یہ بات ہے ربیع الاول کے مہینے کی کہ جب اورگنائزنگ کمیٹی
کے کچھ ممبرذ ہمارے کلاس روم میں آِئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ جشن عید
میلاد کے سلسلے میں سالانہ پروگرام کا انعقاد کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں
اسٹیج پرفامنس کے لئے آپ سب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر میرا بھی جی
چاہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کچھ نذرانہ عقیدت
پیش کیا جائے۔ آج تک اس سلسلے میں جو کچھ میں کرتا آیا تھا وہ یہ تھا کہ
کوئی حمد، نعت یا قصیدہ ہدیہ کلام کیا کرتا تھا۔ جس لمہے کو میں نے اس
میلاد میں حصہ لینے کا سوچا اگلے ہی لمہے یہ خیال آیا کہ اگرچہ یہ کرنے سے
مجھے ژواب تو حاصل ہو گا لیکن بطور مسلمان ہمارا اس بات پر بھی کامل یقین
ہے کہ بروز قیامت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت کریں گے
اور ہمیں جنت میں بھیج دیا جائے گا، گویا صرف ژواب کی نیت سے بڑھ کر کچھ
ایسا کیا جائے کہ جس سے ہماری یہ دنیا بھی جنت بن جائے۔ چنانچہ میں نے میں
نے ہمارے بےدرد معاشرتی رویوں کی عکاسی کرنے کے لئے ایک تقریر کرنے کا
فیصلہ کیا لیکن اب تک بھی مجھے اپنی تقریر کے عنوان کا علم نہ تھا۔ حالانکہ
بعدازاں میں نے اپنی تقریر کو عنوان سمیت ترتیب دے دیا لیکن کچھ ٹیکنکل
بنیادوں پر اس میلاد پر اسے پیش نہ کیا جا سکا۔
'اقبال شناسی'جو کہ آج کے ہر طالبعلم کی ضرورت ہونی چاہیے، خوش قسمتی سے
میں بھی ان دنوں مفکر پاکستان کی شاعری کا ہی مطالعہ کر رہا تھا کہ ان کا
مشہور زمانہ شعر نظروں کے سامنے سے گزرا کہ
کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
پس یہ شعر ہی میرا موضوع بنا اور میں نے اس پر ہی مزید بات کرنے کا فیصلہ
کیا۔
حالانکہ یہ اک عام فہم سا شعر ہے لیکن پھر بھی اگر اسے بیان کیا جائے تو اس
سے مراد ہے کہ آپ صرف حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرو اور ہمیں
خرید لو یعنی کہ رسول خدا سے محبت کرنے کا اتنا مقام و مرتبہ ہے کہ اس سے
دنیا کی قیمتی ترین چیزیں خریدی جا سکتی ہیں بلکہ یہ دنیا کیا چیز ہے جب آپ
اس عمل سے جنت حاصل کر سکتے ہو۔ دوسرے مصرے میں 'لوح' سے مراد وہ تختی ہے
کہ جس پر آپ کا مقدر درج ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
محبت کرنے کا آپ کو یہاں تک صلہ مل سکتا ہے کہ آپ کی قسمت والا وہ پرچہ آپ
کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا اور آپ ہی کو قلم بھی دے دیا جائے گا۔ پھر
کہا جائے گا کہ اس پر لکھو کہ جو بھی آپ چاہتے ہو اور یہ جہاں کیا چیز رہ
جائے گی کہ جب اس سے آگے کے جہان بھی آپ کی دسترس میں آجائیں گے۔ الغرض صرف
حضور نبی کریم ص سے وفا آپ کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت دیتی ہے
اور کامیابی بھی وہ کہ جسے آپ خود اپنی مرضی سے لکھ سکو۔
اس شعر کا دارومدار حضور نبی کریم ص سے وفا پر ہے کہ اگر آپ یہ کام کر لو
تو آپ بہترین بن سکتے ہو تو آئے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وفا کے معنی کیا ہیں
اور ہم کس طرح سے کسی کے ساتھ وفا کر سکتے ہیں۔ وفا لفظ کو اگر دیکھا جائے
تو اس کے بہت سے معنی و مفہوم نظر آتے ہیں۔ مثلاَ ُ
ثابت قدمی: یعنی کہ کسی کی حمایت میں پختگی کا مظاہرہ کرنا یا کہ آخری وقت
تک نتائج سے بے نیازہو کر اپنی بات پر قائم رہنا۔
حکم بجالانا: اپنے مالک یا افسر کے حکم کی تعمیل کرنا بھی وفا کی اک قسم
ہے۔
فرائض کی انجام دہی: اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ اگر آپ اپنے ملک پاکستان
سے وفا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ بہترین طریقے سے اپنے فرائض
سرانجام دیں اور خود پر واجب پاکستان کے حقوق ادا کریں۔
