آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے معمول کے اجلاس کے
آخری لمحات میں آواز گونجی ہے کہ ریاست مدینہ جیسی بات نہیں کرنی چاہیے ‘
اب وہ دورواپس نہیں آ سکتا ہے سب سے بہترین نظام نبی کریم ؐ کا تھا اس سے
اچھا کوئی دور نہیں ہو سکتا ہے جس کے بعد سے بہتری میں کمی آئی ہے یہ مشورہ
دیتے وقت غالباً عمران خان کو مخاطب کیا گیا ہے جبکہ یہ دلیل بھی بیان کی
گئی ہے کہ جواب دہی ضروری ہے جس کے لیے بہترین عمل عوامی انتخاب ہے اگرچہ
اسمبلی کو بھی اپنے اندر سے تبدیلی لانے کا حق ہے مگر سب سے بہتر عوامی
عدالت ہے یہ باتیں بہت اچھی ہیں مگر یہ جواز پیش کرنے والے نہ جانے وہم یا
کسی خوف سے بے چین محسوس ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے قائد نے بھی اپنی حکومت
اپنے ہاتھوں سے نکل جانے سے قبل فرمایا تھا کہ کرپشن کیخلاف چکروں میں پڑنے
کے بجائے ترقی ‘ تعمیر پر توجہ دینا زیادہ اہم ہے جس کا سیدھا مطلب تھا کہ
وہ کرپشن کے خلاف نہیں ہیں نہ کرپشن کیخلاف کارروائی کے حامی ہیں حالانکہ
خود اقتدار میں آتے وقت انتخابی میدان میں آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر
لوٹی دولت نکالنے سمیت دنیا جہاں کے الزامات لگائے تھے ان کے بھائی تو گلا
پھاڑ کر انقلابی اشعار پڑھتے ہوئے مائیک گرا کر دیانت ‘ صداقت کے چیمپئن بن
رہے تھے ان جیسی شدت نہ سہی مگر موجودہ ایوان کے انتخابی مرحلے میں ایسی
کیفیت ان کی یہاں کی جماعت کی قیادت کی بھی تھی اور اب یہ حال ہے کہ احتساب
کے حق میں آوازوں کا توڑ انتخابی عمل کو قرار دیا جا رہا ہے یعنی کہ کرپشن
کرنے والوں کو وہ جو مرضی کریں کرنے دیا جائے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں
کہ وہ اپنے ووٹ کی پرچی سے ان کو سزا دیں یہ کیسی عجیب غریب منطق ہے ‘
عمران خان بطور حکمران ریاست مدینہ جیسی ریاست یعنی پاکستان کو فلاحی مقاصد
پر ہمکنار کرنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے وہ ریاست
مدینہ جیسا نہیں بلکہ اس کے سماج اُصولوں کو پیش نظر رکھ کر مسائل مشکلات
کے دلدل سے نکلنے کو واحد راستہ تصور کرتا ہے یہ مثبت اور عزم ہی کامیابی
کا راستہ ہموار کرتا ہے ورنہ رب ‘ رسول ؐ سے محبت عقیدت کے جتنے مرضی آئین
قانون کے آرٹیکل پاس کر دیں ان کے فرمان تعلیمات باعمل کردار کو اپنا مقصد
معیار بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے اور ووٹ کی پرچی پر احتساب کو چھوڑ
دیا جائے تو پھر ہر اقتدار میں آنے والا لوٹ مار کر ے اور چلا جائے جیسا
اجازت نامہ ہو گا اے جے کے آؤ جاؤ کھاؤ جس کا عشروں سے دور دورہ ہے اس طرح
کی منطقیں پیش کرنا سماج کی خدمت نہیں بلکہ لوٹ مار کرنے والوں کی اوپر سے
نیچے تک ہلہ شیری دینے کے مترادف ہے یعنی ایسا سماج جہاں ایک ضعیف العمر
بزرگ اور اس کی بھتیجی سحرش سلطان کو احتجاج کے حق سے بھی محروم کرتے ہوئے
سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور والے ذمہ داروں کی طرح انداز اختیار کرنا کس کے
دعوؤں نعروں پر طمانچہ ہے جس قصور وار پولیس اہلکاران ہر گز نہیں ان کی
تربیت اور احکامات کی کیفیت اصل مجرم ہے پھر اس بہن بیٹی کا میرٹ پر آ جانے
کے بعد اس احتجاج پر مجبور ہونے کے ذمہ دار فلیگ ہولڈر سے لیکر مجاز حکام
ہیں ناصرف کرپشن بلکہ اس کی ماں کی سابقہ آوازوں کی طرح چوک پر لٹکانا اور
ٹانگیں توڑنا حق بنتا ہے اس نظام سے منسلک 30 فیصد کے علاوہ باقی سب آؤ جاؤ
کھاؤ اے جے کے کا مخفف بتاتے ہیں اور اس کے پیروکار ہیں جن کو بغیر ہاتھ
پاؤں ہلائے مفت کھانے کی عادت ہو چکی ہے کرپشن کی طرح کام نہ کرنے والوں کو
بھی سزاہونی چاہیے جس کا علاج صرف اور صرف نیب پاکستان ہے یہاں کے سماج میں
کون آفیسر یا اتھارٹی ہے جو بڑے کھڑپینچ کو پکڑے سزا دے کسی کو یہ جرات
نہیں ہو سکتی ۔ اگر چیف سیکرٹری ‘ آئی جی پی ‘ سیکرٹری مالیات ‘ اے جی لینٹ
آفیسر نہ ہوتے تو شاید یہاں سوات مولوی فضل اللہ کی طرح الگ الگ علاقوں میں
اپنی اپنی حکومتیں ہوتیں اورآئین قانون دکھاوے کیلئے بھی میسر نہ آتے؟
عمران خان کو مشورہ دینے والے خود اپنے پیروں پر نظر ڈالیں کشمیر کی تحریک
آپ کے نعروں دعوؤں بیانات پر نہیں اپنے شہداء اور حریت عوام کی عظیم
قربانیوں سے زندہ ہے اور کامیاب ہو گی آپ 14 ویں ترمیم کا ڈھنڈورہ پیٹتے
ہیں مگر آج تک اس کے رولز آف بزنس نہیں بنا سکے ہیں ؟
|