سانحہ ساہیوال

تحریر: مہک سہیل،کراچی
جعلی پولیس مقابلے میں جو عام بات دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ بہت آرام سے اپنے کالے کاموں کو چھپانے کی نیت اور ذاتی مقاصد اور دشمنی میں کسی بھی معصوم شہری کو تشدد اور گولیوں کا نشانہ بنادیا جاتا ہے.اب تک پولیس درندگی کی جو مثال سامنے آئی ہے،اْس سے بھی بڑی درندگی یہ ہے کہ معصوم شہریوں کو داعش کا دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی.کراچی میں پولیس کے ایک اعلی عہدے پر تعینات افسر اور اینکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے نام سے مشہور راؤ انوار نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے خوبرو نوجوان نقیب اﷲ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا، پولیس نے روایتی بیان جاری کیا کہ نقیب اﷲ محسود دہشت گرد تھا اور ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ لیکن جب میڈیا نے اس معاملے کو اٹھایا بات اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی، تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ نقیب اﷲ بے گناہ تھا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ راؤ انوار اس سے پہلے بھی درجنوں لوگوں کو ایسے ہی جعلی مقابلوں میں قتل کرچکا ہے۔ لیکن ہوا کیا؟ راؤ انوار صرف معطل ہوا۔کراچی میں ہی گزشتہ برس شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر (مقصود) کو ڈاکو قرار دے کر، فٹ پاتھ پر بٹھا کر سر عام گولی مار دی گئی۔ پولیس نے بیان دیا کہ مقصود کو اس کے ساتھی گولی مار کر فرار ہوگئے لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج نے سارا پول کھول دیا۔ مگر متعلقہ لوگوں کو سزا کیا ملی.بات کرتے ہیں سانحہ ساہیوال کی ہنستا بستا گھرانہ لاہور سے شادی میں شرکت کیلیے چلا۔ چار معصوم بچے، ماں باپ اور ڈرائیور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں خوشی کے تعصرات چہرے پر عیاں کہ چاچا کی شادی پر کیسے اورکب کیا کیا کرنا ہے کہ اچانک کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کی گاڑی نے پہلے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری پنجاب کے اہلکاروں کی ساہیوال میں کار سوار خاندان پر فائرنگ سے کار میں موجود ماں، باپ، تیرہ سالہ بہن اور ڈرائیور کی ہلاکت کا واقعہ جس قدر سفاکانہ اور المناک ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ بچوں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے میاں بیوی ان کے والدین، ان کی 13سالہ بہن اور گاڑی ڈرائیو کرنے والا والد کا دوست تھا، جن پر ہماری آنکھوں کے سامنے گولیاں برسائی گئیں اور ہمارے والدین اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہے۔ اگر کسی مشتبہ شخص کی گرفتاری مقصود ہو تو مطلوبہ شخص کو پہلے وارننگ، پھر ہوائی فائرنگ اور سنگین صورتحال میں ٹانگ پر گولی مار کر روکا جا سکتا ہے لہٰذا اہلکاروں کا ایک خاندان کے پْرامن افراد کو ان میں سے کوئی بھی آپشن استعمال کیے بغیر گولی مار کر ہلاک کر دینا واضح طور پر ناقابلِ معافی جرم ہے، جس کی قانون کے مطابق سزا لازماً دی جانی چاہئے۔ دوسری جانب جاں بحق ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹس سامنے آگئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ واقعے میں خلیل کو سب سے زیادہ 13 گولیاں سینے اور ہاتھ پر لگیں جبکہ گاڑی چلانے والے ذیشان کو 10 گولیاں لگیں۔جلیل کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی بے گناہ تھے اور انہیں سی ٹی ڈی کی جھوٹی رپورٹس پر بیوی بچوں سمیت قتل کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ خلیل علاقے میں ایک جنرل اسٹور چلاتے تھے اور ان کا جرائم کے حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔سی ٹی ڈی کا قیام آٹھ سال پہلے عمل میں آیا تھا اور اس کی خصوصی ذمہ داری شدت پسندی اور دہشت گردی پر نظر رکھنا قرار دی گئی تھی، تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس محکمہ کو محض شبہے میں لوگوں کے قتل عام کا لائسنس دے دیا جائے.عینی شاہدین کے مطابق تھوڑی دیر بعد ہی سی ٹی ڈی پولیس بچوں کو اپنے ساتھ موبائل میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئی، جن میں سے ایک بچہ فائرنگ سے معمولی زخمی ہوا، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی فورس کے اس نام نہاد آپریشن کے فوری بعد جو کہانی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی اْس کے مطابق سی ٹی ڈی نے ایک ’’کامیاب ا?پریشن‘‘ کے بعد داعش سے تعلق رکھنے والے چار ’’انتہائی خطرناک ‘‘’’دہشت گردوں‘‘ کو’ ’ہلاک‘‘ کر دیا اور اْن کے قبضے سے تین اغوا شدہ بچوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔ بعد میں جب میڈیا نے یہ انکشاف کیا کہ ’’بازیاب‘‘ کروائے گئے بچے تو مرنے والوں کو اپنے والدین کہہ رہے ہیں اور یہ کہ ان بچوں کی بڑی بہن تیرہ سالہ اریبہ بھی مرنے والوں میں شامل ہے تو اس پر سی ٹی ڈی کا نیا موقف سامنے آگیا کہ ایجنسی کے اطلاع پر گاڑی کا پیچھا کیا گیا اور یہ کہ گاڑی میں موجود ’’دہشت گردوں‘‘ کی سی ٹی ڈی پر فائرنگ کے نتیجے میں جوابی فائر کیے گئے اور ’’دہشت گردوں‘‘ کو مار دیا گیا۔موقع پر موجود کسی ایک شخص نے بھی سی ٹی ڈی کی کہانی کے حق میں گواہی نہیں دی۔ ابھی تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ گاڑی میں موجود ذیشان یا کسی موٹر سائیکل سوار شخص کی طرف سے سی ٹی ڈی پر ایک بھی فائر کیا گیا ہو۔ سی ٹی ڈی نے تو یہ بھی دعویٰ کیا کہ گاڑی میں سے خودکش جیکٹ اور اسلحہ وغیرہ بھی برآمد ہوا لیکن اس کی بھی کوئی گواہی نہیں ملی، نہ ہی وہاں موجود کسی فرد نے اس بات کی تصدیق کی۔ وڈیو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ماورائے قانون قتل کی کارروائی تھی۔دوسری جانب سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔یہ معاملہ بھی شاید دب جاتا لیکن جیسے ہی میڈیا پر آیا تو پہلے سی ٹی ڈی نے بیان دیا کہ ہلاک ہونے والے اغواء کار تھے اور بعد ازاں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ’میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ دورہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کروں گا‘۔میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا قانون کے رکھوالوں کیلیے کوئی قانون نہیں؟ کیا پاکستان کا قانون انہیں اس بات کی کھلی اجازت دیتا ہے کہ جب چاہو، جسے چاہو مار دو کیا سزا صرف معطلی ہی ہے؟ اگر آج راؤ انوار، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اس جیسے واقعات میں ملوث قانون کے رکھوالوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا تو ہمیں یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔ کراچی میں نقیب اﷲ محسود کی ہلاکت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ساہیوال کے اس واقعہ میں والدین دہشت گرد یا ان کے سہولت کار تھے تو کیا ان کی 13سالہ بچی اریبہ بھی اس میں شریک تھی؟ اسے کس گناہ کی پاداش میں ہلاک کیا گیا؟ ریاستِ مدینہ میں دریائے نیل کے کنارے مرنے والے کتے کی ذمہ داری خلیفہ وقت اٹھاتا تھا اس وقت پوری قوم کی نظرے حکومت پر ہیں قصورواروں کو گریبان سے پکڑ کر ان سے حساب لیں اور سزا دیں ریاست مدینہ ثانی کی دعویدار حکومت کیلیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس میں ملوث اہلکاروں کو تختہ دار پر لٹکائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی جرات نہ کرسکے۔ لیکن اگر آپ نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی تاریخ دہرائی تو پھر ہماری قسمت پر تو رونا ہی باقی رہ جاتا کیونکہ پاکستانی قوم اگر دہشت گردوں سے بچ جائے تو اسے قانون کے رکھوالے مار دیتے ہیں۔بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل
۔۔۔۔۔۔

Talhan Khan
About the Author: Talhan Khan Read More Articles by Talhan Khan: 63 Articles with 48681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.