جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
آج صبح جب صدیق محترم مولانا محمد صدیق ندوی نے اس اندوہناک خبر صاعقہ اثر
کی اطلاع دی تو مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرے استاد
محترم، عالم اسلام کی بزرگ ترین علمی و روحانی شخصیت ، خانوادۂ مفکر اسلام
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے گُل ِسرسبد ، عربی زبان و ادب کے جری
شہسوار وماہر ترین نقاد ، صحافی و ادیب، متعدد عربی و اردو کتابوں کے بلند
پایہ مصنف ، ماہنامہ (الرائد) کے قابل فخر و مایہ ناز مدیر، مجلہ البعث
الاسلامی کے شریک ادارت، جنرل سکریٹری رابطہ ادب اسلامی،برصغیر کی نہایت ہی
ممتاز و بافیض دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیمات، بیدار
مغز، ہوش مند، مدبر و مفکر، عالم دین اور مرشد الأمت حضرت مولانا سید محمد
رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کے برادر خوردو خلیفۂ مجاز حضرت مولانا سید
محمد واضح رشید ندوی نے آج بروز بدھ مؤرخہ ۹ جمادی الأول ۱۴۴۰ھ ۱۶ جنوری
۲۰۱۹کو نمازفجر سے کچھ قبل اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی اور ہمیں داغ
مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون، ان ﷲ ما
اخذ ولہ ما اعطی و کل شء عندہ باجل مسمی۔
۱۹۹۵ء کا سال ہے ، اورمیں بہت خوش ہوں کہ میں عالم اسلام کی انتہائی بافیض
اورعظیم ترین دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلے کے اہلیتی
امتحان میں کامیاب ہوچکا ہوں، آخر خوشی کیونکر نہ ہوتی کہ داخلہ ندوۃ
العلماء میں ہوا ہے اور جن مؤقر ترین اساتذۂ ندوہ کا نام ندوہ پہنچنے سے
پہلے ہی سن رکھا تھا، اور جن کی محبت و عظمت میرے دل میں محبت و عظمت کے
شعور و ادراک سے پہلے ہی جاگزیں ہوچکی تھیں ، آج مجھے ان ہی محبوب ترین
شخصیات کی زیارت کرنے اور ان میں سے بعض کے سامنے زانوئے تلمذ طئے کرنے کی
سعادت نصیب ہونے جارہی تھی، مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ ،
حضرت مولانا ڈاکٹر عبداﷲ عباس ندویؒ، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی،
حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن آعظمی ندوی، حضرت مولانا سید محمدواضح رشید
حسنی ندوی وغیرھم۔ دارالعلوم میں تعلیم کا پہلا دن ہے، تفسیر و حدیث کے
ابتدائی دو گھنٹوں کے بعد تیسرا گھنٹہ ادب عربی کا ہے جو حضرت مولانا سید
محمدواضح رشید حسنی ندوی کے ذمہ ہے، جیسے ہی تیسرے گھنٹے کی گھنٹی بجی،
حضرت مولانا تشریف لے آئے،انتہائی سادہ، متواضع، مجسم شرافت ،آپ کی پُرنور
صورت، متواضع چال ڈھال اور متشرع وضع قطع کو دیکھتے ہی دل آپ کی طرف کھنچتا
چلا گیا، بہت ہی آہستہ اور دھیمی آواز میں کانوں میں رس گھولتے رہے اور
میرا دل حضرت کی محبت و عظمت سے بھرتا چلا گیا۔ اور آج تک بھی الحمدﷲ اس
عظمت و محبت میں کوئی فرق نہیں آپایا ۔
حضرت مولانا واضح رشید ندوی صاحب نہایت ہی خاموش طبع انسان تھے،باوجودیکہ
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عربی ا ور اردو دونوں ہی زبانوں پر یکساں قدرت و مہارت
تامہ عطا فرمائی تھی ، پھر بھی آپ کی زبان و قلم سے کبھی کسی کے خلاف ہرزہ
سرائی ،یا خامہ فرسائی اور تیز و تند لب و لہجہ میں کسی پر تبصرہ و تنقید
تو درکنار کوئی خفیف بات یا ہلکا سا جملہ بھی نہیں نکلا کرتا تھا۔ آپ
انتہائی سادہ،متواضع ، خلیق ، خاموش مزاج، کم گو ،کم آمیز،عابد وزاہد اور
متقی انسان تھے، لیکن نرے زاہد خشک بھی نہیں تھے کہ کبھی کسی سے خندہ
پیشانی سے پیش ہی نہ آئے، اﷲ تعالی نے آپ کو بے پناہ ملنسار طبیعت ، صلح
جوئی اور بے طمعی عطا فرمائی تھی، آپ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملا
کرتے تھے، جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا وہ تادم حیات آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم اسلام میں ایک
