شاہ سلمان کے اقتدار کے چار سال

آج سے چار سال قبل اسی مہینے میں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے مسند اقتدار سنبھالی، سعودی فرمانروا شاہ سلمان ملکی سیاست کے ایک انقلابی رہنما ثابت ہوئے، اس دوران انہوں نے کئی دلیرانہ فیصلے کیے،ان کے دورمیں سعودی عرب میں کافی تبدیلیاں آئیں جس سے مملکت سعودی عرب ترقی کے نئے راستے پرگامزن ہوا ہے ۔

جب ہم شاہ سلمان کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں ایک انتہائی تجربہ کار عام روش سے ہٹ کر ایک عبقری شخصیت نظر آتے ہیں، 1935 میں انکی پیدائش ہوئی اور اپنے والد شاہ عبد العزیز کے زیر سایہ پروان چڑھے، صرف دس سال کی عمر میں انھوں نے قرآن کریم حفظ کرلیا، بعد ازاں حرم مکی کے امام اور سعودی شہزادوں کے مربی خاص شیخ عبد اﷲ خیاط کی زیر نگرانی شرعی علوم سے آراستہ ہو کر کاروبار سلطنت میں ہاتھ بٹانے لگے، چنانچہ ان کی ہونہاری کی بنا پر 1955 میں صرف بیس سال کی عمر میں انھیں سعودی دار الحکومت ریاض کا گورنر بنا دیا گیا، اور وہ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک اس منصب پر برقرار رہے۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے زمام اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کرتے ہوئے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کواس عہدہ سے سبکدوش کردیا اور اس کے ساتھ اپنے صاحبزادے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کردیا، جو وزیر دفاع کی ذمے داری بھی ادا کررہے ہیں، جس سے آل عبدالعزیز کی تیسری نسل کے لیے حکمرانی کے دروازے کھل گئے، کیوں کہ سعودی عرب کے 1932 میں وجود میں آنے سے لے کر اب تک قریبا 90سال ہونے کو ہیں اور اس دورانیے میں صرف سات حکمران ہی اس منصب تک پہنچ پائے، لیکن جلدہی انہوں نے شہزادہ نائف کو بھی ولی عہدی سے سبکدوش کردیا اور اپنے صاحبزادے محمد کو نیا ولی عہد مقررکیا ۔

نوجوان ولی عہد کی تقرری سے انہوں نے بہت سارے خدشات کو رفع کردیا، خصوصا کچھ عرصے سے ملک اور بیرون ملک یہ بات تواتر سے کہی اور سنی جارہی تھی کہ سعودی عرب میں بوڑھوں کی حکمرانی ہے ۔محمدبھی اپنے والدکی طرح ذہین اورمتحرک ہیں انہوں نے بھی اقتدارمیں آنے کے بعدکئی تبدیلیاں اوراہم فیصلے کیے ہیں ان تمام فیصلوں سے یہ بات ضرور عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ فرمانروا تیز تر اصلاحات کے ایجنڈے پر گامزن ہیں اور اہم فیصلے باآسانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سعودی فرماں رواں نے جب اقتدارسنبھالاتوعرب اسپرنگ مشرق وسطی کے حکمرانوں سے اقتدارچھین رہی تھی جبکہ دوسری طرف ایران کے جوہری پروگرام اوراس کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرونفوذسے مملکت سعودیہ کی سلامتی کوخطرات لاحق ہورہے تھے ایسے میں سعودی فرماں رواں نے یمن کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کابروقت تدارک کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے خلاف جنگ شروع کی اورکسی ناکسی حدتک اس جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے اگرچہ غیر متوقع طور پر اس جنگ کا دورانیہ طویل ہونے سے سعودی عرب کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور ملک کے دفاعی اخراجات میں سال بہ سال تیزی سے اضافہ دیکھنے میں نظر آرہا ہے اور اس کی بڑی وجہ مشرق وسطی کی بدلتی صورت حال اور بگڑتا ہوا طاقت کا توازن ہے۔ سعودی عرب نے اپنے دفاعی اخراجات میں قریبا 15 ارب ڈالرز کا اضافہ کردیا ہے، جس کے بعد سعودی دفاعی بجٹ 46 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 60 ارب ڈالرز ہوگیا۔

