یہ آہیں عرش ہلا دیں

19 جنوری دن بارہ بجے سے پورے ملک میں سوگ سی کیفیت ہے۔ہماری حالت بھی ایسی ہے ،نہ کچھ اچھا لگ رہا ہے نہ ہی کچھ پڑھا جارہا ہے۔ٹی وی ،ریڈیو ،اخبارات ،سوشل میڈیا اژدھا بن کر ہمارے پیچھے لگاہوا ہے۔اورہم مثلِ کبوتر آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ ان سے بچ جائیں۔لیکن اندر موجود غم کے آتش فشاں کو قلم وقرطاس سے کم کرنا ہی لکھاری کی دوا ہے۔کیالکھیں؟ کس کس احساس کو قلمبند کریں؟ کہاں سے لائیں لفظوں کے وہ پھول جوعمیر ،اریبہ ،ہادیہ کے معصوم چہروں کی عدالت میں پیش کر سکیں۔ہمیں ایساحوصلہ نہیں ملاجس میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت ہو۔ان بچوں کے سامنے ریاست شرمندہ منھ چھپایے کونہ کھدرا ڈھونڈ رہی ہے۔موجیں دل کی دیواروں پر تیر کی طرح ٹکراتی ہیں تو آنکھیں نم دیدہ ہوجاتی ہیں۔اریبہ ،ہادیہ کے کپڑوں پہ لگا ان کی ماماکالہو ہمیں اندر تک گھاؤ لگادیتا ہے۔یہ کیسی بے حسی ہے کہ انسانوں کے معاشرے میں ریاست مدینہ بنانے والوں کی زبانیں ان بچوں کے بارے غلاظت بکتے ہوئے لرزہ براندام نہیں ہوئیں۔ان بچوں کو تودہشت گردی کا مفہوم تک نہیں معلوم ۔کیسے کہ دیا گیا کہ ان کے والدین داعش کے خطرناک دہشت گرد تھے۔یہ بچے جب بھی دہشت گردی کا مطلب پوچھیں گے تو ماں کو کیا سمجھیں گے؟ بابا کو ملک و قوم کا دشمن جانیں گے؟ یہ کیسا داغ لگا دیا ریاست کے محافظوں نے ان بچوں کے دماغ پر؟ یہ کیسا سوال کھڑا کردیا ان بچوں کے سامنے جس کا جواب وہ تاحیات تلاش نہیں کر پائیں گے۔بچے تو بچے ہوتے ہیں ۔جو دیکھتے ہیں ،سنتے ہیں اسے ہی صحیح سمجھتے ہیں۔ہاتھ کانپ جاتے ہیں ان بچوں کو یتیم لکھتے ہوئے۔یہ بے آسرا ہوئے نہیں ،کیے گئے ہیں۔اور اس کی ذمہ دار ریاست ہے۔

حکومت پنجاب کے وزراء بیانات سے قبل پریکٹس کرلیا کریں۔کتنی ڈھٹائی سے کہاگیا کہ گاڑی سے پہلا فائر کیاگیا ۔اگر ایساتھاتو گولی کہیں تو لگی ہوگی۔سی ٹی ڈی کی گاڑی پر کوئی نشان ہے،نہ ہی کوئی اہلکار زخمی ہوا ہے۔ونڈ اسکرین پر لگی گولیوں کے نشانات سے جھوٹ کا پردہ چاک ہوتا نظر آتا ہے۔اگر گاڑی میں سوار افراد مسلحہ تھے تو ونڈ اسکرین سے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔اس سے اہلکاروں کی سفاکی ،بربریت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔سولہ لوگوں نے تین اطراف سے گولیاں برسائیں،وحشیانہ فعل کرتے ہوئے ان کے ہاھ نہیں کانپے ۔راجہ بشارت کہتے ہیں مصدقہ اطلاع پر کامیاب کاروائی کی گئی۔جناب! ایسے بیانات سے پہلے آئینے کے سامنے یہ بات دہرا کر دیکھ لیں سر شرم جھک جائے گا ۔انٹیلی جنس اطلاع پر اس طرح اپریشن کیا جاتا ہے؟دوسرا بیا ن یہ دیا گیا کہ گاڑی سے اسلحہ ،بارود، خود کش جیکٹس برآمد ہوئیں،جو کہ دراصل مقتولین کے کپڑے ،زیورات اور شادی کا سامان تھا۔چلیں مان لیتے ہیں کہ گولہ بارود تھاتو تابڑتوڑ گولیوں سے وہ بلاسٹ کیوں نہیں ہوا؟پھر ایسی کاروائی کے بعد پولیس ہو یا سی ٹی ڈی ،پکڑے جانے والے اسلحے کی نمائش ہوتی ہے ۔فوٹوسیشن ہوتا ہے۔میڈیا کو بریفنگ دی جاتی ہے ۔پھر سانحہ ساہیوال میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب دینا ریاست پر لازم ہے۔سانحہ ساہیوال سراسر ظلم پرمبنی ہے۔جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

