دیش بھکتی کی بھگوا فوج نادانستہ خود اپنے ہی پیر پر
کلہاڑی چلا تی رہتی ہے۔ دوسروں کو دیش دروہی کہنے والوں کے دامن پر اچانک
ایسے داغ ابھر آتے ہیں کہ جن کو چھپانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پونے شہر کے
اندرشہری نکسلواد کی کہانی بنی جا رہی تھی مگر اس سے پہلے کہ ا س مفروضے کی
بنیاد پر بے قصور سماجی کارکنان اور دانشوروں پر ہاتھ ڈالا جاتا مہاراشٹر
میں ہی نالا سوپارہ کے اندر دیش بھکتوں کے پاس اسلحہ کا بہت بڑا ذخیرہ پکڑا
گیا اور نام نہاد سرخ دہشت گردی کا رنگ یکلخت بھگوا ہوگیا ۔ دہلی کے اندر
تین سال بعد کنہیا کمار اور دیگر ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے
انہیں غدار وطن ٹھہرائے جانے کے دودن بعد ممبئی سے قریب ڈومبیولی میں ایک
بی جے پی رہنما کی دوکان سے غیر قانونی اسلحہ کے ضبط ہونے کی اطلاع آگئی ۔
ان خبروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ چوری تومونچھوں والے کرتے ہیں مگرپولس
داڑھی والوں کے پیچھے لگ جاتی ہے؟ یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال ملک اور
برسرِ اقتدار جماعت کی قیادت داڑھی والوں کے ہاتھ میں ہے۔
دہشت گردی اور دیش بھکتی کا یہ گھناونا کھیل کیسے کھیلاجاتا ہے اس کے چند
مناظر دیکھیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۸ کو بھیما کورے گاوں میں زعفرانی دہشت گردوں
نے مہار رجمنٹ کی ۲۰۰ ویں سالگرہ میں آنے والے مندوبین پر حملہ کردیا۔ اس
تشدد میں ملوث نام نہاد دیش بھکتوں پر اقدام کرنے کے بجائے انہیں کی جانب
سے ۸ جنوری ۲۰۱۸ کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں ۳۱دسمبر ۲۰۱۷ کی
شب یلغار پریشد پر دلتوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام لگایا گیا۔ مارچ میں
پولس نے اس شکایت کو ایک خطرناک سازش میں بدل کر قومی سلامتی کے لیے زبردست
خطرہ قرار دے دیا۔ اس میں ملوث لوگوں ایک نئے لقب شہری نکسلوادی سے نواز کر
ان پر وزیراعظم کے قتل کی سازش کا الزام جڑ دیا گیا ۔ اس سے پہلے کہ
انتظامیہ اس خیالی خطرے کی گھیرا بندی کرتا ممبئی کے قریب نالا سوپارا میں
اے ٹی ایس نے چھاپہ مار کر بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد برآمد کرلیا ۔
یہ اسلحہ کسی نکسلی کے یہاں سےنہیں بلکہ زعفرانی دیش بھکت کے گھر سے برآمد
ہوا تھا۔
وہ دیش بھکت سناتن سنستھا اورہندو جن جاگرتی سمیتی نامی سخت گیر ہندو تنظیم
سے وابستہ ویبھو راؤت تھا ۔ اے ٹی ایس نے اس کارروائی میں ۸ دیسی بم سمیت
اتنا گن پاؤڈر پکڑا کہ اسسے تقریباً ۲ درجن بم بنائے جا سکتے ہیں۔اس کے
ساتھ کچھ ڈیٹونیٹر بھی ہاتھ لگے۔ ویبھو راؤت توڑ پھوڑ کی سرگرمیوں کے پولس
کی نگاہ میں تھا۔ تفتیش کےبعد جب اسے عدالت میں پیش کیا گیاتو اپنے موکل کی
رنگے ہاتھوں گرفتاری پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کے وکیل نے اعتراض کاا کہ
گرفتار کے حوالے سے اسے اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟ اس نے پوچھا ملک اور
مہاراشٹر میں کس طرح کے قانون پر عمل کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال تو اس وقت کیا
جانا چاہیے تھا جب انتظامیہ نے ۲۸ اگست ۲۰۱۸ کو بیک وقت دہلی ، گوا،
حیدرآباد ، رانچی ، تھانے اور ممبئی میں چھاپہ مارکرانصاف پسندسماجی
کارکنان کو دیش دروہی سازش کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا ۔
مذکورہ پولیس کریک ڈاون میں معروف صحافی گوتم نو لکھا، شاعر اور بائیں بازو
کے دانشنور ورورا راؤ ، حقوق انسانی کی وکیل سدھا بھاردواج، وکیل ویرنن
گونزالویس اور ارون فریراکوگرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر دلتوں کو تشدد کی طرف
