اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کی نیویارک
میں سال 2019کی ترجیحات سے متعلق پریس کانفرنس اس لئے بھی اہم ہے کہ اس میں
انھوں نے تنازعہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔
اگر چہ ایک پاکستانی صحافی کا سوال کہ بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق پامال
کر رہا ہے اوراس نے وزیراعظم عمران خان کی بات چیت کی پیشکش پر بھی مثبت
جواب نہ دیا ، جس سے کشیدگی بڑھ گئی ہے، اس کا ردعمل یا کمنٹس طلب کئے
گئے۔جس پر سیکریٹری جنرل نیتسلیم کیا کہ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے
متعلق مفصل رپورٹ جاری کی ہے، جب کہ وہ خود پاک بھارت مذاکرات کے لئے اپنا
اثر و رسوخ استعمال کرنے کی پیش کش کر رہے ہیں۔ مگر اب تک کوئی کامیاب پیش
رفت نہیں ہو سکی ہے۔ سیکریٹری جنرل صاحب کو امید ہے کہ آخر کار دونوں ممالک
بامعنی بات چیت کا راستہ اختیار کریں گے کیوں کہ دونوں کی بین الاقوامی
معاملات میں خاص اہمیت ہے۔ پاکستان نے مسلہ کشمیر کے حل کے لئے سفارتی مہم
تیز کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو واضح
ہدایات ہیں۔ اسی تناظر میں دنیا بھر میں پاکستانی سفارتی مشنز نے کشمیر کو
اپنی ترجیحات میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ وزارت خارجہ کے تازہ میمو
جاری کے مطابق پاکستان مسلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنا چاہتا ہے۔
بھارت کو بار بار بات چیت کے پیغامات دیئیگئے ہیں۔ مگر وہ جارحیت اور ہٹ
دھرمی پر قائم ہے۔ وہ کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ اس
سے قبل شمالی ائر لینڈ اور مشرقی تیمور ماڈلز کو بھی مدنظر رکھا گیا ۔
عمران خان حکومت کی کوشش ہے کہ مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے نئے انداز میں
مہم چلائی جائے۔ جب کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی کبھی سرگرم ہوئی تھی۔ میاں
نواز شریف کی اٹل بہاری واجپائی، نریندر مودی کے ساتھ براہ راست ڈپلومیسی
چل رہی تھی۔ پرویز مشرف نے بھی واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ بات چیت کی
اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ کشمیر حل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔سابق وزیر
خارجہ خورشید قصوری نے مسلے کے نٹ اور بولٹ کسنے کی بات کی۔ان کے دعوی کے
مطابق کسی معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے۔ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو صاحب
نے ہزار سال تک جنگ کی بات کی۔ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کا بھی کبھی چرچہ
تھا۔ محترمہ بینظیر صاحبہ نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ بات
چیت جاری رکھی۔ محترمہ دہلی میں میڈیا کو بتایا تھا کہ کہ مسلہ کشمیر کا حل
مستقبل پر چھوڑ دیا جائے گا۔ آصف علی زرادری حکومت نے بھی یہی لائن اختیار
کی کہ پاک بھارت دوستی کریں اور کشمیر کا حل مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ مسلہ
کشمیر کو منجمد کرنے کی صدائیں کئی بار سنائی دی گئیں۔ مگر کشمیر میں تحریک
آزادی اور لازوال قربانیوں کے بعد ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ کشمیریوں نے بھی
سمجھا کہ وہ بار بار تحریک آزادی کو کیسے منظم کر سکیں گے۔ جو ہونا ہے آج
ہی ہو۔ تا ہم یہ بھی ایک رائے رہی کہ اگر آج کی حکومت یا حالات نا موافق
ہیں تو بلا شک تحریک کو آئیندہ نسل پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر تحریک آزادی کے