عقیدت: یعنی کہ کسی کی غیر موجودگی میں بھی اس سے اتنی ہی محبت کی جائے
جتنا کہ اس کی موجودگی میں اور اس کے لئے جان و مال کی پرواہ بھی نہ کی
جائے۔
ترویج دینا: یعنی کہ کسی کے اچھے کام کو سراہنا اس کے بارے میں لوگوں کو
آگاہ رکھنا، اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنا۔ اس کی مثال آج کی ہماری سیاسی
جماعتیں ہیں کہ اس کے کارکن کس طرح اپنی جماعت سے وفا کرتے ہیں۔
سالمیت قائم رکھنا: یعنی کہ اگر آپ کسی ایسی جگہ پر موجود ہوں کہ آپ کے کسی
دوست یا عزیز کی تزلیل کی جا رہی ہو یا اس کے خلاف کوئی ساذش کی جا رہی ہو۔
آپ کی اس شخص سے وفا یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہاں اس شخص کا بھرپور دفاع کیا
جائے اور وہاں موجود لوگوں کو حقیقت سے آشنا کروایا جائے۔
کام پورا کیا جائے: یعنی کے اگر آپ نے کسی کے ساتھ مل کر کوئی کام کرنے کا
اعادہ کیا لیکن وہ شخص کسی وجہ سے آپ کے ساتھ مزید چلنے سے قاصر ہو گیا تو
اس کام کی تکمیل کرنا بھی وفا ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ بصورت دیگر دھوکہ دہی
سے باز رہا جائے اور اس کام کی تکمیل تک ثابت قدمی سے ساتھ نبھایا جائے۔
مقصد آگے بڑھانا: اس کی سادہ ترین مثال یہ ہے کہ ہر والدین کی یہ خواہش
ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک ہو اور معاشرے کے لئے اسانیاں پیدا کرے کہ جو
ان کے لئے دنیا و آخرت میں عزت و وقار میں اضافہ کرے۔ اب اولاد کا اپنے
والدین سے وفا کرنا یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان کے اس مقصد کو آگے بڑھائیں
اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں۔
یہاں ایک اور بات کہ جس کا بتانا میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ کسی کے
ساتھ بھی وفا کرنے میں ایک اہم جز اس شخص کا مزاج ہوتا ہے ہعنی کہ ایک شخص
کا مزاج ہی بتاتا ہے کہ اس کے ساتھ وفا کرنے کا معیار کیا ہے۔ آپ کسی کو
سمجھے بغیر اس کے ساتھ وفا کا دعوع نہیں کر سکتے۔ مثلاَ وفا بھی ایک تحفے
کی طرح ہے کہ جب تک آپ کو کسی کی پسند یا ناپسند کا علم ہی نہ ہوگا تو آپ
کا تحفہ اس شخص کو کس طرح سے پسند آ سکتا ہے۔
ماں باپ کے ساتھ وفا کا تقاضا یے کہ ان کے حکم کی تعمیل کی جائے، ان کی
خدمت کی جائے اور انھیں اف تک نہ کہا جائے۔ ایک چور کے ساتھ وفا اس طرح سے
ہوگی کہ اس چوری میں آخری وقت تک اس کآ ساتھ دیا جائے۔ غرض کسی کے ساتھ بھی
وفا کرنے سے پہلے اس کا مزاج سمجھنا ضروری عنصر ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ جو
آپ کو پسند ہے دوسرے کی بھی وہی پسند ہو۔
چونکہ بات ہو رہی تھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرنے کی تو
آیئے دیکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج کیسا تھا کہ جس کے
زریعے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرنے کے بارے رہنمائی مل سکتی ہے۔
اگر ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو اس میں
سادگی، صبر، بردباری، رحم دلی، کفایت شعاری، میانہ روی کا عنصر نمایاں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے چند واقعات درج زیل ہیں۔
وہ بڑھیا رات بھر سو نہ سکی اور یہی سوچتی رہی کہ رسول خدا ص کو کس طرح سے
رسوا کیا جائے۔ بالاآخر صبح کے وقت جب وہ اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھی تو
اس کے زہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کوڑے سے بھری ٹوکڑی کو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم پر الٹا دیا جائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آئے گا اور
لوگوں کو آوازیں کسنے کا موقع ملے گا۔ چنانچہ اس نے وہ کوڑا آپ صلی اللہ
