نئی تحقیق کو دنیا شہ سرخیوں میں پیش کر رہی ہے۔ تاریخ کے
طلباء کے لئے ہی نہیں بلکہ علوم انسانی سے رغبت رکھنے والوں کے لئے بھی یہ
دلچسپی کا باعث ہے۔ دنیا کے ایک طاقتور ترین جرنیل اور فاتح حکمران سکندر
اعظم (الیگزینڈر دی گریٹ) کا یہ عبرتناک انجام ہوا کہ انہیں کوما کی حالت
میں زندہ دفن کیا گیا اور دنیا بھر کے حکیم ان کے مرض کی تشخیص نہ کر
سکے۔یہ انسان کی بے بسی اور بے ثباتی کا مظہر ہے کہ کبھی دنیا کے تین
براعظموں کے 20لاکھ مربع میل رقبہ پر کنٹرول کرنے والا حکمران بھی اس
کسمپرسی کا شکار ہو گیا۔ارسطو کا یہ شاگرد آخر کار جوان عمری میں مفلوج ہو
کر دنیا سے چل بسا۔ کہتے ہیں کہ یہ انسانوں کا سب سے بڑا خوف ہوسکتا ہے کہ
کسی فرد کو اس وقت مردہ قرار دے دیا جائے جب وہ زندہ ہو اور اتنا بے بس ہو
کہ اس کی تصدیق یا تردید بھی نہ کرسکے اور زندہ ہی دفن ہوجائے۔ ایسا ہی کچھ
انسانی تاریخ کے اس عظیم ترین طلسماتی یا کرشماتی سمجھے گئے فوجی کمانڈر کے
ساتھ ہوا۔2 ہزار سال سے ان کی موت معمہ بنی ہوئی ہے کہ کیا انہیں زہر دیا
گیا؟ بہت زیادہ شراب نوشی ان کے موت کی وجہ بنی؟ یا کسی موذی مرض ملیریا یا
ٹائیفائیڈ کا شکار ہوئے؟۔دو ہزار تین سو سال بعد کیا ان کی موت کی گتھی اب
سلجھ جائے گی یا ابھی مزید کسی ریسرچ میں کوئی نیا انکشاف دنیا کو انگشت
بدنداں کردے گا۔
نئی تحقیق میں خیال پیش کیا گیا ہے جو کہ سب سے بدترین بھی سمجھا جاتا
ہے۔کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کی لاش 6 دن تک گلنا شروع نہیں ہوئی تھی اور
قدیم یونانیوں نے اسے دیوتا ہونے کی نشانی قرار دیا تھا۔مگر نئی تحقیق میں
کہا گیا ہے کہ سکندر ایک ایسے آٹو امیون اعصابی مرض کا شکار ہوئے جس میں
جسم مفلوج ہوجاتا ہے اور مریض دوسروں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہوجاتا
ہے۔سکندر اعظم کا جسم شل ہو گیا، پٹھوں کی حرکت بند ہو گئی، سانسیں رک گئیں۔
ایسا ہی سکندر کے ساتھ ہوا اور ان کے ساتھیوں نے مردہ سمجھ کر 6 دن تک لاش
سڑنے کا انتظار کیا اور اس دوران موت واقع ہوگئی۔موت کی وجہ بخار اور پیٹ
درد بتائی گئی۔ کسی نے یہ نوٹ نہ کیا کہ ان کا دماغ کام کرتا رہا۔
نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سکندر ایک مرض
گیولین بیرے سینڈروم (جی پی ایس) کا شکار ہوئے، جس میں جسمانی مسلز اچانک
کمزور ہوجاتے ہیں کیونکہ جسمانی دفاعی نظام نروس سسٹم کو نقصان پہنچا دیتا
ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس فوجی کمانڈر کی موت کے حوالے سے مختلف خیالات
سامنے آتے ہیں۔356 قبل مسیح میں قدیم یونانی ریاست مقدنیہ میں پیدا ہونے
والے سکندر کو 20 سال کی عمر میں بادشاہت ملی جس کے بعد وہ متعدد ممالک کو
فتح کرنے میں کامیاب ہوئے، جن میں مصر، یونان، انڈیا کے کچھ حصے اور ایران
شامل تھے۔25سال کی عمر میں انھوں نے فارس، شام اور مصر فتح کر لئے تھے۔
سکندر کی موت 323 قبل مسیح میں 32 سال کی عمر میں بابل کے مقام پر ہوئی جو
آج عراق میں شامل ہے۔ایسا کہا جاتا ہے کہ موت سے قبل سکندر کو بخار اور پیٹ
میں درد کا سامنا ہوا اور بہت جلد وہ چلنے پھرنے اور بات کرنے سے قاصر
ہوگئے۔محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے جی بی ایس کے 10 کیسز دیکھے ہیں اور ان
میں دماغ صحیح کام کررہا ہوتا ہے جبکہ باقی جسم مفلوج ہوجاتا ہے، ایسا صرف
اسی مرض میں دیکھنے میں آتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس مرض کا شکار ہونے کے
بعد ممکنہ طور پر سکندر کی نظر دھندلا گئی ہوگی جبکہ بلڈ پریشر اتنا کم
ہوگیا ہوگا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوما کا شکار ہوگئے ہوں، مگر اس بات کا
امکان ہے کہ وہ اپنے ارگرد کے ماحول سے آگاہ ہوں اور لوگوں کی آوازیں سن
رہے ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی جانشینی پر اپنے جنرلوں کو لڑتے
ہوئے سنا ہو، مصری کاریگروں کی آمد کو سنا ہو اور حنوط کرنے کے عمل کے آغاز
کو محسوس کیا ہو۔اس عہد میں موت کے اعلان کے لیے سانس کی بجائے نبض پر
انحصار کیا جاتا تھا اور اگر سکندر کا جسم مفلوج ہوگا تو سانس بہت مدھم
ہوگئی ہوگی جبکہ جسم کو درجہ حرارت برقرار رکھنے میں جدوجہد کا سامنا ہوگا،
آنکھوں کی پتلیاں ایک جگہ ٹھہر چکی ہوں گی۔سکندر کا جسم مرنے کے بعد گلنا
شروع نہیں ہوا جو کہ کوئی کرشمہ نہیں بس اس سادہ امر کی نشانی ہے کہ ان کی
موت واقع نہیں ہوئی تھی۔محققین کا کہنا تھا کہ جی بی ایس کی تشخیص سے سکندر
اعظم کی موت کے حوالے سے متعدد امور کی وضاحت ہوجاتی ہے۔اگر یہ خیال ثابت
ہوا تو یہ تاریخ کی ایک مقبول ترین شخصیت کے عبرتناک انجام کا عندیہ بھی
ثابت ہوگا۔
یہ تحقیق نیوزی لینڈ کے ایک ریسرچ جریدے ’’دی انشنٹ ہسٹری بلیٹن‘‘ میں شائع
ہوئی ہے ۔ ڈونڈین سکول آف میڈیسن کی ڈاکٹر کیتھرائن ہال کی سربراہی میں
محققین نے ریسرچ میں بتایا ہے کہ ان کی ٹیم نے سکندر اعظم بڑے پیمانے میں
تحقیق کی۔ سکندر کی علالت شراب نوشی کی کثرت کے بعد شروع ہوئی۔ اس کے بعد
تیز بخار کا غلبہ ہوا۔ اسی کے ساتھ ہی جسم ساکت ہو گیا۔ فالج کے دورے پڑے۔
صرف آنکھیں ہی ٹمٹما سکتے تھے۔ 11دن بعد اسے مردہ قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر ہال
کے مطابق سکندر اعظم کے دماغ مفلوج ہو چکا تھا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب انسان
کی قوت مدافعت اعصابی نظام پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ یہ مرض آج امریکہ اور
برطانیہ کے ایک لاکھ افراد میں سے ایک فرد کو متاثر کر رہا ہے۔ ڈاکٹر
کیتھرائن کے مطابق تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکندر اعظم کا دماغ کام کر رہا
تھا اور وہ سانس بھی لے رہے تھے، مگر کوما میں ہونے کی وجہ سے انہیں مردہ
سمجھ لیا گیا۔ جولائی 2018کو ماہرین آچار قدیمہ نے بھی عراق میں سکندر اعظم
کا بسیا شہر دریافت کیا ۔ جس میں دریافت 9فٹ کے تابوت کے بارے میں دعویٰ
کیا گیا کہ یہ سکندر اعظم کا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر یہ راز نہ جان سکے۔ ڈاکٹر
ہال کہتی ہیں کہ اگر ان کی تھیوری درست ہے تو پھر تاریخ نئے سرے سے رقم
کرنا پڑے گی۔ کیوں کہ سکندر اعظم کی موت کی تاریخ ریکارڈ شدہ تاریخ کے 6دن
بعد کی ہے۔ |