مسلم معا شرے میں آج انگنت برائیاں سرایت( پیوست) ہو گئی
ہیں، ایک دو ہوں تو گنایا جائے، دو چار دس ہوں تو اس کا رونا رویا جائے،
دین سے دوری وسماجی برائیاں شباب پر ہیں اﷲ خیر فر مائے……’’آمین‘‘ اہل علم
خاصکر علما کی ذ مہ داری بنتی ہے کہ برائیوں کے سد باب کے لیے اپنی قوت کے
مطابق کوشش جا ری رکھیں۔ دنیا میں اسلام کے ماننے والے کتنے ہیں؟ یہ بات
اہم نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہو گی مذہب کے ماننے والے لوگ،کیا اپنی مذہبی
کتاب قر آن مجید کے بتا ئے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں؟ کیا یہ اپنے پیغمبر ﷺ
کی تعلیمات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں؟ مذہب چاہے کوئی بھی ہو اس کے ماننے
وا لوں میں بنیادی کردار’’انسانیت‘‘ ہو نا چاہیے۔ اگر آدمی انسان نہیں بنتا
ہے تو معاشرہ جنگل میں بدل جاتا ہے۔ اگر لوگ من مانی کر نے لگیں گے تو مذ
ہب کے لا لے(دشوار ہو نا، مشکل ہو نا) پڑ جائیں گے۔ عبادت گاہیں تو کھلی
رہیں گی، روحانیت غائب ہو جائے گی، عبادت گا ہوں اور اس کے اطراف کا امن
وسکون بر باد ہو جائے گا قرآن کریم میں انسا نیت کی خد مت پر بہت زور دیا
گیا ہے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کر نے، مظلو موں کی مدد کر نے (خواہ وہ
دوسرے مذ ہب کا ہی ہو) کا حکم دیا گیا ہے، قر آن کریم نے مسلما نوں کو یہ
تعلیم دی ہے۔وَتَعَاوَنُوْا عَلَی ا لْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَ لَا تَعَا وَ
نُوْاعَلَی ا لْاِثْمِ وَا لْعُدْ وَانِ۔( القر آن،سورہ مائدہ5، آیت3) نیکی
اور تقویٰ کے کا موں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ و ظلم و زیادتی
کے کا موں میں کسی کا تعا ون نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ کی سزا
بہت سخت ہے۔
نبی رحمت ﷺ کاظلم وزیا دتی کے خلاف معا ہدہ۔ آقا ﷺنے ظا ہری بعثت سے پہلے
مظلو موں کی مدد کے لیے معاہدہ فر مایا ،عرب میں لوگوں کی جان و مال،عزت
محفوظ نہ تھی۔ ظالموں کا ہاتھ پکڑ نے والا کوئی نہیں تھا ،ظلم ہوتا ہوا
دیکھتے رہتے اور مظلوم کی مدد نہ کرتے، اسے روکنے والا کوئی نہ تھا، ظلم کا
بازار گرم تھا اسے روکنے اور ٹھنڈا کر نے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھتا تھا۔
حرم شریف مکہ جیسے شہر کی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ اس صورت حال سے آپ کو
بہت تکلیف،قلق، اور صد مہ رہتا تھا۔ اس لیے اسے رحمت عالم ﷺ نے بدلنا چا
ہا،آپ نے بعض درد مند کو مشورہ کے لیے عبداﷲ بن جدعان کے گھر جمع کیا اور
فیصلہ کیا کہ ظلم و زیادتی کو ہر قیمت پر روکا جائے چاہے اس کے لیے جو بھی
قر بانی دینی پڑے دی جائے گی لیکن مظلو موں پر ظلم روکا جائے گا کسی بھی
شخص خواہ ( دوسرے مذہب کا ہی ہو) چاہے وہ مکہ کا رہنے والا ہو یا باہر سے
آیا ہواہو، ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا اور مظلو موں کی مدد کی جائے گی ۔آپ
ﷺ اس معاہدہ(Agreement) میں شریک تھے۔ یہ معاہدہ آپ کی ظاہری بعثت سے پہلے
