مفلسی نصف ایمان کھا جاتی ہے۔ یہ ایک عالمی سچ ہے کہ
انسان دنیا میں سب سے پہلے اپنی جان کی حفاظت ، پھر پیٹ کی آگ مٹانے کیلئے
اور اس کے بعد دیگر کاموں کو سر انجام دینے کیلئے تگ و دو کرتا ہے۔ لیکن
معاشرے میں استحقاق کی جنگ نے مادیت کی آگ کو اس قدر بھڑکادیا ہے کہ یہ
ایوانوں سے نکلتی ہوئی کچی آبادیوں کے مکینوں کے دلوں کو جلا کر کالا کرگئی
ہے۔ اور ان سے اٹھنے والے کالے دھوئیں نے سارا معاشرہ اپنی لپیٹ میں لے
رکھا ہے۔ اسلام میں انسانیت بنیادی حیثیت کی حامل ہے ۔ اخلاقی اقدار کا
لوہا ان بنیادوں کو کندن بناتا ہے۔ میرے نبی ﷺ نے فرمایا ’’ تم میں سے بہتر
وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے‘‘۔ اور میرے نبی ﷺ کے فرمان سے بڑھ کر سند
کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اس کی تفسیر سمجھنے میں ہماری نسلوں کو شاید بھول ہو
گئی ہے یا وہ شیطان کے نقشِ قدم پر ہیں ۔ جو ان سے بے جا خرچ اور بخل کر وا
کر ان کے دماغ میں عین اسلامی عمل ہونے کا گمان پیدا کرتا ہے ۔
جہاں مفلسی ایمان کو کمزور کر تی ہے وہیں مادیت کی چاہت اور حصولِ طاقت کی
خواہش بھی انسان کو مطلق العنانی کی طرف لے جاتی ہے ۔ انسان خدا نہیں بن
سکتا اور مطلق العنانی کا مالک ، اس کائنات کا اور ہم سب کا مالک صرف اﷲ رب
العزت ہے ، جو کہتا ہے کہ ہو جا تو ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ہمیں اس امر کو
بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ انسان اس دنیا میں صرف وہ کر سکتا ہے جو اﷲ تعالیٰ
کی مرضی ہوتی ہے، اگر اﷲ پاک چاہے تو وہ ایک غلطی پر پکڑ سکتا ہے اور
اگرذوالجلا ل والاکرام چاہے تو تمہاری رسی کو ڈھیلی چھوڑ دے لیکن پھر بھی
یہ نہ سمجھو کہ ہماری پتنگ کٹ گئی ہے اور اب پتنگ جس طرف جائے جس کے ہاتھ
جائے وہی اس کا مالک ہو گیا۔ مالک تو صرف اﷲ کی ذات ہے ، اس نے انسان کو
صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا فرمایا ، اور اس بندگی کی تشریح میں سارا ضابطہ
حیات رکھ دیا ہے ۔ تمہارا حلال کمانا ، کما کر حلال لقمہ اولاد کو کھلانا ،
معاشرے میں اچھے اخلاقی اقدار کو فروغ دینا، والدین کی خدمت ، کسی کے ساتھ
برا پیش نہ آنا، مہمان نوازی کرنا، یتیموں ، مسکینوں ، بیواؤں ، بوڑھوں ،
بچوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال رکھنا اور اس میں دکھلاوے کی بجائے
اگر رضائے الٰہی کی فکر ہو تو وہ عبادت ہے۔ اگر اس کے برعکس انسان سب کرے
مگر اس میں دکھلاوہ، شہرت کی بھوک اور لالچ و ہوس ہو تو وہ سب کیا دھرا اﷲ
کے حضور بے کار ہو جائے گا۔ دنیا کے مطلبی اور خوشامد پسند لوگ جتنا بھی آپ
کی جے جے کار کریں لیکن اﷲ کے حضور صرف وہ دکھلاوہ، خود پرستی و خود نمائی
ہے جسے اﷲ تعالیٰ بالکل پسند نہیں فرماتے کیوں کہ ان الحمد ﷲ۔
