حکومتی رویے کو اپوزیشن کے متحد ہونے کا سبب قرار دیا
جارہا ہے، تاہم تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لیے اپوزیشن میں اتفاق
رائے پیدا ہونے میں کئی معاملات ہنوز باقی ہیں، اس لیے اپوزیشن کے متحد
ہونے کو تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ وزیراعظم پارلیمنٹ
میں غیر ملکی دوروں کی وجہ سے نہیں آرہے، یہ موقف راقم کا نہیں بلکہ حکمراں
جماعت کا ہے۔ اس وقت وزیراعظم خاص طور پر عرب ممالک کے دورے کررہے ہیں اور
ان مسلسل دوروں کی وجہ سے قرض مل رہے ہیں۔ گو اپوزیشن کا کہنا کچھ اور ہے
کہ قرضے ’’وزیراعظم کی وجہ سے‘‘ نہیں مل رہے۔ بہرحال جو بھی صورت حال ہو،
کم ازکم ہمیں ماننا چاہیے کہ جتنے بھی قرضے ملے اور ملنے کی امید ہے وہ ’’پاکستان‘‘
کو ہی مل رہے ہیں، لیکن یہ قرض کب اور کیسے اتریں گے، اس کا کوئی ٹائم فریم
نہیں۔
پارلیمنٹ میں وزیراعظم کا نہ آنا، اپوزیشن کے لیے مفید جب کہ حکومتی بینچوں
سے مخصوص وزراء کے بیانات میں لفظوں کا درست چناؤ نہ ہونے کا فائدہ بھی
اپوزیشن کو مل رہا ہے۔ اب اس پر حکومتی وزراء کو مشورہ دینا وقت کا ضیاع ہے
کہ وہ اپنی تقاریر و پارلیمان میں تلخ لہجوں اور غیر پارلیمانی لفظوں کے
استعمال میں احتیاط سے کام لیں، کیونکہ واقعتاً یہ محسوس ہونے لگا ہے، جیسے
مخصوص وزراء کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہو کہ وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی نہ
لائیں اور ایک ایشو کو دبانے کے لیے ایک نیا ایشو بناتے رہیں۔ میری ذاتی
رائے کے مطابق یہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کا نیا
وژن ہے، جس میں حکومتی وزراء اپوزیشن کے سخت رویے، بیرون ممالک کے ساتھ قرض
و سود کی تفصیلات و حکومتی منشور پر عمل درآمد بتانے سے گریز کی راہ اختیار
کررہے ہیں۔
عرب ممالک و چین نے پاکستان کی ہمیشہ مدد کی ہے، لیکن بقول وزیراعظم کوئی
کسی کو بغیر کسی وجہ کے قرضے نہیں دیتا، اس کی قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔
پاکستان کو قرض کی کیا قیمت ادا کرنا ہوگی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا،
لیکن آثار یہ بتارہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے قرض کے
حصول کا جو روٹ استعمال کیا ہے، اس کی کوئی منزل نہیں، ان قرضوں کی بڑی
بھاری قیمت، حکمرانوں کو نہیں بلکہ پاکستانی عوام کو ہی ادا کرنا ہوگی۔
بدقسمتی سے ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے موجودہ حکومت کے پاس کوئی معاشی
وژن نہیں۔ سعودی عرب اور قطر کی جانب سے سی پیک منصوبوں میں محدود سرمایہ
کاری معاشی مسئلے کا مستقل حل نہیں۔
وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے کردار پر سخت خفگی کا اظہار کیا،
لیکن سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو مملکت کے لیے زیادہ سے زیادہ
قرض لینے کا جو ٹاسک دیا گیا ہے، وہ اُسے پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں،
انہیں پارلیمنٹ میں حاضری سے زیادہ خزانے کی فکر ہے، کیونکہ خزانے میں کچھ
ہوگا تو وہ مطمئن ہوکر اپنے دیگر انتخابی منشور کی جانب متوجہ ہوسکیں گے۔
سی پیک منصوبہ معاشی مشکلات کے حل کے لیے وقت طلب ہے۔ ارباب اختیار کو سی
پیک پر ہی تکیہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بھارت سی پیک میں گوادر کا متبادل
چاہ بہار بندرگاہ کو بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ 26 فروری کو بھارت
ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کررہا ہے۔
بھارت ریلوے لائن منصوبہ کے ساتھ زاہدان لنک کو دالارام زرنج ہائی وے
(روٹ606) 136میل طویل دو رویہ سڑک پر کام کرچکا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اپنی
خارجہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے
لیے ایران کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت، افغانستان میں تبدیل ہوتی
صورت حال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے افغانستان
اور ایران میں بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں افغان
طالبان اور ایران کے تعلقات کشیدہ نہیں۔ خطے میں نئی تزویراتی تبدیلیوں کا
مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو کابل انتظامیہ اور افغان طالبان کے درمیان
مذاکرات کرانے کی سرخ بتی کے پیچھے لگادیا گیا جب کہ امریکا اور افغان
طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کرانے کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا
کرچکا ہے، اب کابل انتظامیہ سے بھی افغان طالبان کے مذاکرات کرانا دراصل
نیا دباؤ ہے۔
اپوزیشن کا یہ مطالبہ بالکل راست ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی تشکیل دے کر
وزیراعظم پارلیمان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے اعتماد میں لیں۔ عرب ممالک
سے قرضے ملنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن وزیراعظم کی خاموشی غیر
معمولی تحفظات کا باعث بن رہی ہے۔ اپوزیشن کے تمام سیاسی اختلافات اپنی جگہ،
کرپشن و احتساب کے معاملات بھی اپنی جگہ، سیاسی انتقام و نان ایشوز پر عوام
کو الجھانا بھی جداگانہ معاملہ، لیکن ریاست کو ملک میں پیدا ہونے والی بے
چینی و تحفظات کو دُور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بعد پی پی پی کی
قیادت بھی جیل میں جائے، ضمانتوں و مقدمات میں الجھے، سندھ حکومت کو بچانے
کے لیے منقسم ہوجائے تو پھر وزیراعظم پارلیمنٹ میں آئیں گے تو ذاتی رائے کے
مطابق یہ بڑی غیر دانش مندانہ سوچ ہوگی۔ وزیراعظم کو اس قسم کا مشورہ دینے
والے یقینی طور پر ان کے خیرخواہ نہیں، کیونکہ بظاہر ایسا ہی نظر آرہا ہے
کہ اپوزیشن و حکومت کے درمیان محاذ آرائی، شور شرابے اور الزامات کے ساتھ
تواتر کے ساتھ بائیکاٹ کی حکمت عملی کا سامنا کرنے سے وزیراعظم کو گریز کی
راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے کہ ’’جلد‘‘ ہی کچھ سیاسی رہنما
جیلوں میں ہوں گے، نااہل قرار پائیں گے اور پارلیمنٹ کا ماحول تبدیل ہوجائے
گا، جس کے بعد وزیراعظم پارلیمنٹ میں آئیں گے تو انہیں اپوزیشن کے سخت
ردّعمل کا سامنا نہیں ہوگا۔
حکومت چاہے ان افواہوں پر کان نہ دھرے، جو صورت حال بن رہی ہے وہ قیاس
آرائی یا دوسرے معنوں میں خوش فہمیوں پر مشتمل سمجھے، لیکن آنے والا وقت
پاکستان کے لیے جہاں بدترین معاشی حالات کی نشان دہی کررہا ہے، وہیں سیاسی
انتشار سمیت انتہائی بے یقینی صورت حال کے گہرے سیاہ بادل بھی نظر آرہے ہیں۔
عوام دل سے چاہتے ہیں کہ کرپٹ عناصر کا احتساب ہو، لیکن ان کی سب سے بڑی
خواہش یہ بھی ہے کہ ملکی اقتصادی صورت حال جلد از جلد بہتر ہو یا ایسا روٹ
تو نظر آئے جس سے امیدیں وابستہ کرلی جائیں۔
حکومتی وزراء معیشت کی جو بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں، اس سے عوام میں بددلی
پھیل رہی ہے۔ وزیراعظم عرب ممالک کے علاوہ مغربی ممالک کے دورے بھی کریں،
چاہے اُن سے امداد یا قرض نہ لیں، لیکن پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے
آسانیاں پیدا ہونے کے امکانات سے تباہ حال معیشت کی بحالی میں مدد مل سکتی
ہے۔ عرب ممالک کے دورے قرض و تعلقات کی بہتری کے حوالے سے کامیاب رہے ہیں،
پارلیمان میں باضابطہ معاہدوں کی تفصیلات منظرعام پر لاکر شکوک و شبہات کو
ختم کریں۔ عرب ممالک سے لیے گئے قرض کوئی قومی راز نہیں کہ عوام کو ان سے
آگاہ نہیں جاسکتا۔ کم ازکم اس سے عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی و
خلفشارکا خاتمہ ہوسکے گا۔ |