ہوا تھا۔ لیکن بعثت کے بعد بھی آپ اس معاہدہ کی تعریف کرتے ہوئے خوش ہوتے
آپ نے فرمایا: میں عبداﷲ بن جد عان کے گھر میں اس معاہدہ میں شریک ہوا،آپ
نے فر مایا اس معاہدہ کے عوض مجھے سرخ اونٹ(عرب کی سب سے قیمتی اور بڑی
دولت) مل جائیں تو بھی پسند نہیں۔ اگر اسلام کے آنے کے بعد بھی مجھے اس کی
دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔(ابن سعد، طبقات،ج ،1ص129،ابن ہشام،
سیرۃ النبی، ج 1، ص144 سے145) آپ ﷺ نے اس کی تعلیم دی کہ جو شخص بھی ہماری
ہمدردی اور مدد کا محتاج ہو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ قرآن کریم اور احادیث کے
ذخیرہ میں بہت سی احادیث پاک مو جود ہیں،حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فر مایا:رحم اور ہمدردی تو اس شخص سے نکال دی
جاتی ہے جو بد بخت ہے۔( مسند احمد:ج،2،ص301 ،تر مذی، باب ما جاء فی رحمت ا
لناس) آقا ﷺ نے فر مایا تم میں بہترین شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے
اور جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور تم میں بد تر ترین شخص وہ ہے جس سے خیر
کی توقع نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ رہیں۔( مسند
احمد،ج2-،ص368)۔
*مومن کو ستانا اور توبہ نہ کرنا سخت عذاب کا باعث۔* مومن کو ستانے پرقرآن
مجید میں سخت عذاب کی وعید (سزا دینے کا وعدہ،Warning ) آئی ہے اﷲ تعالیٰ
کا فر مان ہے۔ تر جمہ: بیشک جن لو گوں نے مسلمان
مردوں اور عور توں کو ستایا پھر توبہ( بھی) نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب
اور جلنے کا عذاب ہے۔(القرآن، سورہ البروج85،آیت10) آج مسلم سماج میں کم
زوروں کو طرح طرح سے ستانا ایک عام بات ہوگئی ہے، اس خرابی،برائی ،کمی کو
رسول اﷲ ﷺ نے اعلان نبوت کے پہلے دور کیا افسوس آج اس طرف توجہ نہیں دی
جارہی ہے۔ اگر کم زوروں میں کوئی کم نصیب شخص بے چارہ امام ہو تو پھر کیا
کہنے اس کو ستانے کے ساتھ ساتھ اسکی عزت کو ملیا میٹ کر نے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی جاتی۔ بہت سے واقعات ایسے ہیں جو تحریر میں لانے کے لائق ہیں،
بقرعید سے پہلے جمعہ 17 اگست 2018 کو مدھیہ پر دیس(انڈیا) کے ایک گاؤں چاند
کھڑی، ضلع اندور کی مسجد میں بیچارے امام صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں ’’غیبت‘‘
کے موضوع پر بیان فر مایا…… صف اول کے کسی مسلمان بھائی کو وہ بیان پسند
نہیں آیا…… بس پھر کیا تھا…… مصلیان کرام نے امام صاحب اور ان کے معصوم
بچوں اور بیوی کو زبر دست بارش میں گھر سے باہر نکا ل دیا اور ظلم کی حد
پار کرتے ہوئے بے چا رے امام کو گاؤں میں بھی نہیں رکنے دیا اسی بے بسی میں
امام صاحب بس اسٹینڈ جاکر گھر جانے پر مجبور ہو گئے دودن بقرعید کے باقی
تھے عید تک رکنے کی مہلت بھی نہیں دی ظالموں نے۔ امام صاحب میرٹھ،یو پی کے
رہنے والے تھے،امام صاحب کی اہلیہ گود میں بچی کو لئے باپردہ کھڑی ہیں اور
2 چھوٹی چھوٹی بچیاں بارش میں بھیگ رہی ہیں اور زار وقطار رورہی ہیں ،انتہائی