اس کے باوجود سعودی عرب کا بجٹ خسارہ کم ہورہا ہے اور ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے۔ سعودی عرب بہتری کے لیے مسلسل تبدیل ہورہا ہے ،اب سعودی عرب میں خواتین کاریں چلا رہی ہیں حالانکہ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یہ ناممکن ہے۔سعودی عرب مسلسل جدیدیت کے راستے پر گامزن ہے اور مستقبل کی جانب ایک ریکارڈ رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جبکہ اس نے اس کے ساتھ ساتھ اپنی اصلیت کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔

حرمین شریفین کولاحق خطرات کاسدباب کرنے کے لیے دسمبر2015 میں سعودی عرب کے بادشاہ سلامت نے 34ممالک کے ایک اتحاد کا اعلان کیا، اس عسکری اتحادکی قیادت سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کررہے ہیں اس عسکری اتحادکے اثرات ظاہرہوناشروع ہوگئے ہیں اورسعودی عرب کی سلامتی کولاحق خطرات میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ سعودی کابینہ نے اپنے جوہری توانائی کے پروگرام کی قومی پالیسی منظور کی ہے جس کے بعدسعودی عرب نے آئندہ دو دہائیوں میں 16 جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

سعودی فرماں رواں نے معاشی میدان میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں ،جس کے لیے وژن 2030 کا اعلان ہے اس کامقصد اپنی معیشت کا کلی انحصار تیل کی آمدنی سے ختم کرکے اس میں تنوع پیدا کرنا ہے۔ اس وژن کو ترتیب دینے کی ضرورت اس وجہ سے درپیش آئی کہ حالیہ برسوں میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے سعودی عرب کی معیشت کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ 1990 کی خلیج کی جنگ کے بعد پہلی دفعہ اس نے عالمی مالیاتی اداروں سے قریبا دس ارب ڈالرز کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق 2020 میں ہمارا ملک دنیا میں تیل کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھے گا، یعنی محض چار برس میں تیل کی برآمدات پر سے اپنا انحصار ختم کرچکا ہوگا اور بہت جلد عالمی سرمایہ کاری کے میدان میں اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ سعودی عرب پہلی دفعہ اپنے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے سرکاری ادارے آرامکو کے پانچ فیصد حصص بھی فروخت کرے گا اور یہ عالمی تاریخ کی سب سے بڑی پبلک آفرنگ ہوگی، جس کی مالیت ایک اندازہ کے مطابق 125ارب ڈالرز کے قریب ہوگی۔

آرامکو کے حصص کی فروخت کا بنیادی مقصد اس سے حاصل شدہ رقم سے دنیا کا سب سے بڑا خودمختار wealth fundقائم کیا جائے گا جس کی مجموعی مالیت 20کھرب ڈالرز سے زیادہ ہوگی اور اس فنڈ کی خاص بات یہ کہ یہ سعودی عرب کے نان آئل ریونیو کے موجودہ حجم کو مزید چھ گنا تک بڑھادے گا، اس کے علاوہ اس فنڈ کے ذریعے مختلف اثاثوں میں سرمایہ کاری، خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ ملازمتیں، تیل کے علاوہ دیگر صنعتوں کا قیام، کان کنی سے لے کر فوجی سازوسامان کی تیاری وغیرہ کی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ شاہ سلمان کے دورمیں پاک سعودی تعلقات تاریخ کے بلندترین سطح کوچھورہے ہیں سعودی عرب سی پیک جیسے گیم چینجرمنصوبے میں شامل ہواہے اورگوادرمیں وہ آئل ریفائنری لگارہاہے اس کے ساتھ مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کوتین ارب ڈالرکاامدادی پیکیج دیاہے، فروری میں 14ارب کی بڑی سرمایہ کاری کامنصوبہ لے کر سعودی سعودی وفد پاکستان آ رہا ہے،مزید سعودی عرب تین ارب ڈالر کا ادھار تیل بھی دے گا۔جبکہ پاکستان نے بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسلام آباد نے اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو اعتماد میں لیا افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مابعد انخلا جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔

شاہ سلمان کے ان انقلابی اقدامات کی وجہ سے استعماری طاقتیں آنے روزکوئی ناکوئی سازش کرتی رہتی ہیں کبھی صحافی کے قتل میں پھنسایاجاتاہے تواب یورپی یونین نے سعودی عرب کودہشت گردی کی مالی معاونت کرنیوالے ممالک میں شامل کرلیا،فہرست میں ایران،عراق اورشام سمیت16ممالک شامل ہیں۔مگران سازشوں کے باوجود سعودی عرب شاہ سلمان اورمحمدبن سلمان کی قیادت میں ترقی کے راستے پرگامزن رہے گا اورکامیابی کی نئی منازل طے کرتارہے گا۔

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 32755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.