ہمارے ملک کا شمار دنیا کے مفلس ممالک میں ہوتا ہے، لیکن اس کے صرف تین
فیصد طبقے کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کا شمار دنیا کے دولت مند ترین شخصیات
میں ہوتا ہے ۔اس وقت پاکستان معیشت کی جنگ لڑ تے ہوئے لڑکھڑاتا ، گرتا
سنبھلتا جانے کس جانب گامزن ہے کہ ابھی تلک نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے۔
ہمارے ملک میں نہ تو کاروبار ہے، نہ کوئی بنیادی سہولت ہے ، نہ کسی چیز کا
معیار ہے اور نہ ہی پانی ہے۔ مانو تو زندگی کے آثار کم ہوتے دکھائی دیتے
ہیں اور یہی ایک المیہ ہے جو معاشرے میں عدم برداشت و عدم استحکام کو
بڑھوتری دے رہا ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھلائی وہاں
جاگتی ہے جہاں نظر آئے۔ کروڑوں روپوں کے روڈز بن جاتے ہیں لیکن اس کے نیچے
سیوریج ، گیس ، انٹرنیٹ اور بجلی کی لائینوں کو نہ تو درست کرنے کی تکلیف
کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں بنانے کی کیونکہ وہ چھپ جاتی ہے اور روڈ نظر
آتا ہے، کوئی حادثہ ہو جائے تو حکومتی نمائندے، انسانی حقوق کی تنظیمیں ان
کے ساتھ احسان کرتی ہیں مگر ساتھ اخباروں میں اپنے ، ان کے اوران کے دئیے
جانے والے سامان کی تصاویر بھی شائع کرواتی ہیں ۔ سڑکوں پر چوکوں پر گلیوں
میں مفلسوں کے بچے سخت سردی اور گرمی میں بغیر کپڑوں کے پڑے ہوتے ہیں لیکن
مزاروں کے گنبد اور ان کی قبریں چادروں سے ڈھکی نظر آتیں ہیں۔ محلوں میں
لوگوں کے گھروں میں دو وقت کا کھانا نہیں بنتا لیکن شیخ صاحب، سیٹھ صاحب،
ملک صاحب، چوہدری صاحب، مہر صاحب ، خان صاحب اور شاہ جی مساجدوں پر ماربل
اور جانے کیا کیا لگوا کر ان پر اپنا نام لکھواتے ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے
کہ تمہارا یہ عمل کس کام کا کہ جب دکھلاوا بتا کر خدائے متعال انہیں رد کر
دے گا۔
میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کبھی بھی ایسی تعلیمات نہیں
دیتا کہ آپ کے ہمسائے میں ، معاشرے میں ، رشتہ داروں میں لوگ مفلسی کی وجہ
سے رینگ رہے ہوں اور آپ مزاروں اور مساجد پر پیسہ خرچ کرنا ثواب سمجھیں۔
غریبوں کے بچے بنا کھائے سو جائیں اور آپ انتہائی بیش قیمتی اور لذیذ کھانے
نوش فرمائیں، بچے فٹ پاتھوں پر موسموں کی شدت ننگے بدن جھیلیں اور آپ قیمتی
اور نرم و گداز لباس سے محظوظ ہوں۔ بلکہ اسلام تو ایسی بے حسی ، خود پرستی،
خود نمائی ، بخل، دکھلاوے، مادیت اور مطلق العنانی جیسی خواہشات کی مخالفت
کرتا ہے۔ معروف شاعر عاصم تنہا ، بھکر چاندنی چوک پر رہتا ہے ۔ اس نے ان
تمام عناصر کو انتہائی خوبصورت انداز میں اپنے اس ایک شعر میں بند کیا ہے:
چادریں ان کو میسر ہیں مگر مجھ کو نہیں
میں تو سردی میں مزاروں کی طرف دیکھتا ہوں
|