سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندروں کے نیچے پائے
جانے والے مونگے تیس سال میں ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔تحقیق کے مطابق
سمندر تیزی سے انسانی کارروائیوں سے پیدا ہونے والی اجزاء جذب کر رہے ہیں
جس سے ان میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ
کی مقدار اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو سن اکیس سو تک سمندروں میں اتنی
تیزابیت ہو جائے گی جتنی پچھلے چار سو ملین سال میں نہیں ہوئی۔ ماہرین نے
کہا ہے کہ سمندروں میں گیسوں کے جذب ہونے سے مونگوں کی نشو نما مشکل ہو
جائے گی۔ مونگے اپنا ڈھانچہ اور دیگر سخت حصے نہیں پیدا کر سکیں گے۔جامعہ
کے ماہرین نے بحیرہ احمر میں تحقیق سے معلوم کیا ہے کہ تیس سے ستر سال کے
اندر جذب ہونے والا مادہ مونگوں کے پھلنے پھولنے کی صلاحیت کو متاثر کرنا
شروع کر دے گا۔اگر یہ تحقیق درست ہے تو پھر یہ مونگوں سے اقتصادی فائدہ
حاصل کرنے والے ممالک کے لیے تشویش کی بات ہے۔مونگے بہت سے جزیروں کو
سمندری لہروں سے بچاتے ہیں، دنیا بھر سے سیاح مونگوں کی خوبصورتی سے کھنچے
چلے آتے ہیں اور یہ مچلھیوں کی افزائش کے لیے بھی سود مند ہوتے ہیں۔ دنیا
بھر کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے آبی حیات کی تیرہ ہزار نئی
قسمیں دریافت کی ہیں۔ان میں تقریباً ایک سو نئی مچھلیاں شامل ہیں۔لگ بھگ
ستر ممالک کے سائنس دانوں کے تعاون کے ادارے سنسس آف مرین لائف نے ٹونا اور
شارک جیسی مچھلیوں کے بارے میں نئی معلومات بھی حاصل کی ہیں۔ان نئی قسموں
میں سے زیادہ تر گہرے پانی میں دریافت کی گئیں اور ان میں سے تقریباً نصف
مائکروبز ہیں۔ اس دریافت سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی اور بھی بہت ساری قسموں
کی دریافت ہونے والی ہے۔آبی حیات کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کہتے
ہیں ہمیں معلوم ہے کہ آبی حیات کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ ہمیں یہ علم ہی
نہیں کہ پانیوں کی تہوں میں کس طرح کی حیات ہے۔ تحقیق اور تجزیہ کے مطابق
اگر آپ دو ہزار میٹر گہرے پانی میں مچھلی پکڑ لیں تو اس بات کا امکان پچاس
فیصد بڑھ جاتا ہے کہ ہمیں سمندری حیات کی اس قسم کا پتہ پہلے نہیں تھا۔ایک
اور تحقیق کار ڈاکٹر کرس جرمن نے بتاتے ہیں کہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے
کہ گہرے پانیوں کے نیچے حیات کس طرح کی ہے اور سمندر میں کاربن کو کس طرح
روک لیتی ہے کہ یہ کاربن واپس ہماری جانب نہیں آتا۔ |