کشمیر کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ شاید کچھ بھی نہیں!
ہمارے درمیان ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم حد سے زیادہ جذباتی ہیں،
جذبات کی شدت میں ہوش کھو بیٹھنا دشمنوں کو ہمیشہ فائدہ پہنچاتا آیا ہے۔
ہمیں ابھی تک عالمی معاشرے میں جینا نہیں آیا اور یہ سب ہمیں سیکھنے کی اشد
ضرورت ہے۔ وقت ہم سے آگے نکل رہا ہے اور ہم بہت بنا بڑھے منزل کا تعین کرنا
چاہتے ہیں۔ لیکن منزل ایسے نہیں ملتی۔ہمارے معاشرے میں یہ بات یقینی ہے کہ
حمام کا گرم ہونا اس لئے نہیں کہ وہاں غسل کو پانی گرم ملتا ہے بلکہ اس لئے
گرم ہے کیوں کہ وہاں محلے کے چند اوباش بوڑھے اپنے تبصروں سے حمام کا ماحول
گرم رکھتے ہیں ۔ ان بوڑھوں کو اوباش اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ نہ تو گھر کے
کسی کام کے رہ گئے ہیں اور نہ ہی معاشرے میں ان کا کوئی شمار ہے کیونکہ ان
کی زندگی کا سیانا پن اب صرف حمام کو گرمانے کے کام آتا ہے۔ زہے افسوس کہ
زبان کی بجائے عقل و خرد کو تقویت ملتی تو آج ہم کسی مقام پر ہوتے۔قلم کار
اور شعلہ بیان بھی بہت مل جاتے ہیں، گھروں میں ذمے داریوں سے بھاگنے والے
بچے یا تو سیاستدان بن جا تے ہیں یا سماجی شخصیات اور ان کے ہاتھوں میں قوم
کی تقدیر تھما دی جاتی ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں کی ذمہ داریاں نبھانا نہیں
جانتے وہ ملت کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟ سوچنے کی بات ہے! جیسے ہمارے ملک میں
کشمیر کمیٹی منظم کی گئی ہے جس کے کئی ارکان و عہدیداران ہیں ، وہ حکومتی
خزانے سے تنخواہیں وصو ل کرتے ہیں لیکن وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ انہیں یہ
ذمہ داری کیوں سونپی گئی ہے؟ کیا فائدہ ایسے حلف ناموں کا اور ایسی ذمہ
داریوں کا ، اس کشمیر کمیٹی کا جو شعلہ بیان ہجڑوں کے سپرد کر دی گئی ہو؟
آزادی کے بعد آج پاکستان میں تیسری نسل پروان چڑنے کو ہے اور وہ بھی اس جوش
و جذبے اور احساس کے ساتھ بڑی ہوئی ہے کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے! کاش ہمیں
اس بات کا احساس ہو جائے کہ ہماری شہہ رگ آج تک دشمن کے شکنجے میں ہے،
مگرہم آزادی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ جب ہم رہنا ہی خیالی دنیا میں
چاہتے ہیں تو حقیقت ہم پر عیاں کیسے ہو گی؟ حقیقت سے آشنائی بہت ضروری ہے ،
پہلے ہمیں اس حقیقت سے آشنا ہونا ہو گا کہ جس آزادی کیلئے ہم خوشیاں مناتے
ہیں وہ کتنی تلخ اور درد ناک ہے، اس کے بعد یہ بھی سچ ہضم کرنا ہوگا کہ
کشمیر یا تو ہماری شہہ رگ نہیں ہے اور اگر اس طرح میں اپنے قائد اعظمؒ کا
انکار کر رہا ہوں تو پھر میں یہ بھی کہوں گا کہہماری شہہ رگ دشمن کے ہاتھ
میں ہو تو تم کیسے خود کو آزاد جان سکتے ہو۔ اگر میری بات پھر بھی نہیں
سمجھے تو میں عیاں کرتا ہوں کہ کشمیر ہماری شہہ رگ کیسے ہے؟ پانی زندگی
کیلئے ایک لازمی عنصر ہے اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ، پاکستان کو سیراب
کرنے والے تمام دریا کشمیر سے ہو کر آتے ہیں ، جن پر بھارت کا قبضہ ہے ۔جو