شرم اورحیرت کی بات ہے گا ؤں کے لوگ تماشہ دیکھ رہے ہیں کسی کے اندر ایمانی
حرارت نہیں جاگی کہ امام صاحب کی مدد کرے۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل
ہوا( ثبوت کے لیے ویڈ یو ہم سے منگا کر دیکھ سکتے ہیں) [نوٹ] مذکورہ امام
صاحب کے ساتھ جو یہ نازیبا انتہائی شر مناک سلوک کر نے والے مسجد کے مومنین
کرام ہی ہیں…… امریکہ، اسرائیل یا کسی باطل حکومت، یا اورلوگوں کا کام نہیں
ہے ۔انسانیت سے گرا ہو، ا س طرح کا کمینہ پن مسلما نوں کے دبنگوں نے کیا
چور کی داڑھی میں تنکا وہ قرآن کریم واحادیث ، اﷲ ورسول کی با ت کو ہضم نہ
کر سکے [نزلہ] عضوئے بر ضعیف اپنی طاقت کا کا مظاہرہ کمزور امام پر کر کے
دکھایا۔ ایک سکنڈ کے لیے سوچیں کیا غیبت کے احکام نازل فر مانے والا رب ذوا
لجلال والاکرام! بھی امام صاحب کی طرح بے بس لا چار و مجبور ہے کیا ؟( معاذ
اﷲ ثم معاذ اﷲ ہزار بار توبہ) ہر گز ہر گز نہیں وہ تو قادر مطلق ہے اور پکڑ
کی طاقت رکھتا ہے، قر آن کریم میں خدائے قہار و جبار کا اعلان ہے۔تر جمہ:
اﷲ کا ہی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اگر تم
ظاہر کرو جو کچھ تمھار ے جی میں ہے یا چھپاؤ اﷲ تم سے اس کا حساب لے گا تو
جسے چاہے بخشے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور اﷲ ہر چیز پر قادر
ہے،۔(القرآن، سورہ البقر2،آیت284) ( کنز الایمان) اﷲ ضرور ظالموں کی پکڑ فر
مائے گا دل سے دعا ہے اﷲ ظالموں کی جلد خبر لے اور عبرت ناک انجام سے دوچار
کرے تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے نفس کا جائزہ لیں اور خود ا حتسابی
کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھا نکیں…… امریکہ،اسرائیل، آر ایس ایس ،بی جی
پی کو برا کہہ کہہ کر وقت بر باد نہ فر مائیں اﷲ کی طرف توبہ سے رجوع کریں
اور امام و موذن کی عزت و توقیر کریں۔ ان ظالموں کا کیا حال ہے معلوم نہیں
، اﷲ ضرور ان کی پکڑ فر مائے گا ان شاء اﷲ ،لیکن امام صاحب کو دوسری جگہ مل
گئی الحمدﷲ۔ اما م مو ذن کو ستانے وا لوں کے کئی عبرت ناک واقعا ت ہیں جو
قا بل ذکر ہیں، مقالہ طویل ہونے کا خوف ہے2واقعہ مطالعہ فر مائیں ہمارے شہر
جمشید پور کی ایک بڑی مسجد کے ایک ذمہ ار بیچا رے موذن پر لعن و طعن جاری
رکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ موذن صاحب چھٹی پر گھر گئے اور آنجناب نے
فون کر دیا اب آپ واپس نہ آئیں ہم نے دوسرا موذن رکھ لیا ہے۔ بیچارے موذن
صاحب واپس آ ئے اپنا ساراسامان لیکر جانے لگے تو لوگوں سے مصافحہ کیا تو اس
گھمنڈی نے مصافحہ بھی نہیں کیا بلکہ ایک طنزیہ ، زہریلی مسکراہٹ سے اپنی
خباثت کا اظہار بھی کیا۔ خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہو تی لیکن ایسی ضرب
لگتی ہے بڑے بڑے فر عونوں کی فرعونیت غرق ہو جاتی ہے،صرف تیسرے دن ہی
آنجناب کے بیٹے جو کی ایک گور منٹ کی نوکری میں تھے نوکری سے سسپنڈ کر دیئے
گئے اور جیل یاترا بھی کر نے چلے گئے۔اب آنجناب کو ہوش آیا اور موذن کو
ستانے کا احساس ہوا، تیر کمان نکل چکا تھا،لیکن موذن صاحب نے اپنی شرافت کا