علیہ وسلم پر پھینک دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی امیدوں کے
برعکس کوئی ردعمل نہ دیا یہاں تک کہ روزانہ اس کے اس عمل کے دہرانے پر بھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ غصہ نہ کیا بلکہ اپنے رب کے حضور اس کی ہدایت
کے لئے دعا کرتے رہے۔ پھر جب ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی گلی سے گزر
رہے تھے تو روزانہ کے برعکس اس عورت نے کوڑا نہ پھینکا تو اس بات پر خوش
ہونے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیرت کا اظہار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے سوچا کہ ضرور کچھ غیرمعمولی ہوا ہوگا کہ جس کی وجہ سے وہ عورت اپنی
چھت پر موجود نہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دروازے پر دستک
دی اور اندر آنے کی اجازت طلب کی وہ لہجہ ہی کچھ اتنا عاجزانہ تھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دینے سے وہ عورت خود کو روک نہ سکی اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم تشریف لانے کی اجازت دے دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر
تشریف لائے تو پہلے تو وہ عورت آپ کو دیکھ کر پچھتائی کہ اس نے آپ کو کیوں
اندر آنے دیا اور یہ کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سےاس کے تمام گناہوں
کا بدلہ لے کے رہیں گے لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ نہ صرف آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کی بلکہ اس کی صحت یابی کے لئے دعا کی اور اس
کی امداد بھی کی اس پر اس عورت کو سخت شرمندگی ہوئی اور اس نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم سے اپنے گناہوں پر معافی طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ
صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اس کی مکمل صحت یابی تک اس کی مدد کرتے رہے۔
پھر ایک دفعہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا اور
آپصلی اللہ علیہ وسلم کو تحفۃ کچھ انگور پیش کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
پہلے ایک انگور کھایا پھر دوسرا، تیسرا اور دیکھتے ہی دیکھتے انگور کا تمام
گچھا کھا گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور
وہ خوشی سے جھومتا وہاں سے چلا گیا۔ اس شخص کے وہاں سے چلے جانے کے بعد پاس
بیٹھے صحابہرض نے عرض کیا کہ یارسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم آپ خود ہی وہ
تمام انگور کھا گئے اور ہمیں پوچھا بھی نہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
مسکرائے اور فرمایا کہ ' درحقیقت وہ انگور کھٹے تھے اور مجھے ڈر تھا اگر
میں یہ آپ کو دیتا تو آپ لوگ طرح طرح کی شکلیں بناتے کہ جس سے اس شخص کی دل
آزاری ہوتی، تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ میں خود ہی اس طرح سے اس کا شکریہ
ادا کر دوں'۔
ایک دفعہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کسی سفر پر
رواں دواں تھے تو اک پراوّ پر اونٹ کی قربانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک
شخص نے رضاکارانہ طور پر عرض کیا کہ میں اسے زبح کروں گا۔ ایک اور نے کہا
کہ میں اس کا گوشت بناوّں گا۔ ایک نے کہا کہ میں اسے پکاوّں گا۔ ایک اور نے
کہا۔۔۔۔۔۔۔ ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'میں اس کے
لئے لکڑیاں اکٹھا کروں گا'۔ یہ سن کر تمام لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم آپ آرام کیحئے ہم خود ہی سب کام کر لیں گے اور یہ تو
ہمارے لئے اعزاز کی بات ہوگی۔ یہ سن کر آپ صلی اللم علیہ وس نے فرمایا کہ
'مجھے معلوم ہے کہ تم یہ سب خود کرنا چاہتے ہو پر خدا کو یہ پسند نہیں کہ
کوئی خود میں اور دوسروں میں فرق رکھے یا کوئی خود کو اعلی و ارفع سمجھے'۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حصہ کا کام مکمل کیا۔
یہاں اس واقع کا زکر کرنا بھی ضروری سمجھوں گا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم
تبلیغ دین کے سلسلے میں طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے کس طرح آپ
پر ظلم کیا اور اوباش لڑکوں کو اپصلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرنے پر
اکسایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر برسائے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا لہو بہنے لگا۔ پھر جب جبرائیلعہ حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کو سخت سزا دینے کے لئے اجازت طلب کی تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع کر دیا بلکہ ان لوگوں کے لئے ہدایت کی دعا
بھی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ
کیا کر رہے ہیں۔
تعلیم کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں
کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خصوصی رعایت دی کہ اگر ان میں سے جو
کوئی مسلمان بچوں کو تعلیم دے گا اسے آزاد کر دیا جائے گا۔ یہاں یہ امر بھی
قابل زکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ تعلیم مزہبی قید سے ازاد
ہوتی ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر شفقت کرنے سے بھی آپ بخوبی آشنا
ہیں کی کس طرح آپ ان کے ساتھ محبت کرتے، نیا پھل سب سے پہلے کم عمر ترین
بچے کو دیتے، راستے میں کوئی بچہ مل جاتا تو اسے اپنے ساتھ سواری پر نٹھا
لیتے۔ بلکہ بچوں پر شفقت کے بارے آپ ص نے فرمایا کہ جو شخص ہمارے بچوں پر
رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق کی بلند ترین سطح پر تھی اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہّ حسنہ کو اپنانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم
سے وفا ہوگی اور یہی ہمارے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی کا زریعہ بھی ہے۔
قرآن میں ارشاد باری تعالی بھی ہے کہ 'خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو'
یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں کہ جس طرح سے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم اپنے روز مرہ کے معاملات نمٹاتے تھے ہم بھی وہی روش اپنائیں۔
چنانچہ ہمیں چاہِیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو پڑھیں سمجھیں اور
اسی طرح سے آپ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کی جائے کہ جس طرح سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں۔
اب اگر ہم اپنے معاشرتی رویوں کی بات کریں تو ہم بہت سے ایسے کام کرتے ہیں
کہ جن کا وفا یا ثواب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن ہم انھیں بہت گراں قدر
جانتے ہیں۔ میں اس کی وجہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج سے ہماری
لاعلمی کو سمجھتا ہوں۔ ہمیں جو بھی اچھا لگتا ہے ہم وہ عمل شروع کر دیتے یہ
جانے بغیر کہ کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا شامل بھی ہے کہ
نہیں۔ ان میں سے کچھ اعمال کو میں بیان کروں گا۔
سب سے پہلے کہ جس عمل کا زکر میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ جو ہم عید
میلاد کے سلسلے میں لائٹیں لگاتے ہیں۔ میں خود بھی اس عمل میں شامل رہا ہوں
اور افسوس یہ کہ ہم اسے بڑا ہی واجب سا فعل سمجھتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان
جیسے ملک میں کہ جہاں ایک کثیر آبادی پہلے ہی مسلمان ہے یہاں اس عمل کی
کوئی خاص ضرورت نہیں، جہاں آبادی کے ایک بڑے حصہ کو اب بھی بجلی میسر نہیں،
جہاں سرکار کے پاس اتنے وساِئل نہیں کہ بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے شروع
کر سکے، جہاں بجلی اتنی قیمتی ہو وہاں اس طرح سے ہم اس کا بے دریغ استعمال
کس طرح کر سکتے ہیں۔ اور بعض مقامات پر تو ڈائریکٹ بجلی استعمال کی جاتی
ہے۔
پھر باری آتی ہے کیک کے کاٹنے کی میں اس کو بھی وسائل کا غلط استعمال
سمجھتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں بہت حد تک خود نمائی کا
عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ جب ایک شخص کے ساتھ میری اس بارے میں بات ہوئی تو
وہ کہنے لگا کہ اپنے بچہ کی خوشی میں تو آپ یہ سب کام کر لیتے ہو لیکن
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیوں نہیں؟ اسے میں نے جواب دیا کہ وہ ہم
اپنی یا بچے کی خوشی کے لئے کرتے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا
ہے کہ ہمیں اس طرح کی چیزیں اچھی لگتی ہیں لیکن کیا سرکارصلی اللہ علیہ
وسلم کا مزاج ایسا ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ان کو یہ سب کیوں اچھا لگے
گا؟
ہماری قوم تکلفات میں آخری درجہ تک گر چکی ہی ہے۔ پھر یہ کہ صرف اپنی حد تک
نہیں بلکہ اسلام جیسے سادگی پسند مزہب کو بھی انھوں نے تکلفات سے بھر دیا
ہے۔ ہم عید میلاد کے سلسلے میں ایک جشن مناتے ہیں آلِ محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی ولادت کے سلسلے میں بھی تکلفات اور سجاوٹ سے بھرپور جشن کا اہتمام
کرتے ہیں۔ یہاں ایک تاریخی واقع بتاوں گا کہ جب ایک دفعہ حضرت علی علیہ
سلام اپنے قافلے کے ساتھ ایک جنگ کے جا رہے تھے کہ راستے میں ان کا ایک
پراوّ ہوا کہ جہاں ان کے استقبال کے لئے موسیقی اور طرح طرح کے اہتمام کئے
گئے تھے۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت جنگیں اس طرح سے لڑی جای
تھیں کہ اپ اپنے لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے روانہ ہوتے اور میدان جنگ میں
پہنچنے سے پہلے اپ مختلف جگہوں/آبادیوں میں پراوّ کرتے جہاں سے اپ کے ساتھ
مزید جنگجو شامل ہوتے یا آپ کو اپنی ہمایت کا یقین دلواتے۔ چنانچہ جب حضرت
علی نے مزکورہ استقبال دیکھا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ
اگر تم میرا استقبال کرنا ہی چاہتے ہو تو تمہیں چاہِئے کہ زیادہ سے زیادہ
میرے لشکر میں شامل ہو جاوّ اور اپنی ان توانائیوں کو جنگ لڑنے اور جیتنے
کے کئے استعمال کرو۔ تمہارا یہ ناچنا یا موسیقی میرے کچھ کام کی نہیں۔
اور اگر میں اپنی مزید معاشرتی برائیوں کے بارے بات کروں تو میں مزاروں پر
سینکڑوں چادریں چڑھا دیتا ہوں لیکن اس بات سے لاعلم رہتا ہوں کہ کیا غریب
کی بیٹی کے پاس سر کو ڈھانپنے کے لئے بھی چادر ہے کہ نہیں؟ حالانکہ یہ
چادریں، سجاوٹ تکلفات اس مزار میں دفن اس بزرگ کے بھی کسی کام کی نہیں اور
شاید اس کے مزاج میں بھی ان کی کچھ اہمیت نہ ہو۔ پھر میں اس مزار کو عرقِ
گلاب سے غسل دیتا ہوں اس بات سے بےنیاز ہو کر کہ میرے ہی ملک میں تھر کے
نام سے ایک علاقہ ہے ک جہاں لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر نہیں
ہے۔ کیا مجھ پر ان لوگوں کا کچھ حق بھی واجب نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ مسلمان
جسد واحد کی طرح ہیں کہ جب جسم کے کسی ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم
اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ تو کیا ہم واقعی اس جسم کا حصہ ہیں؟ یا کہیں جسم
کا یہ حصہ فالج زدہ تو نہیں؟
الغرض اگر ہم واقعی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرنا چاہتے ہیں تو
ہمیں اپنے روزانہ کے معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا
ہوگی۔ |