سے بڑھ کر ایک بزرگ، عالم دین ، خادم قوم و ملت ،مدبر و مفکر اور صاحب فکر
و نظر قلمکار، صحافی و ادیب ایسے ایسے موجود ہیں جوسب ہی ہمارے دلوں کے
سرور اور آنکھوں کے نور ہیں لیکن حضرت مولانا کی شخصیت ان تمام میں سب سے
نرالی، سب سے انوکھی اور اپنی مثال آپ تھی۔
عالم میں تم سے لاکھ سہی، تم مگر کہاں
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
حضرت مولانا کی ولادت اپنے آبائی وطن رائے بریلی میں حضرت سید رشید احمد
حسنی ؒ جیسی بے حد قابل احترام شخصیت کے گھرانے میں ہوئی، جو گھرانہ ہر
اعتبار سے’’ ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘کا مصداق تھا، جہاں ہمہ وقت اﷲ اﷲ اور
الااﷲ کی صدائے دل نواز کی بازگشت ہواکرتی تھی۔ آپ مفکر اسلام حضرت مولانا
سید ابوالحسن علی ندوی کے حقیقی بھانجے اور مرشد الأمت حضرت مولانا سید
محمد رابع حسنی ندوی کے خورد سال برادر حقیقی تھے، آپ کی والدہ ہمشیرۂ مفکر
اسلام محترمہ سیدہ امۃ العزیز صاحبہ نہایت ہی عابدہ و زاہدہ اورولی صفت
خاتون تھیں، مفکر اسلام ؒ نے اپنی شاہکار تصنیف پرانے چراغ میں تحریر
فرمایا ہے کہ’’ مرحومہ کا بیعت و اصلاح کا تعلق حضرت شیخ الحدیث مولانا
محمد زکریا صاحبؒ سہارنپور سے تھا، ان کے مشفقانہ خطوط جن میں کہیں کہیں
’’ہمشیرہ صاحبہ‘‘ سے خطاب ہے اکثر محفوظ ہیں‘‘۔
حضرت مولانا پر اﷲ تعالیٰ کا یہ عظیم انعام تھا کہ اس نے انہیں فاضل یگانہ
، نابغۂ عصر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابولحسن علی ندویؒ کی تربیت و صحبت
اور رہنمائی و رہبری نصیب فرمائی، چنانچہ آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے ماموں
جان مفکر اسلام ہی کے زیر نگرانی خاندانی مکتب مدرسہ الٰہیہ ، تکیہ
کلاں،رائے بریلی میں ہوئی، اس کے بعدآپ کو اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے عالم
اسلام میں علوم اسلامی اور تعلیم دین کے عظیم ترین مرکز دارالعلوم ندوۃ
العلماء میں داخل کیا گیا جہاں سے آپ نے ۱۹۵۱ء میں سند فراغت حاصل کی۔
حضرت مولانا نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اپنے دور طالبعلمی کے دوران جن
اساتذہ کرام کا جلوۂ جہاں آرا دیکھا اور جن کے سامنے زانوئے تلمذ طئے کیا
ان میں سرفہرست آپ کے ماموں جان مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابولحسن علی
ندوی، ؒ حضرت مولانا محمد ناظم ندوی، حضرت مولانا عبدالحفیظ بلیاوی نور اﷲ
مراقدہم جیسے ماہرین زبان و ادب اساطین علم تھے جنہوں نے آپ کے اندر عربی
زبان وادب کی محبت اور اس میں خامہ فرسائی کا ذوق پیدا کیا۔ آپ نے
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں علوم نبوی اور معارف و اسرار ربانی کے حصول اور
درسیات کی تحصیل ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے
بحر ذخّار میں بھی غوطہ زنی کی، چنانچہ آپ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے
فراغت کے بعد مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ سے انگریزی میں بی اے کیا۔
حضرت مولانا نے ندوہ میں تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ۱۹۵۳ ء سے ۱۹۷۳ء
تک تقریباً بیس سال آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بحیثیت مترجم و اناؤنسر خدمت
انجام دی۔ اس کے بعد سے مستقل تادم حیات تقریباً نصف صدی دارالعلوم ندوۃ
العلماء میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ عربی زبان و ادب میں آپ کی قدرت
ومہارت کے پیش نظر آپ کو دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کلیۃ اللغۃ العربیۃ و
آدابہا کا عمید (Dean of the Faculty of Arabic Language and
Literature)مقرر کیا گیا۔ ۲۰۰۶ء میں استاد محترم حضرت مولانا عبداﷲ عباس
ندوی نوراﷲ مرقدہ (سابق معتمد تعلیمات دارالعلوم ندوۃ العلماء ) کی وفات کے