مظاہرہ فر مایا اور انکی معافی طلبی پر معاف فر مادیا، دوسرا واقعہ بھی بڑا
عبرت ناک ہے جس کی پوری تفصیل کے لیے ناچیز کا مضمون’’ *مظلوم امام!!! بے
حس عوام احساس زیاں جاتا رہا‘‘* نیٹ پر ضرور مطالعہ فر مائیں۔38 سالہ تجر
بہ کار امام! حضرت حافظ و قاری امام الدین صاحب عمر 55 سال ، انتہائی شریف
،کم سخن پابند صوم و صلاۃ، مگن پور،ضلع رام گڈھ ،جھار کھنڈ میں 4سال سے
امامت فر مارہے تھے،اپنے وطن چھٹی پر گئے اور دوسرے دن کمیٹی کے ذمہ دار نے
فون کر دیا کہ دوسرا امام رکھ لیا ہے آپ کو آنے کی ضرورت نہیں وہ بے چارے
ہکا بکا رہ گئے اور صبر کا دامن تھام لیا۔ پھر کیا ہوا ان کا صبر اس ظالم
کے لیے ایساقہر بنا کہ جائے عبرت ہے۔ اﷲ پکڑ کی قوت رکھتا ہے اور ظالموں کو
نہیں بخشتا۔
*ظالم اور مظلوم کا حکم*: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔تر جمہ:اﷲ کسی(کی) بری بات
کا بآ واز بلند(ظاہراً وعلانیۃً) کہنا پسند نہیں فر ماتا سوائے اس کے جس پر
ظلم ہوا(اسے ظالم کا ظلم کا آشکار کر نے کی اجازت ہے)، اوراﷲ خوب سننے
والاجاننے والا ہے۔(القرآن،سورہ نساء4، آیت، 147) ظالم اور مظلوم دو نوں کو
احساس دلایا جا رہا ہے۔ ظالم یہ نہ سوچے کے اس کے مظالم کا کسی کو علم ہی
نہیں اور دنیا کی کوئی عدالت اسے سزا دے نہیں سکتی۔ یا دنیا کی کوئی طاقت
اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی،اﷲ تعالیٰ ظالم کے کر تو توں سے واقف ہے اور ظالم
کی پکڑ کی قوت بھی رکھتا ہے، اﷲ کی عدالت سے اسے سزا مل کر رہے گی۔ اور
مظلوم کو تسلی دی جارہی ہے کہ اگر کوئی دوسر تمھارا داد رسی نہیں کرتا تو
صبر کرو اﷲ تعالیٰ تیرا فریاد رس ہے تیری مظلو میت اور بے کسی کا اسے خوب
علم ہے اور وہ ضرور پکڑ فر مانے والاہے۔وَ کَذٰلِکَ نُوَلِّیۡ بَعۡضَ
الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ (القرآن، سورہ الا
نعام 6، آیت 129) ترجمہ :
اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا
( کنز الا یمان)تفسير ابن کثیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صاحب تفسیر
یوں لکھتے ہیں، ظالم ظالموں کا مومن مو منوں کا دوست ہے – اللہ تعالٰی
لوگوں کو جو ایک جیسے اعمال کرتے ہیں تو آپس میں ان کو دوست بنا دیتا ہے –
ایمان تمناؤں اور ظاہر ی دیواروں کا نام نہیں، مالک بن دینار رحمۃ اللہ
علیہ نے کہا کہ میں نے زبور شریف میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
میں منا فقین کا انتقام (بدلہ) منا فقین ہی کے ذریعہ سے ہی لوں گا، اور یہ
قرآن کریم میں بھی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :ہم اسی طرح ایک ظالم کو
دوسرے ظالم کا دوست بنا دیتے ہیں،-حديث پاک میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ “جس نے ظالم کی مدد کی تو اسی ظالم کو اس پر مسلط
(قابض، غالب، زور آور) کردے تے ہیں – کسی شاعر نے کہا ہے – کوئی ہاتھ ایسا
نہیں جس سے با لا تر ﷲکا ہاتھ نہ ہو == اور کوئی ظالم ایسا نہیں جس کو
