جموں کشمیر تیرہ سال کا ہو گیا سوچتا ہوں جب میں اس عمر
میں تھا تو کیا تھا جاڑے دنوں میں سخت سردی میں لنڈے کا کوٹ پہنے اپنے
دوستوں کے ساتھ شرارتوں میں مشغول دھوپ نکلے تو بنٹے گڈیاں جڑی لگے تو بڑے
کمرے میں رضائی میں بیٹھا مونگ پھلی کھاتا ریڈیو سیلون سنتا دکھائی دیتا
ہوں۔لیکن تیرویں سال میں مجھے یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ انقالب روس میں ثمر
قند و بخارا پر کیا گزری تھی۔انہی سالوں میں میری دوستی گلزار بٹ ارشد بھٹی
فاروق اور طاہر شہباز سے ہو گئی تھی جن میں ایک وفاقی محتب اعلی ایک جیل
سپرنٹنڈنٹ ایک صنعت کار اور ایک دکاندار ہے اور میں ہوں کے ارض عرب کی کاک
چھین کر جڑواں شہروں کے ایک شہر میں لفظ جوڑتا ہوں تبدیلی رضاکار بنے اس
وقت کا منتظر ہوں جو حق اور سچ کا راستہ ہے ۔سالگرہ مبارک
چند دنوں سے آنکھوں کا عارضہ تو تھا ہی اٹھتے وقت کمر میں درد بھی اٹھنا
شروع ہو گیا ہے۔لوگ کہتے ہیں شراب ام الخبائث ہے اور اس میں شک بھی کوئی
نہیں لیکن اگر سب دانشور ساتھ دیں تو طے کر لیں کہ شوگر اب الامراض
ہے۔انسان کو گھول گھول کے مارنے والی اس بیماری کو بلی بھی کہا جا سکتا ہے
جو ایک عرصہ تک آپ کے ساتھ کھیلتی ہے اور پھر ایک دم ایک جھپٹا مار کے آپ
کا منہ بھی نوچ لیتی ہے۔اس خمیدہ کمر کے اوصاف حمیدہ کیا ہوں گے جھکنے کے
بعد خیال آیا کہ اب وچوں گئیوں اے مک۔میرے ایک دوست اشفاق سیٹھی تھے کشمیر
کے خطے تعلق تھا ویسے تو یہ اچھا نہیں لگتا کہ لکھا جائے کہ بڑے دلیر گجر
تھے اس لئے کہ گجر نام ہی کافی ہے۔یہ قوم اتنی دلیر ہے کہ اسے کوئی باہر کا
دشمن نہیں چاہئے یہ خود ہی اس معاملے میں خود کفیل ہوتے ہیں۔اس روز ٹاک شو
میں ایک اسی طرح کا بندہ مل گیا بہر حال میں تو اس نفیس بھائی کی بات کر
رہا ہوں جس نے مجھے بیماری کی حالت میں اﷲ کی رضا پر راضی ہونے کا درس
دیا۔کہتے ہیں ایک ولی اﷲ بیمار ہوئے جسم پر کیڑے رینگنے لگے کیڑا زخم سے
گرتا تو اٹھا کر زخم پر سجا دیتے کہتے میرے اﷲ نے اسے رزق اگر ادھر ہی سے
دینا ہے تو مجھے اس کی مدد کرنا چاہئے۔ اﷲ ان کا وہ جہان اچھا کرے جہاں وہ
دوسال پہلے چلے گئے پتہ چلا کہ ایک گردہ فیل ہو گیا ہے فون کیا افسوس کا
اظہار کیا کہنے لوگ نئی بھائی جی افسوس کس بات کا اﷲ نے دو گردے دئے ان سے
۶۴ سال کام چلایا ہے ایک اس نے لیا ہے واویلا کس بات کا اس کا شکریہ جس نے
اتنی مہلت دی سیٹھی گردے دھلائی کے دوران اﷲ کو پیارا ہو گیا ہے۔تکیلف میں
جب ہائے نکلتی ہے تو سیٹھی یاد آ جاتے ہیں بڑا دلیر پیارا گجر بھائی
تھا۔میں اﷲ کی کن کن نعمتوں کا ذکر کروں۔بسنت کی بہار ہے اب تو یہ کھیل ایک
قاتل کھیل ہو گیا ہے باغبانپورے میں گزرے بچپن کی یادیں اپنی پھرتیاں یاد آ
جاتی ہیں فیقو شیخ جس کا گھر چاچے غنی بروالے کے گھر کے سامنے تھا ان کے
