چھوڑیں پیپلز پارٹی کو اپنے اراکین سنبھالنا
مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت علیحدہ ہونے نہیں ہمارے ساتھ جڑنے کو لوگ تیار
ہیں، اچھے وقت میں کوئی چھوڑ کر نہیں جاتا۔ اگر ہمارے ساتھ کوئی رابطے میں
نہیں تو ان کو گھبراہٹ کیسی ہے؟ زرداری صاحب اور اومنی گروپ کی بادشاہت ختم
ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کو دو ماہ کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن اس کی اب تک
کی کارکردگی سست روی کا شکار ہے، اس کیس میں تو سارے کاغذ بول رہے ہیں،
بینفشری بلاول ہاؤس کے مکین ہیں۔ حیران ہوں نیب نے ابھی تک آصف زرداری اور
فریال تالپور کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے
عددی برتری حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین توڑنے کا منصوبہ بنا
لیا جبکہ پلان اے کی ناکامی کے بعد پلان بی بھی عملدرآمد کرنے کا فیصلہ
کرلیا گیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے اہم رہنماؤں کو ٹاسک
سونپ دیا ہے۔تحریک انصاف نے عام انتخابات میں واضح کامیابی نہ ملنے پر میڈ
ٹرم الیکشن کرانے کا پلان بنایا تھا جو اس کی کارکردگی نے ناکام بنا دیا ہے
اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اب پلان بی پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس
حوالے سے پی ٹی آئی کی رہنما جہانگیر ترین کو زمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ
پنجاب سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ارکان اسمبلی کو توڑیں اور ان کو بتدریج
اسمبلیوں سے استعفے دلواکر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑوایا جائے۔چند
ارکان اسمبلی کو تحریک انصاف میں شمولیت پر ہر صورت میں دوبارہ منتخب کرانے
کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ وسطی اور شمالی پنجاب کے حوالے سے یہ ذمہ
داری فواد چوہدری اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے کو بھی
اس پلان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اب تک 5 ارکان اسمبلی
نے تحریک انصاف کے قائدین کو حامی بھر لی ہے ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے
والے ن لیگ کی 3 پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کا ایک اور ایم کیو ایم کا ایک
رکن شامل ہیں۔دوسری جانب ق لیگ کے دو اہم رہنماؤں کو جو کہ اہم عہدوں پر
فائز ہیں کو بھی بندے توڑو پلان کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جو پیپلزپارٹی اور
ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کو اپنی اپنی جماعتوں سے
استعفے دلواکر دوبارہ حکومتی پارٹی سے اسمبلیوں میں پہنچائیں گے۔ وزیراعظم
عمران خاں اپنی اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ سے بھی تنگ ہیں جس سے بچنے
کیلئے پلان بی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔چند روز قبل بنی گالا میں ہونے والی
تحریک انصاف اور اتحادی جماعت کے اہم رہنماؤں کی ملاقات میں وزیر اعظم کو
بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن کے چند ارکان اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے حکومت کی
حمایت کرنے پر تیار ہیں جس پر وزیراعظم نے انکار کردیا اس موقعہ پر پنجاب
کی اہم اتحادی جماعت نے وزیراعظم کو تجویز پیش کی کہ ان کو استعفے دلواکر
ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب کروایا جائے۔ ان کی اس تجویز
پر وزیراعظم نے گرین سگنل دیتے ہوئے اس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے اہم
رہنماوں کو ٹاسک سونپ دیا۔ |