ہر طرف نظام سے شکایت کرتی زبانیں اور سنتے کان موجود
ہیں لیکن کردار ادا کرنا کوئی نہیں چاہتا۔ پاکستان میں تیسری نسل بھی جواں
ہو چکی ہے لیکن ملک کا مستقبل ابھی تک اندھیر نگری چوپٹ راج دکھائی دیتا ہے۔
یہاں ہر شخص استحقاق کی جنگ لڑ رہاہے ۔ سب سمجھتے ہیں کہ ہمارا استحصال ہو
رہا ہے۔ اسی کشمکش کی وجہ سے ملک سے برداشت ،تحمل اور بردباری اپنے تمام
اجزاء سمیت کہیں دور جا چکے ہیں اور اب یہ معاشرہ مہذب نہیں مغرب زدہ ہو
چکا ہے۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں
۔ نئی نسلوں نے اپنے اسلاف کی وراثت چھوڑ کر اغیار کے دامن میں پنپنا شروع
کر دیا ہے لیکن نہ تو یہ نسل اس معاشرے کو اپنا سکی اور نہ ہی اپنے اسلاف
کی تہذیب کا شعور حاصل کر سکی ۔
ملک میں موجودہ جمہوری نظام کا ہر طبقہ اپنے اپنے دائرہ کار میں مخالف سمت
میں بہہ رہاہے ۔ایک طبقہ تو بالکل ہی اس کی مخالفت کرتا ہے، ایک طبقہ کہتا
ہے یہ جمہوریت کے نام پر آمریت ہے، ایک طبقہ اسے کمیونزم اور لبرل ازم کا
نام دیتا ہے ، چھوٹا طبقہ تو ہمیشہ حکمرانوں سے نا راض رہا ہے لیکن اس نے
یہ کبھی کوشش نہیں کی کہ ہمیں اپنی حالت بدلنے کیلئے محنت کرنی ہے۔ محنت کش
طبقہ کسی کے بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتا بس وہ یہ جانتا ہے کہ محنت میں
عظمت ہے۔ اس ایک طبقے کے حوصلے اور مستقل مزاجی کی وجہ سے سبھی معاشرے قائم
ہیں لیکن اگر مختصراََ یہی کہوں گا کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ پورے ملک
میں ہر شخص کی زبان پر شکوہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہونا
چاہئے تھا لیکن ہمیں برطانوی قوانین کا پابند کیا گیا ہے ۔ مگر جب انہیں
اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے اور ریاست کے ساتھ تعاون کرنے کا کہا
جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ایسا بھی ہم کونسا اسلام پر عمل کر رہے ہیں جو ہم
پر اتنا بوجھ ڈال دیا ہے۔ ان کے دلوں پر مہریں ثبت ہو چکی ہیں اور سب کے سب
شیطان کے بہکاوے میں ہیں ۔
آج تک پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں چاہے وہ آمری تھیں یا جمہوری سب
نظام بدلنے کی دعویدار تھیں لیکن ایسا کوئی نہیں کرپایا کیونکہ ملک میں
حکومت ملنے کے بعد ذاتی مفادات سے بڑھ کر نہ تو کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی
کوئی کرنا چاہتا ہے ۔عمران خان بھی اسی کے دعویدار ہیں اور کافی حد تک اس
کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں ۔سب سے پہلے میں انہیں اس امر کیلئے مبارکباد
پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کی پہلی قسط اتنے دباؤ اور داخلی و
خارجی چیلنجز کے باوجود بلا قرض لئے جمع کروا دی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں
معاشی مسائل جوں کے توں ہیں اور عدم برداشت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اشیائے
خوردو نوش پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ سے جو امیروں سے پیسہ نکالنے کی سوچ
سوچی گئی تھی وہ ڈبل ہو کر غریبوں پر بم کی صورت گری ہے۔ اس ساری صورتحال
میں چاہے عمران خان نے اقداما ت اچھی سوچ میں اٹھائے ہیں لیکن ان کی
مقبولیت کا گراف نیچے آتا جا رہا ہے اور ان کی ساری تدبیریں تادیر نہیں چل
پا ر ہیں ۔ انہوں نے بہت سے اور بھی وعدے کئے لیکن ان وعدوں کو نبھانے
کیلئے سب سے پہلے حکومت معاشرت کو مضبوط کرے جو بلاشبہ معیشت کے ساتھ جڑی
ہوئی ہے۔
میری نظر میں سب سے پہلے عمران خان کو چاہئے کہ وہ ملک میں انتظامی معاملات
کو مضبوط کریں اور درست سمت میں چلائیں ۔ ملک میں کئی ایسے اضلاع ہیں جن کے
اخراجات زیادہ جبکہ ان کی آمدن بہت کم ہے ۔ خاص کر جنوبی پنجاب ، سندھ میں
حیدرآباد تھل کے علاوہ دیگر دیہی علاقے، خیبر پختونخواہ میں فاٹا اور دیگر
قبائل علاقہ جات ، ایجنسیز، بلوچستان تو سارا ہی بد انتظامی اور پسماندگی
کا شکار رہا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ عوام سے ٹیکس لیتی ہے تو
اس کی بنیادی ضروریات بھی پوری کرے ۔ اگر ریاست عوام کی بنیادی ضروریات تک
رسائی دینے میں ناکام ہو جائے تو بغاوتیں اور عدم برداشت کی صورتحال پیدا
ہو جاتی ہے۔عمرا ن خان نے پاکستان میں نظام بدلنے کی بات کی تھی کیونکہ وہ
بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں کمیونزم کا راج ہے جو سراسر نا انصافی اور
غلط ہے۔ عمران خان کے مخلصانہ رویے کی وجہ سے کافی بغض کرنے والے لوگ ان کی
کابینہ سے نکلتے جا رہے ہیں اور یہ ان کے لئے اچھا شگون ہے۔ لیکن اب انہیں
چاہئے کہ وہ ملک میں انتظامی معاملات پر غور کریں۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ
بنانے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخواہ، بلوچستان ، فاٹااور سندھ کے ان علاقوں
پر بھی توجہ دیں جو اکیسویں صدی میں بھی پتھر کا زمانہ جی رہے ہیں۔ نئے
صوبوں کا قیام عمل میں لائیں اسمبلیاں تحلیل کریں اور خلافتِ راشدہ جیسا
جمہوری نظام رائج کریں ۔ پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا
ہر معاشرہ مضبوط بنایا جائے۔ ہر شہر ، ہر تحصیل ، ہر ضلع خودمختار ہو جائے
اور اس طرح ترقی نیچے سے اوپر تک جاتے ہوئے خوشحالیاں بکھیر دے گی۔ ہمیں نہ
تو مغربی نظام کی ضرورت ہے نہ ہی کسی دوسرے تیسرے کی بلکہ خاص ہے ترکیب میں
قومِ رسولﷺ ہاشمی۔عمران خان کو جہدِ مسلسل میں اچھے اقدامات کرتے رہنا
چاہئیے اور عوام میں بہتری کی طرف شعور کو اجاگر کرنے کی کوششیں جاری رکھنی
چاہئیں۔
|