گھر کی چھت پر گڈیاں لوٹتے تھے نہ تو مجھے پتنگیں لکھنا اچھا لگتا ہے اور
نہ لوٹنے کو کچھ اور کہنا۔شیخ کے گھر کے ساتھ اصغر شیخ کا گھر تھا اور اس
کے بعد اقبال ارائیں کا البتہ ان گھروں کے درمیان شیخوں کا ویہڑا خالی
تھا۔میں گڈی کی ڈور کے پیچھے بھاگتا بھاگتا شیخ رفیق کے گھر کی چھت کے آخری
کونے پر پہنچ گیا رفتار اتنی تھی کہ اگر رکتا تو سر کے بل گرتا میں نے جب
خالی ویہڑا دیکھا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ چھلانگ لگا دی نیچے اصغر شیخ کی اماں
اس کا ابا اور سیما بہن ایک چنگیر میں چاولا کھا رہے تھے میں ایک ناگہانی
آفت کی طرح ان کے درمیان آن گرا منجھی ٹوٹ گئی میں اٹھا تیزی سے باہر کی
طرف بھاگ گیا۔یہ تیزیاں اور پھرتیاں تیرہ سال کی ہی عمر میں ہو سکتی ہیں اب
تو قدم اٹھاتا ہوں تو لگتا ہے کوئی کام کر لیا ہے۔تیرہ سالہ کھلنڈرا ایک
انسان کا بچہ ہو تو اس کی پھرتیاں کیسی ہوتی ہی اس کی ایک جھلک تو آپ کو
دکھا دی ہے لیکن اگر اخبار کا بچہ تیرہ سال کا ہو تو اس کی طرازیاں اور
تیزیاں جموں کشمیر کی شکل میں آپ اور میں دیکھ ہی رہے ہیں۔سوچتا ہوں کل ہی
کی بات ہییات سے ملاقات ہوئی ملاقات کرانے والے خالد منہاس کو اﷲ لمبی عمر
دے وہ بھی سو سے زیادہ کے ہیں میں کلو کی بات کررہا ہوں عمر کی نہیں امتیاز
بٹ،عامر محبوب اور شہزاد راٹھور چوتھا خالد منہاس۔بٹ صاحب آج کل ٹرمپ کے
دیس میں ہیں راٹھور اور عامر ادھر ہی ہیں۔جس جذبے کے ساتھ اور جس وقار کے
ساتھ یہ اخبار اس کا بانکپن اس کا وقار یقینا لائق ستائش ہی نہیں لائق
مبارک باد بھی ہے مجھے ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔میں اس کے لئے شکر گزار ہوں کہ
آپ مجھے عزت بخش رہے ہیں عزت کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن مجھے اس سے پہلے
ان دو دوستوں اور شہرہ ء آفاق کالم نگاروں کا انجام یاد آ رہا ہے جس سال
انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا آنے والے برس وہ اس دنیا میں موجود نہ تھے۔جب مجھے
نوجوان حسیب نے دعوت دی کہ اسلام آباد پریس کلب میں سالگرہ کی اس تقریب میں
آپ کو بھی یہ ایوارڈ دیا جا رہا ہے تو مجھے خوشی سے زیادہ یہ اس جہان رنگ و
بو سے سے رخصتی کا ایک سندیسہ بھی محسوس ہوا میں نے کہا میاں ابھی تو
تبدیلی آئی ہے بائیس سالہ جد وجہد کے بعد بہار آئی ہے اقتتدار کے مزے لوٹنے
کی بہار ہے آپ جل کیوں گئے؟نوجوان کا جواب حوصلہ بخش تھا کہنے لگا نہیں ایک
پروفیسر ریاض اختر ملوٹی زندہ ہیں اﷲ عمر دراز کرے آمین میں سب سے پہلے
ادارہ کے منتظمین مالکان اور پیارے بھائی کو عامر محبوب کو مبارک باد دینے
سے پہلے ملوٹی صاحب کو درازی ء عمر کی دعا اور سال گزارنے پر مبارک باد پیش
کرتا ہوں ورنہ میں تو اس ایوارڈ ونر کو انور مقصود کے سلور جوبلی کے مہمان
کی طرح سمجھنے لگا تھا۔