حالات نے اس کی اجازت نہ دی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلہ کشمیر کا حل فوجی نہیں۔
جس کا اعتراف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی صدر ماریہ فرننڈا اسپینوزا نے کیا
جن کا دورہ پاکستان مکمل ہو چکا ہے۔ گو کہ بندوق سے تباہی پھیلتی ہے۔ تا ہم
حل تک پہنچنے کے لئے بندوق کوکشمیری مجاہدین نے سیڑھی کے طور پر استعمال
کیا۔ مگر کسی حل کے لئے تمام فریق سیز فائر کریں جو غیر مشروط ہو۔ اس سیز
فائر کی نگرانی اقوام متحدہ براہ راست کر سکتی ہے۔ اس کے فوجی مبصرین
سرینگر، مظفر آباد، راولپنڈی اور کشمیر کے آر پار موجود ہیں۔ وہ جنگ بندی
لکیر کی نگرانی کے ساتھکشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے میں کردار ادا کر
سکتے ہیں۔ بات چیت پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف دو طرفہ نہ ہو، دو طرفہ
بات چیت کا 71سال میں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ مذاکرات سہ فریقی ہوں۔ پاک
بھارت اور کشمیری اس میں ایک میز پر شامل ہوں۔ یا اقوام متحدہ کا نامزد مشن
یا ایلچی پاکستان، بھارت، کشمیریوں سے بات چیت کرے ، ، انٹرا کشمیر بات چیت
ہو، پاک بھارت حکومتوں میں بات چیت ہو، ،چین اور یو این بھی بات چیت میں
شامل ہوں۔ تیسرا فریق پاک ، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان بات چیت کی
کوارڈی نیشن اور معاونت کرا سکتا ہے۔ مگر بھارت کا ردعمل منفی رہا ہے۔جیسا
کہ اقوام متحدہ کی کشمیر میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ پر نئی دہلی کا
ردعمل جارحانہ تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت عالمی رہنما پاک بھارت دونوں کی رضامندی
سے تنازعات حل کرانا چاہتے ہیں۔ اس میں بھارت رضا مند نہیں۔ اگربھارتمستقبل
میں بھی کشمیر کو دوطرفہ مسلہ قرار دے کر عالمی ثالثی یا معاونت سے بچتا
رہا ، اور دنیا بھارتی موقف تسلیم کر کے خاموش رہی تو کشمیریوں کی نسل کشی
جاری رہے گی اور مسلہ کشمیر کبھی حل نہ ہو گا۔ اس لئے کشمیر کو اقوام متحدہ
کے چارٹر کے چیپٹر 7کے تحت لانا ضروری ہو گا، تا کہ مشرقی تیمور ، بوسنیا
اور جنوبی سوڈان کی طرح اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل در آمد کے لئے
کسی ملک کی رضامندی کے بغیر بھی کارروائی کر سکے۔ اس چیپٹر کے آرٹیکل 39تا
51میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی ملک جارحیت کرتا ہے یا کسی ملک کی
وجہ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے تو سلامتی کونسل از خود نوٹس لے کر اس کے
خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ جب کہ کشمیر کو چیپٹر 6کے تحت رکھا گیا ہے۔ جس
کے آرٹیکل 33تا 38تک تنازعات کے حل کے لئے باہمی یا دو طرفہ بات چیت پر زور
دیا گیا ہے۔ کسی ایک ملک کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان
لاکھ باربات چیت کی رٹ لگائے ، بھارت کی اگر مرضی نہ ہو تو کچھ نہیں ہو
سکتا۔ مگر آج کے حالات میں جب پاک بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں تو مسلہ کشمیر پر
ایٹمی جنگ کا بھی خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ اس خطرہ کی سنگینی کو عمران خان
حکومت دنیا پر واضح کر سکتی ہے۔ اس سے عالمی امن خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ اس
لئے سلامتی کونسل از خود کارروائی کرتے ہوئے مشرقی تیمور، بوسینا اور جنوبی
سوڈان کی طرح مسلہ کشمیر حل کرائے۔اس کے لئے مسلہ کشمیر کو چیپٹر 7کے تحت
لانے کے لئے قرارداد سلامتی کونسل میں لانی لازمی ہے۔ |