دوسرے ظالم سے سابقہ نہ پڑے، اوپر مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ
اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ فرما تے ہیں – اس آیت کریمہ کے معنیٰ یہ ہوئے کہ
جس طرح ہم نے خراب لوگوں کے دوست ان کے بہکا نے والے جن و شیا طین کو بنا
دیا، اسی طرح ظالموں میں سے بعض کو بعض کاولی بنا دیتے ہیں – اوربعض، بعض
سے ہلاک ہو تے ہیں اور ہم ان کے ظلم وشر کسی اور بغاوت کا بدلہ ظالموں سے
ہی ظالموں کو دلا دیتے ہیں – (تفسير ابن کثیر) یہ ہے قدرت کا انتقام
*کعبہ کی عزت سے زیادہ مومن کی عزت* : مومن کی عظمت وشان کا ذکر قر آن واحا
دیث میں موجود ہے، مومن کو ستانا گناہ عظیم ہے مسلمان کو ستانے والے کو اﷲ
رسوا فر ماتا ہے ۔حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما کی یہ حدیث اہل ایمان کے
لیے کافی ہے، کہ رسو ل اﷲ ﷺ منبر پر تشریف لائے، بلندآواز سے پکارا اور فر
مایا:ـ’ ، کہ رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لائے ، بلندآواز سے پکارا اور
فرمایا: ” يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ
الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا
تُعَيِّرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ
عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ
تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ قَالَ
وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ
فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ
حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ [صحیح ترمذی: 2023 ۔تر جمہ:’’ اے اسلام
لانے والے زبانی لو گوں کی جماعت! جن کے دلوں تک ایمان کما حقہ نہیں پہنچا
ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عارمت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو،
اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کاعیب
نکالتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ جس کے عیب نکالتا ہے،اسے رسوا وذلیل کر دیتا ہے ،
اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر کے اندر ہو، راوی ( نافع) کہتے ہیں: ایک دن ابن
عمر رضی اﷲ عنھما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت
والے ہو! اور تمھاری حر مت (عزت) کتنی عظیم ہے، لیکن اﷲ کی نظر میں مو من(
کامل) کی حر مت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔( ترمذی:حدیث،2023) مو من کی عزت اور
اس کو باقی ر کھنا اپنے کو جہنم سے محفوظ ر کھنا ہے،حضرت ابو داؤد رضی اﷲ
عنہ سے روایت کہ آپ ﷺ نے فر مایا جس نے مو من بھائی کو بے عزتی سے
بچایا(عزت کو بچایا رسوا نہ کیا) خدائے پاک اس کے چہرہ کو قیامت کے دن جہنم
سے بچائے گا۔( مکار م اخلاق خرائطی ج،2ص841) حضرت براء بن عاذب رضی اﷲ عنہ
سے مر وی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا سود کے بہتر دروازے ہیں۔ اد نیٰ دروازہ ماں
سے ز نا کے برا برہے اور سب سے بڑا سود یہ ہے کہ اپنے مو من بھائی کی عزت