ہمارا پانی بند کر کے ہم پر ایک طرح کی مرضی چلا رہا ہے ! ستر سالوں سے
آزادی کا دن مناتے مناتے اب بوڑھے تھک چکے ہیں اور نئی نسلیں نہ تو آزادی
کا مطلب جانتی ہے اور نہ ہی آزادی کی اہمیت کو ! یہ لبرل ازم اور کمیونزم
کے کیچڑ میں لتھڑ کر بس بدبودار رہنا چاہتی ہیں ۔ یہ دیکھ رہے ہیں مگر سبق
نہیں سیکھتے کہ روز نوجوان شہید ہو رہے ہیں مگر آزادی کی امنگ نہ تو سرد پڑ
رہی ہے اور نہ ہی ان کے حوصلے پست ہو پائے ہیں ! ہاں مگر دشمن ضرور گھبرا
چکا ہے، آؤ نوجوانوں میں آپ کو بتاؤں کہ عالمی اداروں کی رپورٹس کیا کہتی
ہیں! وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں ہر تیسرے روز ایک بھارتی فوجی خودکشی کرتا
ہے اور یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ 2007 سے جاری ہے۔ کئی بھارتی فوجی جب
کشمیر میں تعینات کئے جاتے ہیں تو وہ بغاوت کر جاتے ہیں ، کتنے ہی ملازمت
چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ، لیکن اگر کوئی آج بھی کھڑا ہے تو وہ صرف حق ہے۔
آزادی کے دہکتے شرارے ظلم وجبر سے سرد پڑ جانے کی بجائے آگ بن کر دشمنوں پر
برس رہے ہیں ، ہر قربانی ، ہر شہادت ایک نیا انقلاب لے کر ابھرتی ہے ۔ آج
وہ لوگ جو آزادی کیلئے لڑنے والے کشمیریوں سے نفرت کرتے تھے ، انہیں شدت
پسند کہتے تھے مان چکے ہیں کہ واقعی آزادی کشمیریوں کا حق ہے۔
بھارتی حکومت اقوام متحدہ میں واویلا کرتی ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں گڈ
گورننس اور امن و امان کے قیام کیلئے شدت پسندوں کے خلاف دہشتگردی کی جنگ
لڑ رہے ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ ریاست میں موجود دہشتگرد
پاکستانی ہیں! میرا سوال ہے اقوامِ متحدہ سے کہ اگر پاکستان نے وہاں اپنے
جوان بھیج کر جنگ کرنی ہوتی تو کیا ہمیں اسلحہ اور بارود اور عسکری سازو
سامان کی کمی ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ پاکستان تو مذاکرات کے ذریعے ہمیشہ سے
خطے میں قیام امن کیلئے کوشاں ہے۔ کرتار پور راہداری ، افغانستان میں امن
قائم کرنے کیلئے طالبان سے مذاکرات اور فاٹا کے مکینوں کو ان کے بنیادی حق
دلانے کیلئے قربانیاں پیش کرنا ، پاکستان نے دہشتگردی کی وہ جنگ لڑی ہے جو
کبھی پاکستان کی تھی ہی نہیں تو کیا آج بھی اقوام متحدہ کو اس پر تحفظات
باقی ہیں جب ہم بھارت کو بارہا مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور وہ دم دبا کر
بھاگ جاتا ہے؟! بلکہ بھارتی سیاست کا ہیچ پن تو یہ ہے کہ ان کی حکومتیں اس
نعرے کے بغیر بننا ہی ممکن نہیں کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و جبر کریں گے۔
بھارت کشمیر میں دعوے کرتا ہے کہ ہم کشمیری مسلمانوں کو ضروریات زندگی میں
بھارت سے زیادہ رعائت دیتے ہیں، انہیں مذہبی آزادی دے رہے ہیں ، انہیں
تعلیم دے رہے ہیں مگر سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ ساری دنیا کی
آنکھوں نے دیکھا ہے ، اقوام عالم میں کشمیری مسلمانوں کے صبر و استقامت اور
استقلال کی دھوم مچی ہے کہ ظالم کے اگر ہتھیار کم نہیں پڑ رہے تو کشمیری
مسلمانوں کے نا تو سینے کم پڑے اور نہ ہی ماؤں کے بیٹے کم ہوئے۔ اقوام عالم
دیکھتی ہے کہ کیونکر پی ایچ ڈی ڈگریوں کے حامل کشمیری نوجوان ، اساتذہ آج
ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں ؟ وہ جان چکے ہیں کہ آزادی جیسی نعمت کے مقابلے
میں زندگی کی نعمت بہت چھوٹی ہے۔ جہاد جیسی نیکی کے سامنے باقی سب عبادتیں
اور نیکیاں حقیر ہیں !آخر وہ کونسا عنصر ہے جو تحریک آزادی کشمیر کو تھمنے
نہیں دیتا ! اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ ہے تو بھارتی ریاست
انہیں انسانی حقوق باہم پہنچانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اور اب اسے چاہئے کہ
وہ کشمیر کو آزاد ریاست تسلیم کر لے۔
اگر آپ کے دل میں یہ خواہش ہے کہ کشمیر آزاد ہو تو یہ بات گھر میں بیٹھ کر
سوچنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔ اس وقت کشمیر کی جد و جہد آزادی بہت سنگین
صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ اگر آپ ان کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم
بہت زیادہ تعداد میں انسانوں کے سمندر کی شکل میں باہر نکلیں ۔ کشمیری
بھائی کسی کے دباؤ میں نہیں آ رہے ۔ وہ اپنے حق کیلئے لڑ رہے ہیں، گولیاں
کھا رہے ہیں، چھرے کھا کر نابینا ہو رہے ہیں لیکن ان کے حوصلے پست نہیں
ہوئے۔ آئے دن ہر گھنٹے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، بچوں کو یتیم ، عورتوں
کو بیوہ ، ماؤں کی کوکھ سونی کی جا رہی ہے لیکن عالمی دنیا میں ان کا احساس
نہیں ہے۔اگر آپ کے دل میں تھوڑی بھی انسانیت باقی ہے تو پوری دنیا میں
کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیجئے ،کیونکہ انہیں آج آپ کی آواز کی
ضرورت ہے ۔ ہمارا کشمیریوں سے رشتہ انسانیت کا ہے ، مسلمانیت کا ہے ۔پچھتر
سال سے کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا اور
ان کے حق میں آواز اٹھانے سے بھارت اور اقوام عالم کو یہ پیغام جائے گا کہ
کشمیری آج بھی اکیلئے نہیں ہیں۔جس قوم کے بچے اپنی تہذیب کو اپنی زندگی کا
حصہ بناتے ہیں وہ کیسے تحریک آزادی کیلئے جان کی پرواہ کریں گے؟کشمیریوں کا
مقصد ہر مسلمان کا مقصد ہونا چاہئے ۔ سوشل میڈیا کو استعمال کریں ، سڑکوں
پر نکلیں ، پر امن احتجاج ریکارڈ کروائیں اور ساری دنیا کو یہ باور کروائیں
کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک قوم ،ایک جسم ،ایک جان ہیں۔ بھارت کے مظالم بے
نقاب ہو چکے ہیں اب فقط بھارتی ظالم ، قابض فوج کا انخلا باقی ہے اور اس
کیلئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی تنظمیں ، عوام الناس، ریاستی ادارے اور
ریاستی نمائندے سب مل کر باالخصوص کشمیر کمیٹی کشمیری بھائیوں بہنوں کیلئے
عملی آواز بلند کریں۔ تم تو آزاد جنے گئے ہو، لیکن آزادی کے متلاشی
کشمیریوں کا دکھ بھی باتوں میں نہیں بلکہ عملی محسوس کرو۔آخر میں تازہ دو
شعر آپ کی نذر:
ظلمتوں کے بادل کو ہوا میں ہی بکھرنا ہے
روشنی کو ہر صورت دھرتی پر اترنا ہے
حوصلے کسی صورت پست ہو نہیں سکتے
بزدلوں یہ وعدہ ہے اب ہمیں نہ ڈرنا ہے |