قوم ایک داغدار بادشاہ کے ساتھ ہمسفر بن کر معیشت اور
ترقی کا سفر طے کر رہی تھی ۔ امن قائم ہو رہا تھا ۔ سرمایہ کاری کا رخ
ہماری جانب آکر سڑکوں کا جال بچھا کر بے روزگاری ختم کرنے کا عزم لیے
ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ چکا تھا کہ یکا یک کچھ لوگوں کے غول سے اور
ایک انجانے ڈھول سے ایک چوک پر شور بلند ہوا
چور چور چور !!!
پھر تبدیلی آگئی
تبدیلی آنے کے بعد سب کچھ تبدیل ہو گیا
ڈالر کا ریٹ تبدیل ہو کر بڑھنے لگا
دکانیں تباہ ہو نے لگیں کاروبار میں مندیاں ہونے لگیں ، آبادیاں رونے
لگیں ۔ رونقیں کھونے لگیں ۔ بزدار سمجھدار اور اسد خزانچی سے غلطیاں
ہونے لگیں۔
عورتیں اس پاؤڈر سے کپڑے دھونے لگیں جو کہتے ہیں اور جو اب پوری قوم
کہنے پر مجبور ہے کہ اس سے تو داغ والے ہی اچھے تھے۔
داغ تو اچھے ہوتے ہیں |