کے پیچھے پڑ جائے۔( مطالب عالیہ ج،3ص2 مجمع الزوائد،ج8ص92)مومن کی حر مت
کعبہ سے زیادہ بہت پیاری حدیث مطالعہ فر مائیں اور اپنے ایمان میں جلا پیدا
فر مائیں ۔حضرت عبدﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو
کعبہ شریف کا طوف کرتے دیکھا۔ آپ فر ما رہے تھے: اے کعبہ:’’ تو کتنا پا
کیزہ ہے! اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے۔ تو کس قدرعظیم ہے! تیرا احترام
کتنا عظیم ہے! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے! اﷲ کے
یہاں مومن کی حرمت،تیری حر مت سے بڑھ کر ہے۔یعنی اس کے مال اور جان اور یہ
کہ اس کے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ3932)۔ ان تمام
روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مومن کی عزت کی حفاظت کی جائے۔اس کو کسی وجہ
سے رسوا نہ کیا جائے جس سے اس کی اہانت ورسوائی ہو۔ افسوس صدافسوس! کہ آج
کامسلمان اﷲ و رسول کے فرا مین کوبالکل بھول گیا ہے اور اﷲ کے ڈرسے آزاد ہو
گیا ہے زمانہ الٹ گیا قیامت کی نشانیاں ہیں، توبہ استغفرا ﷲ…… مسلمان ہی مو
منوں کے امام کو بھی ذلیل کر نے میں عار،شرم اﷲ کے خوف سے آزاد ہیں۔ اگر
امام نے بد یانتی پر بیان کر دیا تو پھر کیاتھا لاٹ صاحب(گورنر) کو برا لگ
گیا اور بعد نماز جمعہ ہی مسجد کے اندر معافی منگوائی جو امام حافظ و قاری
حاجی اور متقی پر ہیز گار ہے۔33 سال سے فی سبیل اﷲ (free) خد مات انجام دے
رہاہے ،امام معافی مانگ کر مسجد کے اندر زارو قطار رو رہا ہے مقتدیوں کو
ہمت نہیں ہوئی کہ ایسے لوگوں کو روکیں چپ چاپ دیکھتے رہے امام رو رو کر دعا
مانگتا رہا اے اﷲ! اس قوم کو ہدایت دے کسی کا دل نہیں پسیجا۔ اﷲ ہی خیر فر
مائے اﷲ ہدایت دے،جس مومن کی عزت کعبہ سے بڑھکر ہے آج ہمارا مسلم سماج اپنے
ہی مومن امام کی عزت کو کس بے دردی سے پامال کررہا ہے۔اور کوئی روکنے اور
بولنے والانہیں،ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کا محا سبہ کر نا چاہیے۔ حدیث پاک
میں ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:مَنْ رَایِ مِنْکُمْ
مُنْکَرًافَلْیُغَیِّرُ ہُ بِیَدِہ،فَاِنْ لَمْ یَستَطِعْ فَلِبِسَا نِہِ،
فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ،وَذَالکَِ اَضْعَفُ الْاِیْمَانَ۔۔تر
جمہ:’’ تم میں سے جوشخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اسے روک دے
اس کی اصلاح کرے،اوراگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد
کرے، اور اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دل سے اسے برا جانے اور یہ
ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔‘‘(مسلم شریف،کتاب الایمان باب بیان النھی عن
المنکر من الایمان،1:69،رقم:49) اس حدیث مبارکہ میں ایمان کے درجات کو بڑے
ہی احسن پیرائے میں بیان کیا ہے، اس قوم کا کیاہوگا جو اماموں پر ظلم روا
رکھتی ہے اﷲ خیر فر مائے آمین۔ مسلمانوں کی سوچ پر ماتم کریں، نوحہ پڑھیں
اور ﷲسےہدایت کی دعائیں مانگیں، جہاں یہ سوچ ظاہر کی جائے ہم تو بستی میں