کشمیر کے اخبارات کی دلیری اور بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انتہائی نا
مساعد حالات میں بھی انہوں نے خطے میں جاری آزادی کی جد وجہد کی پشتیبانی
کی ریاست کے اس اور اس پار کے لوگوں کو جوڑ کے رکھا۔
پاکستان تحریک انصاف جمہریت کے حسن سے زیادہ اس کی قباحتوں کا شکار ہے اس
نے جب بے رحم اور کڑے احتساب کی بات کی تو اس کے قدموں سے زمین سرکانے کی
کوششیں ہر لحاظ سے شروع ہو گئی۔دو روز پہلے ساہیوال کا واقعہ میں سمجھتا
ہوں وہ بھی ایک مورچے سے داغے گئے ایک گولے سے کم نہیں۔ریاستی اخبارات کو
درپیش مسائل اپنی جگہ لیکن اخبارات کا مزاج اس کی شہہ سرخیوں سے نظر آ جاتا
ہے مجھے جموں کشمیر ایک باوقار جریدے کی شکل میں نظر آیا۔شہزاد راٹھور کے
تجزئے ہلکی پھلکی باتیں بڑے مزے کی ہیں۔اس کے کالم نویسوں سے میں نے بہت
کچھ سیکھا خاص طور پر بشیر جعفری مرحوم،امتیاز مغل مرحوم ،معروف عباسی
مرحوم اور پیارے بھائی امتیاز بٹ خالد گردیزی کی تحریریں مجھے بہت اچھی
لگیں۔ایک کالم نویس ہزاروں لاکھوں خرچ کر سکتا ہے لیکن وہ کبھی اخبار خرید
کر نہیں پڑھتا میرا بھی یہی حال ہء۔جموں کشمیر اور میرے گھر کے درمیان ایک
سڑک حائل ہے گزشتہ تیرہ سالوں میں مجھے اس مفت بری کا ذائقہ نصیب نہیں ہوا۔
اﷲ تعالی بڑا غفور و رحیم ہے میں آج چکار کے رہنے والے جناب نسیم محمود کے
ساتھ بیٹھا تھا کیا شخص ایک پیار اور محبت کی چھتر چھایا الریاض سعودی عرب
کی ایک کمپنی کا بڑا افسر لیکن یاروں کا یار اپنے بیٹے یوسف نسیم کے ساتھ
آئے جو خیر سے اب بار ایٹ لاء بننے والے ہیں اور گزشتہ انتحابات میں گھوڑے
پر سوار ہو کر آئے تھے لیکن گھوڑا سرکسیشیر کو دیکھ کر بدک گیا تھا۔نسیم
محمود کہنے لگے کہ کشمیر کی رسیلی گوجری زبان کے احیاء کے لئے کشمیری
اخبارات کو کردار ادا کرنا چاہئے میں اس موقع پر تجویز دوں گا کہ جمون
کشمیر گوجری کا ایک گوشہ ضرور رکھے یہ اس لئے نہیں کہ میں گجر ہوں اس لئے
کہ اردو کی مادری زبان گوجری ہے۔اﷲ کرے دوسرے اخبارات تک یہ میری بات پہنچ
جائے۔نسیم بھائی کی محفل میں بیٹھیں تو ایسا لگتا ہے کہ گل و گلزار کے ساتھ
مسافرت ہے۔منشی گوہر علی خان چودھری راج کے قصے۔کبھی جموں کشمیر ان جیسے
ہیروں سے بھی استفادہ کرے۔یہ وہ در نایاب ہے جس نے اپنی زندگی میں جنرل
حمید گل جیسے لوگ کی میزبانی کی اور دیار غیر میں اپنے دوستوں کی سر پرستی
کی۔بات جموں کشمیر کی ہے اور اگر کشمیریوں کی بات نہ کی جائے تو بات نا
مکمل ہے سعودی عرب میں جب ۲۰۰۹ میں گیا تو مجھے مختلف شہروں میں مقیم
کشمیری ملے جو مجھے جموں کشمیر کے حوالے جانتے تھے کھڈ گجراں میں عزیزم
جاوید اقبال بڈھانوی کے والد صاحب کی وفات پر گیا تو پتہ چلا کہ دیسی گھی
کی طاقتیں اور جموں کشمیر کی قوت برابر ہے۔حالنکہ پی ٹی آئی کا شروع دن ہی
سے ذمہ دار ہوں اور ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن ہوں۔
جھکی ہوئی کمر کے ساتھ جب زمین کی طرف دیکھنا زیادہ آسان ہے میں اپنے اس
اخبار کے ساتھ تیرہ سالہ رفاقت پر فخر کرتا ہوں۔یہ اخبار میرے سکھ اور دکھ
میں شریک رہا۔یہ رابطے کا بڑا ذریعہ رہا سعودی عرب کے ڈیروں پر رات گئے جب
تھکے ہارے مزدور ڈراؤر یہ اخبار کھولتے ہیں تو مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہوتا
ہے کہ میں ان کے خوابوں میں ہوں جو اس دیس کے اصل ہیرو ہیں۔مجھے اس وقت بڑی
خوشی ہوئی جب میں صاحبزادہ اسحق ظفر کے ہاں اپنے بھانجے کا رشتہ لے کر گیا
تو مجھے اس اخبار کے قاری اس گھر کے چولہے سے ملے۔دوستو! اﷲ نے قلم کی ایسے
ہی قسم نہیں کھائی اس نے واضح کیا کہ یہ قلم قوت ہے۔لوگ سوال کرتے ہیں کہ
آپ کو ٹکٹ نہیں ملا آپ کو اب بھی کوئی عہدہ نہیں دیا گیا میں دل پر ہاتھ
رکھ کر کہہ رہا ہوں بس دعا یہ کیجئے کہ نور قائم رہے اور میرا لیپ ٹاپ باقی
میں جانتا ہوں ظفر علی خانِعطاء اﷲ شاہ بخاری شورش،سید مودودی کے خانوں سے
فیض یاب ہونے والے افتخار کا کالم باعث افتخار ہی میرا اعزاز میرا فخر ہو
گا ہاں دعا یہ بھی کیجئے کہ اﷲ تعالی اس قلم سے کسی کی پگڑی نہ اچھلوانے کی
جسارت کرنے کی ہمت دے۔میں جموں کشمیر میں لکھتا ہوں تو مجھے یہ احساس ہمیشہ
رہتا ہے کہ میرا یہ کالم میرے دوست میری بہنیں پڑھتی ہیں جن پر ہمارا احسان
ہے ورنہ ہم پاکستانیوں نے کشمیریوں کو دیا ہی کیا ہے سوائے زبانی جمع خرچ
اور بھڑکوں کے۔کشمیر کے لوگ اپنی تاریخ اپنے خون سے لکھ رہے ہیں اور جس قوم
کو خون دینے میں مزہ آتا ہو جو اپنی جوانیاں مادر وطن کے لئے دینے میں سرور
محسوس کرے اﷲ اسے کبھی نادم نہیں کرتا۔میری سوچیں اور یادیں اتنی ہیں کہ
لکھتا چلا جاؤں گنبد خضراء کے سائے تلے کشمیریمجاہدین کی پزیرائیاں ان سے
جڑی یادیں۔لیکن آج موضوع تیرہ سالہ کھلنڈرے جموں کشمیر کی سالگرہ کا ہے۔میں
یہ ایوارڈ اپنی اس ماں کے نام کرتا ہوں جس نے چرخے پر بیٹھ کر پونیاں بنتے
ہوئے مجھے گود میں لے کر یہ گیت گنگنایا تھا اﷲ جی میں کلی آں شہر مدینے
چلی آں۔ماں کبھی نہیں بھلائی جا سکتی عامر محبوب جب اپنے دفتر اپنے اخبار
کا افتتاح اپنی ماں سے کراتا ہے تو مجھے اور اچھا لگتا ہے۔اس موقع پر میں
ان کی امی جان کو بھی سلام پیش کرتا ہوں ۔سچ پوچھئے جموں کشمیر کے عملے
کشمیر کے لوگوں کے ساتھ میرا تعلق ایسا ہی ہے جیسا اپنے ننھیال سے ہوتا ہے
جہاں کی ہر برادری کا فرد ماموں یا مملیر ہوتا ہے میں نے کبھی مطلوب
انقلابی،بیرسٹر سلطان محمود راجہ منصور کو اشفاق ظفر جاوید اقبال
بڈھانوی،چودھری اسمعیل لطیف اکبر نسیم محمود سے مختلف نہیں پایا۔اﷲ پاک آپ
سب کو سلامت رکھے ایک اور دعا بھی کر دیجئے کہ اگلے سال بھی اسی قسم کی
تقریب میں شرکت کا موقع ملے آمین
|