کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

عالم ِ انسانیت میں فی الحال جمہوریت کا بول بالہ ہے۔ ہر کوئی اس نظام کا ایسا دلدادہ ہے۔ اس لیے ہرکوئی اصلی یاجعلی جمہوریت کا چولا اوڑھ لیتا ہے یعنی عبدالفتاح السیسی، ولادامیر پوتن ، شیخ حسینہ واجد اور شی جن پنگ جیسے آمریت کے علمبردار بھی انتخابی تماشے کرکےخود کو جمہوری ثابت کرتے ہیں ۔جمہوریت نوازوں کا دعویٰ ہے کہ یہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بہترین نظام ہے۔ کسی بھی تخم کے بہتریا بدتر ہونے اندازہ اس کی فصل سے لگایا جانا چاہیے۔ انسانی فلاح و ترقی کی کئی جہتیں ہیں جن میں سب سے اہم اخلاق و تہذیب ہے لیکن اس میں اختلاف ہے۔ عقائد و نظریات کے لحاظ سے اقدار و معیار مختلف ہیں اور پھر اسے ناپنے کا پیمانہ بھی مشکل ہے ۔ معاشی سطح پر آسانی یہ ہے کہ خوشحالی کو اعدادو شمار کی مدد سے ناپا اور تولا جاسکتا ہے۔اس لیے جن ممالک میں جمہوری نظام پھل پھول رہا ہے ؟ وہاں کی معیشت کا معروضی جائزہ ساری قلعی کھول دیتا ہے اور علامہ اقبال کایہ شعر یاد دلاتا ہے؎
گرمئ گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری

انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم اس بین الاقوامی تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ جملہ ۸۵ امیر ترین افراد کی دولت دنیا کی نصف غریب آبادی کی دولت کے برابر ہے۔ ایک فیصد لوگوں کے پاس باقی ۹۹ فیصد باشندوں سے زیادہ دولت ہے۔ یہ ارتکاز جن مملک میں ہوا ہے ان میں اکثر جمہوری ممالک ہیں ۔ یہ تفاوت کیسے جنم لیتا ہے اس بابت برطانوی تنظیم 'آکسفام' نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد اپنی دولت میں اضافے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جس کا بالواسطہ نقصان کم آمدنی والے افراد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جمہوری نظام سرمایہ داروں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے۔ اسی کے چلتے میہول چوکسی جیسے لوگ عوام کی دولت چرا کر فرار ہوجاتے ہیں اور کسی بے نام جزیرے کی شہریت اختیار کرکے ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت کے پاسپورٹ سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امیر طبقہ ٹیکس بچاتا ہے اور اپنی دولت کو حکام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے اور اس میں مزید اضافے کے لیے ہر ممکن جتن کرتا ہے۔ مالی معاملات میں عدم شفافیت، ٹیکسوں کی چوری اور فلاحِ عامہ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری نہ کرکے مال دار طبقہ نہ صرف اپنی مالی اور سیاسی حیثیت مستحکم کرتا ہے بلکہ اس دولت کی اگلی نسلوں تک منتقلی بھی یقینی بناتا ہے۔ کیا ملوکیت اور آمریت میں یہی سب نہیں ہوتا ؟ رپورٹ کے مطابق یورپ میں حکومتوں کے بچت اقدامات سے مالدار طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا اور ان اقدامات سے زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے متاثر ہوتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ۲۰۱۷؁ میں دنیا کی ۷ ء۳ ارب لوگوں کے مال و متاع میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آکسام کی رپورٹ ہر سال یہ آئینہ دکھاتی ہے لیکن لوگ اس سے آنکھیں موند لیتے ہیں۔ یہ انکشاف کیا جاتا ہے کہ اس نظام کے تحت ہرروز امیر آدمی امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب کی غربت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہےاس کے باوجود لوگ اس کی فسوں کاری میں مبتلا رہتے ہیں یعنی قفس کو آشیاں پر قیاس کرتے ہیں بقول اقبال ؎
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ یہاں بھی امیری اور غریبی کے درمیان کی کھائی وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ ہندوستان کی ۵۰ فیصد لوگوں کے پاس جو دولت ہے اس سے زیادہ صرف ۹ امیروں کے قبضے میں ہے۔ ہندوستان کے ۱۰ فیصد لوگوں کے پاس ۳ء۷۷ فیصد اثاثہ ہے ۔ان میں سے ایک فیصد ۵۳ء۵۱ فیصد پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جبکہ ۶۰ فیصد باشندوں کے پاس صرف ۸ء۴ فیصد دولت ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے اندر ارب پتی افراد کی تعداد ۱۰ گنا اضافہ ہوا۔ان کروڈ پتی لوگوں کا اثاثہ ۲۰۱۸؁ میں ہر دن ۲۲۰۰ کروڈ کی شرح سے بڑھا یعنی ان کی دولت ۳۹ فیصد بڑھ گئی جبکہ دنیا بھر کے امیروں کی آمدنی کا اوسط ۱۲ فیصد بڑھا ۔ اس طرح ہندوستان کے امیر دیگر ممالک سے تیز ہیں جبکہ دیگر ۵۰ فیصد زیادہ لوگوں کے اثاثہ میں صرف ۳ فیصد اضافہ ہوا۔ اس سے زیادہ تو مہنگائی کی شرح ہے یعنی حقیقی اثاثے میں کمی واقع ہوئی۔ ہندوستان کے دس فیصد لوگ قرضدار ہیں ۔ ان میں نیرو مودی جیسے لوگعیش کرنے کے لیے ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں جبکہ غریب کسان خودکشی کرکے دارِ فانی سے کوچ کرجاتا۔ علامہ اقبال نے جمہوریت کےاس کریہہ چہرے کی کیا خوب عکاسی کی ہے ؎
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام
چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449925 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.