رہتے ہیں بستی کے لوگ ہی جنازہ قبرستان پہنچا ئیں گے امام تو با ہر کا ہے
ہم تو بستی والوں کے ساتھ رہیں گے چاہیے وہ جیسا ہو، استغفراللہ اللہ خیر
فر ما ئے اور یہ بھول گئے کہ جنازے کی نماز تو اما صاحب ہی پڑھائیں گے، جب
لوگ یہ کہیں کہ میں کثیر العیال ہوں ہم کو کچھ ہو گیا تو میرے اہلول و عیال
کا کیا ہوگا، جہاں لوگ یہ کہیں کہ کہ میں تو بو ڑھا ہو گیا ہوں ہم کیا
کریں، تب آپ سمجھ لیں کہ امام و خطیب وموذن کا اللہ ہی حا فظ و ناصر ہے،
*خدا بچائے دوست کے تعصب سے*:دوست کا لفظ اپنے اندر بہت معنویت و گہرائی
رکھتا ہے دوست اچھے بھی ہوتے ہیں برے بھی ہوتے ہیں جان بچانے والے بھی ہوتے
ہیں اور کہیں لے جاکر مروانے والے بھی ہوتے ہیں۔حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکریم
فرماتے ہیں کہ دوست اور دشمن تین طرح کے ہوتے ہیں: جو تمہارا دشمن ہے اس کا
دوست بھی تمہارا دشمن ہے اور وہ تمہارے دوست کا بھی دشمن ہے۔ اﷲ رب العزت
نے بھی اپنے نیک بندوں کو دوست بنایا اور انھیں امتحان سے گزار کر انعامات
کی بارش فر مائی۔ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کو اﷲ رب العزت نے اپنا دوست
بنایا ’’خلیل اﷲ‘‘ اﷲ کا دوست، حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کا لقب۔’’حضرت
موسیٰ کلیم اﷲ تھے، لقب‘‘۔ the friend(of god)Abraham, (سیرۃا لنبی ﷺ
ج4،ص422)منا فقت آج کل عام بیماری ہے اﷲ ہم سب کو بچائے اس موذی گناہ سے
کیو نکہ اﷲ نے منا فق کی سزا کا اعلان یوں فر مایا۔( القرآن،سورہ
نساء4،آیت145) تر جمہ: بیشک منافق لوگ دو زخ کے سب سے نچلے در جے میں ہوں
گے اور آپ ان کے لیے ہر گز کوئی مدد گار نہ پائیں گے۔ جو لوگ منافقت اور
سازشیں اور تخریبیں کرتے ہیں وہ احکم الحاکمین رب ذوالجلال کے اس فرمان پر
غور فرمائیں(القرآن:سورہ مجادلہ:58، آیت نمبر:10) ترجمہ: سرگوشی محض شیطان
ہی کی طرف سے ہوتی ہے تاکہ وہ ایمان والوں کو پریشان کرے وہ (شیطان)ان
(مومنوں)کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا مگر اﷲ کے حکم سے، اور اﷲ ہی پر مومنوں کو
بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ ہم تمام مسلما ن ایک ہیں ایک ہی رہنا چاہیے ہم مسلمان
ایک دوسرے کے سلامتی کے ضامن ہیں تمام مسلمانوں کو اس بات کا خیال رکھنا
چاہیے۔ ہم تمام لوگ مسلمانوں کی عزت کو بچائیں سر سبز و شاداب رکھیں۔ ہماری
صفوں میں چھپے ہوئے انتشار پسندوں سے چو کنا رہنا ہو گا اسی پسِ منظر میں
ایک شاعر نے کیا خوبصورت پیغام دیا ہے۔ ۔۔
*کھلے دشمن کا استقبال ہمیں منظور ہے لیکن ٭ خدا محفوظ رکھے دوست کے ذہنی
تعصب سے*
اور منور را نا بھی بہت خوبصورت بات کہہ رہے ہیں۔
کہیں سچ بولنے سے شعریت مجروح ہو تی ہے ٭ تکلف بر طرف قاتل کو قاتل کہ
دیا جائے
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں ٭ مجھے ہے حکم اذاں لاالہٰ الا اﷲ
اﷲ ہم تمام مسلمانوں کو امام کی حر مت، عزت و اہمیت کو سمجھنے اوران کی عزت
کر نے کی تو فیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔ |