ہم نادانوں کو سمجھائیں

چھوٹے بابوؤں کے بعد بڑے بابو بھی بول پڑے ۔وزیرِ اطلاعات ونشریات، وزیرِ قانون اور وزیرِ داخلہ تو پہلے ہی یقین دہانیاں کرا رہے تھے کہ حکومت کا قانون توہینِ رسالت میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں ۔ اب مسٹر وزیرِ عظم بھی تواتر سے یہ فرما رہے ہیں کہ حکومت کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ ان کو احساس ہوچکا ہے کہ اِ س ملک میں ”علماء مشائخ “ نام کی کوئی چیز بھی رہتی ہے اور اس کے بھی کچھ احساسات ہیں ، اس کو منانے اور اعتماد میں لینے کے لیے کانفرنس بھی بلا لی گئی ، قانون توہینِ رسالت کا غلط استعمال روکنے کے لیے علماء کی خدمات حاصل کرنے اور ان سے مشاورت کرنے کی ضرورت بھی محسوس کر لی گئی اور سیکولر حلقوں میں بھی بہت سے شور شرابے کے بعد خاموشی اور سراسیمگی چھا گئی ،مگر اس سب کے باوجود تحریکِ ناموسِ رسالت آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس پر ہمارے دانشوروں کو فکر لاحق ہورہی ہے کہ کہیں ”ملا لوگ “ آئندہ انتخابات کی تیاری تو نہیں کر رہے اور کہیں اس تحریک کو اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے تو استعمال نہیں کرنا چاہتے !

ہمیں حیرت ہے کہ دین سے وابستگی رکھنے والے اور علماء کا احترام کرنے والے چوٹی کے دانشور بھی اِس تحریک کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور علما کرام سے پر زور اپیلیں کر رہے ہیں کہ ناموسِ رسالت کے مقدس عنوان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت کے ذمہ داروں نے وضاحت کر دی ہے کہ قانون انسدادِ توہینِ رسالت کو نہیں چھیڑا جائے گا تو اس احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ مگر یہ سب آوازیں نقار خانہ میں طوطی کی آواز ثابت ہو رہی ہیں اور کراچی کے بعد اب لاہور میں بھی انتہائی شان دار احتجاج ہوچکا ہے جس نے عاصمہ جہانگیر اینڈ کمپنی کے انگور کھٹے کر دیے ہیں اور 20 فروری کو پشاور میں بھی احتجاجی ریلی کی کال دی جاچکی ہے ۔

تحریک جاری رکھنے پر اشکال ظاہر کرنے والے دانشوروں سے التماس ہے کہ وہ صرف منافقت پر مبنی حکومتی بیانات کو ہی نہ دیکھیں ، ایک نظر ان اقدامات اور بیانات کی ہیڈلائنز پر بھی ڈال لیں جو کارکنانِ حکومت نے اس قانون پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کیے ہیں ۔ شیری رحمن کو جانے دیجئے کہ اس نے جو کچھ کہا اور کیا ، وہ اس کا ذاتی فعل ہے ۔ گورنر تاثیر کو بھی رہنے دیجئے کہ وہ اپنے انجام سے دوچار ہوچکے ہیں، اسی طرح مسٹر شہباز بھٹی کے بیانات سے بھی صرفِ نظر کر لیجئے کہ اس نے جو کچھ کہا اور کیا ، وہ محض اپنی برادری کی دل جوئی کے لیے تھا، حکومتی پالیسی سے اس کا تعلق نہیں ۔صرف یہ بتلا دیجئے کہ شہباز بھٹی کی سرکردگی میں کمیٹی بنانے کا حکم کس نے صادر کیا ؟ کیا صدرِ محترم کا یہ اقدام بھی ان کا ذاتی فعل ہے اور حکومتی عزائم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ! وزیرِاعظم گیلانی مسلسل فرما رہے ہیں کہ حکومت نے قانون توہینِ رسالت میں ترمیم کے عنوان سے کوئی کمیٹی سرے سے بنائی ہی نہیں گئی۔ اسی کو کہتے ہیں”عذرِگناہ بدتر از گناہ!“بجائے اس کے کہ اس کمیٹی کی تحلیل اور تعطیل کا فیصلہ صادر کیا جائے ، الٹا یہ کہا جارہا ہے کہ سرے سے ایسی کسی کمیٹی کا وجود ہی نہیں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جب میڈیا کے تقریبا تمام گروپس نے اس کمیٹی کے قیام کی خبر نشر کی تھی تو اس وقت حکومت کی طرف سے کوئی تردید کیوں نہیں آئی تھی؟

اور اب یہ خبر کہ سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزا جو گزشتہ برس صدر زرداری کے حکم پر دسمبر 2010ءتک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی، ایک بار پھر صدر زرداری ہی کے حکم پر 31مارچ2011ءتک کے لیے مؤخر کردی گئی ہے ۔(19جنوری ،روزنامہ جنگ) وزیرِ اعظم گیلانی جواب دیں کہ ان کا صدر یہ سب کیوں اور کس کی ایماء پر کررہا ہے ؟ہمیں اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ذرا پیچھے جانا پڑے گا۔ یہاں تو صرف توہینِ رسالت کی سزا کا معاملہ ہی زیرِ بحث ہے ،جبکہ ہمارے حکمران سرے سے سزائے موت کی بساط ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔نہ رہے گا بانس ،نہ بجے گی بانسری!اور ہمارا یہ خدشہ خودساختہ نہیں ، وہی مسٹر گیلانی جو اَب وضاحتیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے، نومبر 2008ء کو انہوں نے ہی قومی اسمبلی سے کیے گئے اپنے اولین خطاب میں کہا تھا کہ وہ سزائے موت ختم کردیں گے ۔ پھر اسی دوران ہی گزشتہ سال بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر صدر زرداری نے بھی لادینی ایجنڈا رکھنے والی این جی اوز کو خوش کرنے کے لیے اسی عزم کا اظہار کیا تھا اور اسی مقصد سے ہی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزا کو بھی مؤخر کردیا تھا ۔ وزیرِ اعظم گیلانی ہم ”نادانوں“ کو سمجھا دیں کہ اگر ان کی نیتیں واقعی بالکل پاک اور صاف ہیں تو یہ سب کیا ہے ؟نیز ہمارے دانشوروں کو بھی اِس سارے پسِ منظر پر ایک نظر ڈال لینی چاہئے ، امید ہے کہ پھر وہ مذہبی قائدین سے تحریک ناموس ِ رسالت کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔

آخر میں ایک وضاحت کہ گزشتہ مضمون میں ماہنامہ ”لولاک “ کے ایک شمارہ کا تذکرہ کیا گیا تھا ، اس سے بعض قارئین کی دل آزاری ہوئی ہے ۔ ہم ان سے معذرت خواہ ہیں ۔کالم میں لولاک کے جس مضمون کا حوالہ دیا گیا ہے اس کو محض ایک سرسری نگاہ سے ہی دیکھا تھا ۔ اس کی قابلِ اشکال جزئیات اور بعض حلقوں کی اس حوالہ سے باہمی کشمکش مضمون تحریر کرتے وقت ہمارے علم میں نہ تھی۔ قارئین کے توجہ دلانے کے بعد اس مضمون کے حوالہ سے ہم اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہیں۔
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 46810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.