یہ بچے جن کا سب کچھ پَل بھر میں چھین لیا گیا ۔یہ بچے جو آخری بار ماما کی ہاتھوں تیار ہوئے۔یہ بچے جنہوں نے آخری بار بابا سے پیار کیا ۔ان کے کپڑوں سے اوران کی تیاری سے پہچاننا آسان ہے کہ یہ بچے کتنے ناز نخروں سے جی رہے تھے ۔ماں باپ کے آنکھوں کا تاراتھے ۔اور پلک جھپکتے انہیں دہشت گردی کا لیبل لگادیا گیا۔ظلم پہ ظلم حکومتی وزرا ء کے بیانات ہیں۔فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں اگر دہشت گرد ثابت نہ ہوئے تو دوکروڑ امداد دیں گے ۔جناب !ان بچوں کی کفالت بائیس کروڑ عوام کر سکتی ہے۔آپ کی حکومت سے جو عوام مانگ رہی ہے آپ وہ دے دیں۔کراچی سے خیبر ہزروں ایسے صاحب ثروت حضرات ہیں جو ان بچوں کو سونے چاندی سے تول دیں۔عوام کو آپ سے امداد نہیں ،انصاف چاہیے۔آپ اپنا انداز بدلیں اور ان بچوں کے والدین اور بہن کے قاتلوں کے آگے دیوار نہ بنیں۔فوری انصاف فراہم کریں اور ظالموں کی پشت پناہی سے گریز کریں۔سانحہ ساہیوال کی شفاف تحقیق اور مجرموں کو عبرت کا نشان بنا کر تبدیلی کا آغاز کریں۔

بچے بڑے معصوم ہوتے ہیں۔جس عمرمیں ان کے ہاتھوں میں کھلونے دینے تھے، ان کی حفاظت کرنی تھی، اس عمر میں انہیں عدم تحفظ کا شکار بنادیا گیا۔ان کے والدین کو دہشت گرد ڈکلئر کردیاگیا۔حکومت یہ دغلاپن اور انصاف کے رستے کا کھڈا نہ بنے۔حکومت جان لے کہ جس ریاست مدینہ بنانے کی وہ دعوے دار ہے،اس ریاست مدینہ میں کیا ہوتا تھا۔عوامی غیض و غضب سے بڑی ایک اور ذات ہے جس کا اول بھی وہی ہے اور آخر بھی۔اس کی عدالت میں جرم کا اثبات واخفاء کوئی معنی نہیں رکھتا۔وہ یکتا ہے۔اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اگر ان معصوم بچوں کی آہوں نے اس کے آسمان کو ہلا دیا تو عذاب الہیٰ کو پورے ملک کا استغفار بھی نہیں روک سکے گا۔وہ مظلوم کی خوب سنتا ہے اور فوری ایکشن بھی لیتا ہے۔اور مظلوم جب بچے ہوں تو سمجھ جانا چاہیے کہ خطرہ سر پر موجود ہے۔اس سے پہلے کہ یہ آہیں عرش ہلادیں حکام بالا اپنے ضمیروں کو جگا لیں اور سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں۔خدارااگر انصاف نہیں ملا اور ان بچوں کی نظریں آسمان پہ ٹک گئیں تو پھر اس کے قہر سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 99 Articles with 97288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.