آہ! شیخ الحدیث حافظ محمد خان نوریؒ

تحریر:محمد کاشف انور
کائنات میں کچھ ایسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا کہ جن کے نور علم سے ایک جہاں منور ہوا وہ لوگ گو خود تو پنہاں رہے مگر ان کا ذکر آسماں میں گونجتا رہا ملائک نے بھی جن کے ذکر کو حرز جاں بنا لیا علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آج ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے جو شجر ملت میں پھول بن کر چمکنا چاہتے ہیں اور پھل بن کر کام و دھن کو شیریں کرنا چاہتے ہیں، ہمیں ان کی ضرورت ہے جو کھاد بن کر زمین میں جذب ہوتے ہیں اور جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں، جو مٹی اور پانی میں مل کر پھول پیدا کرتے ہیں، جو خود فنا ہوتے ہیں اور پھولوں میں لذت و شیرینی پیدا کرتے ہیں، ہم کو ان کی ضرورت نہیں ہے جو کاخ و ایوان کے نقش و نگار بن کر نگاہ نظارہ یار کو خیرہ کرنا چاہتے ہیں ، ہم ان بنیاد کے پتھروں کو چاہتے ہیں جو زمین میں دب کر اپنے اوپر عمارت کی مضبوطی کی ضمانت قبول کرتے ہیں"" نواب بہادر یار جنگ کے یہ تاریخی الفاظ گو تحریک پاکستان کے سامعین کے لیے تھے مگر میں نے علی وجہ البصیرت ایک شخصیت کو دیکھا جس نے اپنے مربی و محسن کی صدائے قلندرانہ پر لبیک کہتے ہوئے واقعی ایک ایسا فرد بن کر دکھایا جس نے اساس و بنیاد کا فریضہ سر انجام دیا1939 میں سر زمینِ ابدال ضلع سرگودھا پہ جنم لینے والا وہ مرد قلندر کہ جو افق عالم میں آفتاب بن کے چمکا اور نگاہ فیض سے لاکھوں ستارے جنم کر گیا میری مراد میرے انتہائی مشفق و محترم مربی و محسن استاذ گرامی علامہ حافظ محمد خان نوری ابدالوی رحم اﷲ تعالی علیہ آپ نے 1939 میں پیدا ہو کر 1957 تک اپنے ہی گاں ابدال میں ابتدائی تعلیم اور قرآن کریم حفظ کیا مڈل پاس کر کے 1957 میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں پہلے طالب علم کی حیثیت سے تشریف لائے اور دس سالہ تعلیمی نصاب مکمل کر کے اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی جب تعلیم مکمل ہوئی تو آپ کے استاذ گرامی پیر محمد کرم شاہ الازہری رحم اﷲ علیہ گویا ہوئے کہ بیٹا میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مسند تدریس سنبھال لیں بس حکم سننا تھا کہ شیخ کے قدموں میں بیٹھ گئے ماسٹر کر چکے تھے مگر دنیاوی آسائشوں کی خواہش کو ترک کر کے استاد گرامی کے حکم پر سر جھکایا اور پھر 2018 تک #قا ل قال رسول اﷲ ؐ کی صدا بلند کرتے رہے وقت کا اتار چڑھا زمانے کے گلے شکوے آندھی و بارش آپ کو اپنے مشن سے کبھی نہ روک سکی شیخ کریم کے وصال کے بعد جب انھیں ان کے استاد محترم کے صاحبزادگان نے یہ کہا کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں اگر چاہیں تو ہم آپ کے پیریڈز کی تعداد کم کر دیتے ہیں تو ادھر سے فقر غیور کا شہنشاہ محمد خان نوری بولا بیٹا مجھے جو کام میرے شیخ نے ذمے لگایا تم کچھ بھی نہ دو مگر مجھ سے میرا وہ کام مت چھینو میں مرتے دم تک اپنے شیخ کا حکم بجا لانا چاہتا ہوں آج وہ ماہ تمام ہم سے بچھڑ گیا لاکھوں طلبا یتیم ہو گئے اور ایک وفا کا استعارہ کہ جس نے اپنے مرشد و استاد کے ساتھ وفا نبھاتے ہوئے عمر گزار دی مجھے حضرت جون یاد آئے جس کے مصداق میرے بابا جان میرے استاد نوری صاحب ہیں جون فرماتے ہیں کہان کی نگاہ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ عمر گزار دیجئے عمر گزار دی گئی سب احباب سے درخواست ہے کہ فاتحہ شریف پڑھتے ہوئے اس مرد قلندر کی مغفرت کی دعا کیجیے حضرت_ قبلہ محمد خان نوری چل بسے خدمت_اسلام کر کے خوب وہ رخصت ہوئے تھے وہ نوری اور پھیلاتے رہے وہ نور ہی وہ ضیایے دین و ملت سے ہی وابستہ رہے خدمت_ اسلام میں وہ ایک روشن نام ہیں روشنی ہوتی رہے گی اب بھی ان کے نام سے ظلمتوں میں روشنی کرتے رہے استاذ جیتا ابد جلتے رہیں گے ان کے نورانی دئیے ایک عالم کو بنایا جس نے عالم دین کاہم بھی ہیں مدحت سرا ایسے عظیم استاذ کے خدمتیں جن کی مسلم اور وفائیں بے مثا ل کیا ہی استاذ_ گرامی کو ملے ہیں مرتبے زندگانی بھی تھی نوری اور ہے نوری وصال قبر میں بھی ہوں گے بابر نور کے ہی سلسلے۔

atiq ur rehman
About the Author: atiq ur rehman Read More Articles by atiq ur rehman: 125 Articles with 132005 views BA HONOUR ISLAMIC STUDIES FROM INTERNATIONAL ISLAMIC UNIVERSITY ISLAMABAD,
WRITING ARTICLES IN NEWSPAPERS SOCIAL,EDUCATIONAL,CULTURAL IN THE LIGHT O
.. View More