مائل کرنے اور ماؤ نوازوں کی حمایت کے شبہتھا ۔ناقدین نے اسےقوم پرست بی جے
پی کےذریعہ مخالفین کی آوازدبانے سے کی کارروائی پر مہمول کیا۔معروف مورخ
رام چندر گوہا نے ان گرفتاریوں کو انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ
کیا تھا کہ’’سپریم کور ٹ ملک کی آزاد اور غیر جانبدار آوازوں کو ہراساں
کرنے اور دبانے سے روکنے کے لیے مداخلت کرے۔ میں سدھا بھاردواج ،گوتم نو
لکھا اور دوسرے کارکنوں کو جانتا ہوں ۔ ان کا تشد دکے نظریئے سے کوئی تعلق
نہیں ہے‘‘۔ایمنسٹی کے سربراہ آکار پٹیل نے کہا کہ ’’ان سبھی کارکنوں کی
تاریخ یہ ہے کہ یہ انڈیا کے وہ سب سے کمزور اور غریب طبقے کے حقوق کا دفاع
کرتے رہے ہیں ۔ ان گرفتاریاں کہیں انہیں ان کی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے تو
نہیں؟‘‘۔ یعنی جو رضا کار تنظیمیں انسانی حقوق کا کام کریں ان کی حوصلہ
شکنی تو مقصود نہیں؟
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں گرفتار سماجی کارکنوں کے ٹرانزٹ ریمانڈ پر روک
لگائی لیکن پھر نظر بندی سے چھٹکارا نہیں ملا۔انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے
مہاراشٹر حکومت اور پولیس چیف کو نوٹس جاری کیا لیکن کسی کے کان پر جوں
نہیں رینگی۔ ان معاملات میں وہ لوگ اب بھی عدالت کے دھکے کھا رہے ہیں اور
انتظامیہ کے ذریعہ ہراساں کیے جارہے ہیں۔ اس پر عالمی شہرت یافتہ مصنفہ
ارون دھتی رائے نے کہا تھا’’سر عام لوگوں کا قتل عام کرنے والوں اور ہجومی
تشدد کے مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے ، وکیلوں، شاعروں، ادیبوں، دلت
رہنماؤں اور دانشوروں کے یہاں چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے
کہ بھارت کس طرف جا رہا ہے ۔ قاتلوں کی عزت افزائی کی جارہی ہےجبکہ اکثریت
کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور انصاف کی آواز بلند کرنے والوں کو مجرم قرار
دیا جا رہا ہے ۔ کیا یہ آنے والے انتخاب کی تیاریاں ہیں ‘‘۔
اس بیان کا اختتامیہ استفسار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُس وقت تو خیر
انتخابات کافی دور تھے اور بی جے پی کی حالت ایسی پتلی بھی نہیں تھی لیکن
آج کل وہ دو طرفہ دباو میں ہے ۔ ایک طرف ناراض سنگھ پریوار رام مندر پر
اصرار کررہا ہے اور اس کو مطمئن کرنے کے لیے سرکار معاشی ریزرویشن کا شگوفہ
چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے۔ دوسری طرف مختلف محاذوں پر ناکامی کے سبب عوامی
دباو ہے ۔ان دونوں طبقات کو احمق بنانے کے لیے جعلی قوم پرستی کا شور کیا
جارہا ہے۔ جے این یو معاملہ میں تقریباً ۳ سال بعد ایف آئی آر درج کرنے
کی یہی وجہ ہے ۔ کنہیا کمار نے حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے انتخابی
تماشا قرار دیا ہےاور عمر خالد نے اس کو سرکاری ناکامیوں کی پردہ پوشی
گردانا ہے۔ پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر کنہیا
کمار، عمر خالد، انربان بھٹاچاریہ، اے آئی ایس ایف لیڈر اپراجیتا راجہ اور
عاقب حسین وغیرہ کے خلاف جو ۱۲۰۰ صفحات پر مبنی چارج شیٹ میں ان پر تعزیرات
ہند کی دفعہ ۱۲۴ اے (بغاوت)، ۱۴۷، ۱۴۹اور ۱۲۰بی کے تحت مقدمہ درج کاک گیا
ہے۔
اس چارج شیٹ میں ۷ کشمیری طلبا اور سی پی آئی رکن پارلیمان ڈی راجہ کی
بیٹی اپراجیتا راجہ پر ملک مخالف نعرے لگانے کاالزام ہے۔ کسی بھی نعرے کو
ملک مخالف قرار دینے کا کلی حق ویسے توسنگھ پریوار نے اپنے پاس محفوظ
کررکھا ہواہےلیکن جس وقت یہ تنازع اٹھا تھا یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ
ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ویڈیو کے پیچھے کشمیر کے کسی غیر متعلق جلسہ
کی آواز چپکا کر عوام کو فریب دیا گیا تھا۔ اس تہمت بازی کے شک کی سوئی
مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کے دفتر کی جانب مڑ گئی تھی۔ اس معاملے میں کنہیا
کمار کو خوب بدنام کیا گیا بلکہ عدالت کے احاطے میں زدوکوب کرنے کاشرمناک
سانحہ بھی پیش آیالیکن سنگھ کو یہ حماقت مہنگی پڑی۔ کنہیا کمار اس قدر
مقبول ہوگیا کہ اس کے بیگو سرائے سے لوک سبھا انتخاب میں حصہ لینے کا چرچہ
ہونے ہے ۔ ایف آئی آر میں اس کے خلاف نعرے بازی کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ
سے حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔ یہ عجیب بات ہے ایک شخص محض کسی نعرے باز کی
حمایت کرنے پر غدار وطن ہوجاتا ہے جبکہ ان نعروں تفتیش ابھی باقی ہے۔
کنہیا کمار سے زیادہ دلچسپ الزام عمر خالد پرلگایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں
کہا گیا کہ وہ نعرے بازی کرنے والوں کے رابطے میں تھا۔ اس دور جدید میں
انسان فون اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ دور دراز کے ہزاروں لوگوں سے رابطے میں
رہتا ۔ وہ ایسے لوگوں سے خط و کتابت کرتا جن سےکبھی ملا بھی نہ ہو ۔ اس لیے
ان سب لوگوں کےجرائم کہ ذمہ داری محض رابطے کو وجہ سے کسی پر ڈال دینا
سراسر ناانصافی ہے۔ عمر خالد کا قصور یہ بھی بتایا گیا کہ اس نے نعرہ بازوں
کودعوت دی تھی۔یعنی میزبان کومہمان کے جرم میں شریک کردیا گیاہے ۔ یہ تو
ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کو چائے پینے کے لیے ریسٹورنٹ میں بلائے اور آنے
والا ویٹر کو قتل کردے تو اس بلانے والے کو بھی پھانسی چڑھا دیا جائے۔ ایسا
اندھا قانون تو کہیں ہوگا۔
جے این یو کیمپس میں ایوان پارلیمان پر حملے کے ملزم افضل گرو کی برسی پر
ہر سال منائی جاتی تھی لیکن ۲۰۰۶ میں سنگھ کی طلبا تنظیم اے بی وی پی نے
اس میں ہنگامہ کردیا ۔اس پر کارروائی کرنے کے بجائے اشتعال انگیزی کا الزام
الٹا منتظمین پر تھوپ دیا گیا جیسا کہ بھیما کورے گاوں میں ہوا ۔بی جے پی
کے قومی رہنما وں نےجے این یو کووطن کے غدار وں کا اڈہ قرار دے دیا۔ ملک
بھر میں طلبا تحریکوں اور حقوق انسانی توظیم ں کے احتجاج کے بعد معاملہ رفع
دفع کردیاگیا لیکن انتخابات کے پیش نظر پھر یہ زندہ ہوگیا ہے۔یہ حسن اتفاق
ہے کہ جب یونیورسٹی کے بے قصور طلباءکو غداری جیسے سنگین الزامات میں
پھنسانے کی تیاری چل رہی تھی اچانک مہاراشٹر کی انسداد دہشت گرد دستہ (اے
ٹی ایس) نے ۵ دسمبر ۲۰۱۸ کو نالاسوپارہ کے ہندو انتہاپسند تنظیموں سے
وابستہ دہشت گردوں کے خلاف چارج شیٹ دائر کرکے اصلی ملک دشمنوں کو بے نقاب
کردیا ۔
سناتن سنستھا اور ہندو جاگرن کے ملزمین پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان لوگوں
نے ’’ہندوراشٹر‘‘ قائم کرنے کے لیے دہشت گردگروہ منظم کیا تھا۔اے ٹی ایس نے
فردجرم میں لکھا ہے کہ وہ شاستر دھرم سادھن نامی کتاب کے اصولوں پر ہندو
راشٹر قائم کرنے کے مقصدسے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے منظم ہوئے تھے ۔ یہ
فرد جرم جے این یو کے مقابلے ۵ گنا ضخیم یعنی ۶ ہزار ۸۴۳ صفحات پر مشتمل
ہے۔ اس میں ماسٹر مائنڈ ویبھو راؤت کے علاوہ شردکلسکر، سدھو انا
گونھدلکر،سری کانت پانگرکر سمیت ۱۲ ملزمین کے نام شامل ہیں۔ ان پر ملک میں
دہشت گردی کا الزام اس لیے عائد کیا گیا کیونکہ ان کے مکانات سے بھاری
مقدارمیں اسلحہ اور گولہ بارودضبط کیا گیا تھا۔اے ٹی ایس ذرائع کے مطابق ان
کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں
کی وجہ سے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے ۔
نالاسوپارہ کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ کلیان سے قریب ڈومبیولی میں بی جے
پی عہدیدار دھننجے کلکرنی کی دکان سے کثیر تعداد میں اسلحہ کے برآمد ہونے
کی خبر آگئی۔ مقامی پولس نے اس کی دوکان پر چھاپہ مارکر تلواریں اور
بندوقیں اپنے قبضے میں لیں ۔ بی جے پی کلیان اکائی کے نائب صدر کو پوچھ
تاچھ کے لیے گرفتار کیا گیا ۔دھننجے کلکرنیبظاہر تحائف کی دوکان چلاتا ہے
مگراس کاروبار کی آڑ میں وہ اتر پردیش اور بہار سےاسلحہ خریدکر ممبئی میں
فروخت کرتا تھا۔ اتفاق سے مال جن صوبوں سے آرہا اور جہاں بک رہا ہے ان
تینوں مقامات پر بی جے پی سرکار ہے اس لیے بے دھڑک یہ کاروبار چل رہا تھا ۔
بی جے پی نے پہلے تو اس سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہا اس کا اب ہم سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔ کلکرنی کی اس حرکت پر کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا اور کچھ نے
اس کی حمایت میں کہہ دیا کہ وہ میلوں ٹھیلوں کے لیے یہ نمائشی اشیاء کرایہ
پردیا کرتا تھا جبکہ کلکرنی خود اعتراف کرچکا ہے کہ قرض کے بوجھ سے نجات کی
خاطر وہ اس گورکھ دھندے میں ملوث ہوگیا ۔ یہ تو مدعی سست اور گواہ چست والی
بات ہوگئی۔
پولیس کو دھننجے کلکرنی کے کاروبار کی خبر اس طرح ملی کہ ڈکیتی کے الزام
میں دولوگوں کو گرفتار ی ہوئی ۔ تفتیش کے دوران ان ملزمین نے اعتراف کیا کہ
ہتھیار بی جے پی رہنما کی دوکان سے خریدا گیاتھا۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ
کلکرنی ممبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں جرائم پیشہ افراد کو ہتھیار
فروخت کرتا ہےلیکن فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑکانے کے لیے بھی تو اس کا
استعمال ہوسکتا ہے۔ اکھلیش یادو نے مایا وتی کے ساتھ اتحاد کے بعد خبردار
کیا ہے کہ اپنی ناکامی کے خوف سے بی جے پی بڑے پیمانے فرقہ وارانہ فساد
کروا سکتی۔ ایسے ماحول میں جبکہ سناتن سنستھا جیسی تنظیمیں اسلحہ کا ذخیرہ
کررہی ہوں اور بی جے پی کے رہنما اسلحہ بیچ رہے ہوں فساد کی آگ بھڑکانا کس
قدر آسان ہے؟
این ڈی اے میں شامل سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اور یوگی
سرکارمیں وزیر اوم پرکاش راجبھر نے بھی علی گڑھ کے اندر خطاب عام میں
اکھلیش سے بھی دو قدم آگے نکل کر پوچھا ’’کیا کوئی بڑا سیاسی لیڈر
ہندو-مسلم فساد میں ماراگیا؟ سیاسی لیڈر اس طرح کے فسادات میں کیوں نہیں
مرتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے بعد راجبھر نے عوام کو تلقین کی کہ ’’ان سیاسی
لیڈروں کو نذر آتش کر دو جو آپ کو مذہب کی بنیاد پر لڑانے کی کوشش کرتے
ہیں، تبھی وہ دوسروں کے درد کو سمجھیں گے اور ’جلانا‘ بند کریں گے۔‘‘ اوم
پرکاش راج بھر کا مشورہ ویسے تو غیر عملی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک
رہنماوں کے دل میں نقصان کا خوف نہ ہوگا اس وقت تک وہ دہشت گردی کی آگ
لگاتے رہیں گے ۔ سرکار کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک و قوم کے لیے فرقہ
وارانہ فساد زہر ہلاہل سے کم نہیں لیکن اس کے پاس بدقسمتی سےاپنی ناکامیوں
کی پردہ پوشی کرکے الیکشن جیتنے کے لیے قوم پرستی اور فرقہ واریت کے علاوہ
کوئی اورچارۂ کار بچا نہیں ہے؟ اسی لیے ریزرویشن اور شہریت جیسے مسائل کو
چھوڑ کر مودی اور شاہ جی رام مندر کا الاپ جپنے لگے ہیں۔ حکومت کی اس
مجبوری کی قیمت عام لوگ چکاتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ انتخابات میں اس
بھاری قیمت کے عوض کیا خرید کرلاتے ہیں؟ |