بعد سے آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں معتمد تعلیمات کے نہایت ہی اہم ترین
اور ذمہ دارانہ منصب پر فائز تھے۔ آپ ندوۃ العلماء میں تدریسی خدمات کے
ساتھ ہی ساتھ مدرسہ فلاح المسلمین ، رائے بریلی کے ناظم اعلیٰ اور دارِ
عرفات ، تکیہ کلاں، رائے بریلی کے نائب صدر بھی تھے۔
اﷲ تعالی نے حضرت مولانا کو بڑا حسّاس دل دیا تھا، آل انڈیا ریڈیو دہلی میں
بحیثیت مترجم خدمات انجام دینے کے دوران آپ کو انگریزی زبان وادب اور اس کے
ذریعہ مغربی ممالک کی بلاد اسلامیہ سے متعلق مکروہ سیاست ، متعصبانہ ذہنیت
اور استعماری عزائم کو پڑہنے اور سمجھنے کا خوب موقعہ ملا جس نے آپ کے
اندرمغربی اورلادینی افکار پر گہری نظر اور وسعت فکرپیدا کردی، اور حالات
حاضرہ پر اس گہری نظر اور گرد وپیش سے اس مکمل آگہی نے آپ کو بے چین اور آپ
کے قلم گوہر بار کو مضطرب کردیا، چنانچہ آپ اپنے اس درد و کڑھن اور بے چینی
و اضطراب کو گذشتہ نصف صدی کے دوران تقریباً ہر ماہ الرائد اور البعث
الاسلامی کے اوراق پربکھیرتے رہے اور اپنے مخصوص انداز اور اسلوب نگارش میں
مغربی ممالک کو للکارتے اور بلاد اسلامیہ کو جھنجوڑتے رہے۔ اس کے علاوہ
حضرت مولانا نے عربی و اردو دونوں ہی زبانوں میں متعدد کتابیں بھی تصنیف
فرمائی ہے اور وہ تمام ہی تصانیف اس قدر مقبول ہوئیں کہ ہر کتاب کے تقریباً
متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ چند اردوکتابوں کا تذکرہ کردینا نامناسب نہیں
ہوگا:
۱۔ محسن انسانیت ﷺ: اس کتاب میں اسلام دشمن عناصر کی جانب سے اسلام اور
اسلامی تعلیمات کے خلاف پیدا کردہ اس غلط فہمی بلکہ الزام کہ اسلام اپنی
بہترین تعلیمات کی بنیاد پر نہیں بلکہ تلوار اور نیزہ کے زور پر پھیلا ہے
کا جواب انتہائی خوبصورت طریقہ سے حقائق کو واضح کرکے اور سیرت نبوی ﷺ کے
روشن و تابناک پہلوؤں کو اجاگر کرکے دیا گیا ہے ،اورسیرت طیبہ سے متعلق
پیدا شدہ غلط فہمیوں کو ختم کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی گئی ہے۔
۲۔ مسئلہ فلسطین ، سامراج اور عالم اسلام : اس کتابچے میں قضیۂ فلسطین کی
اہمیت و نوعیت، سامراجی ممالک کی اس میں دلچسپی کی وجوہات،یہودیوں کے اس سے
متعلق ناپاک عزائم، اسرائیل و عالم عرب کی اصل صورت حال جیسے بہت ہی اہم
اور حساس و نازک مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔
۳۔ سلطان ٹیپو شہید، ایک تاریخ ساز قائد شخصیت : اس کتاب میں سلطان ٹیپو
شہیدؒ کے حالاتِ زندگی ، ان کے طرزِ حکمرانی اور ملی و قومی قیادت اور
ناقابلِ فراموش کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۴۔ نظام تعلیم و تربیت ، اندیشے تقاضے اور حل : یہ کتاب دراصل تعلیم وتربیت
سے متعلق حضرت مولانا کے لکھے ہوئے مختلف مضامین پر مشتمل ہے جس میں آپ نے
پوری دیانت داری کے ساتھ قدیم و جدید دونوں ہی نظام تعلیم کے حسن و قبح کی
نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ انہیں مزید بہتر اور مفید بنانے کے مشورے بھی
دئیے ہے۔
حضرت مولانا کا شمار اس دور کے صف اول کے علماء میں ہوتا تھا،آپ کی وفات
پورے عالم اسلام کے لئے علم وادب کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، خصوصاً
دارالعلوم ندوۃ العلماء اور ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع
ندوی مدظلہ العالی کو جو صدمہ اور کرب آپ کی وفات سے پہنچا ہے اس کا خیال
آتے ہی دل مغموم ہوا جاتا ہے۔ دل سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ استاد محترم کو
اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، زلاّت کو حسنات سے مبدل فرمائے، ان کے
برادرِ بزرگ حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی مدظلہ العالی اور صاحبزادہ
حضرت مولانا سید جعفر حسنی ندوی اور تمام ہی پسماندگان و لواحقین کو صبر
جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ |