تحریر: اشتیاق حجازی
’’اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسجد میں بلایا اور باجماعت نماز
پڑھنے کی توفیق دی‘‘۔ میں نماز میں آج پھر لیٹ پہنچا تھا۔ وضو کرکے مسجد کے
احاطے میں داخل ہوا تو بیان کرتے ایک تبلیغی بھائی کی آواز میرے کانوں میں
پڑی۔پر نجانے کیوں آج پھر اس جملے کو سن کے میں ٹھٹک کر رہ گیا۔ نماز کے
لیے ہاتھ اٹھائے تو سہی، پر ذہن میں وہی جملہ گردش کرنے لگا، ’’اﷲ کا لاکھ
لاکھ شکر ہے اس نے ہمیں باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق دی‘‘۔ لفظ ’’توفیق‘‘
میرے ذہن کی گہرائیوں میں گونجنے لگا۔ ایسا لگا جیسے ماضی کی کوئی یاد اس
لفظ سے جڑی ہو۔
میں نے بمشکل نماز ختم کی، دعا مانگی اور وہیں بیٹھ گیا۔ توفیق کا لفظ ایک
بار پھر میرے ذہن کے پردے پر جگمگانے لگا۔ پھر میرا ہاتھ تھامے، خراماں
خراماں ماضی کی کھڑکی کے پاس لے گیا۔ کھڑی کھولی اور مجھے اس سے جھانکنے پر
مجبور کرنے لگا۔شاید اس وقت میں ساتویں جماعت میں تھا۔ اسکول سے گرمیوں کی
چھٹیاں ہوچکی تھیں اور اٹک کی گرمی اپنے زوروں پر تھی۔ چھٹیوں میں سوائے
نماز کے، باہر نکلنے کی اجازت گھر سے نہ ملتی تھی۔ وہ بھی انہی دنوں کی طرح
ایک دن تھا۔ عصر کی نماز جماعت کے ساتھ ہی پڑھی تھی۔ امام صاحب نے دعا
کروائی، اس کے بعد حسب معمول ایک شخص اٹھا اور تبلیغی بیان شروع کردیا۔
اپنے بیان کا آغاز اس نے ان الفاظ سے کیا، ’’میرے بھائیو، بزرگو، اﷲ کا
لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق دی‘‘۔
ایسا نہیں تھا کہ میں نے یہ جملہ پہلی بار سنا تھا اور ایسا بھی نہیں تھا
کہ یہ جملہ پہلی بار بولا گیا تھا، پر اس دن اس شخص کی بات مجھے عجیب لگی
تھی۔ لفظ ’’توفیق‘‘ مجھے عجیب لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس شخص سے
پوچھنا چاہیے۔
’’یہ توفیق کیا ہوتی ہے انکل‘‘؟ میں نے بیان ختم ہونے کے بعد پوچھا۔ انہوں
نے لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا، ’’بیٹا ابھی آپ چھوٹے ہو، نہیں سمجھ
پاؤ گے، جب ہماری عمر کو پہنچوگے تب اس لفظ کا مطلب سمجھ آجائے گا‘‘۔مجھے
اس جواب نے مطمئن تو نہ کیا، پر اس سے آگے کچھ پوچھنے کی جسارت بھی نہ کر
سکا تھا۔ اس کے بعد میں نے ذہن میں یہ بٹھا لیا کہ یہ لوگ بس رٹا رٹایا
جملہ بول دیتے ہیں۔ انہیں خود بھی اس لفظ کے معنی پتا نہیں ہوتے۔ بھلا
توفیق کیا چیز ہوتی ہے۔ میں تو ویسے بھی پوری نمازیں مسجد میں پڑھتا ہوں۔
وہ ہماری گلی کے شبیر انکل ہیں وہ بھی پوری نمازیں باجماعت پڑھتے ہیں۔ یہ
سب لوگ خود ہی اپنی مرضی سے مسجد آتے ہیں۔ میں بھی صبح اٹھ کے خود اپنی
مرضی سے نماز پڑھتا ہوں، پھر توفیق کی بات کہاں سے آگئی۔ نماز کا وقت ہوتا
ہے تو میں سب کام چھوڑ کر مسجد آ جاتا ہوں۔ قرآن پڑھتا ہوں، درس سنتا ہوں،
ان سب میں تو فیق تو کسی نے نہیں دی مجھے۔ یہ سب تو میں اپنی مرضی سے کرتا
ہوں۔
وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا۔ عمر کی گنتی بڑھتی گئی اور ’’توفیق‘‘ لفظ سے
چڑ برقرار رہی۔ پھر آہستہ آہستہ رحمتوں کی چادر چھٹنے لگی، گناہوں کی دلدل
میں پاؤں دھنسنے لگے، زندگی کے دن، مہینے سال گزرنے لگے اور مصروفیات بڑھنے
لگیں۔ بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم جمائے تو دنیا کی روشنیاں آنکھوں کو
لطف دینے لگیں، معصومیت اور پاکیزگی کی رسیاں ہاتھ سے چھوٹ گئیں اور گناہوں
کی لذت دل چھونے لگی۔پھر اکثر یوں ہوتا کہ اذان کی آواز کانوں سے ٹکراتی تو
ضرور، پر دماغ کے پردے پر نقوش نہ چھوڑ پاتی۔ صبح سویرے آنکھ کھلتی تو
ضرور، پر مسجد کی طرف قدم نہ اٹھتے۔ کئی بار دل بھی کرتا جانے کو لیکن مسجد
کے دروازے سے قدم اندر نہ جا پاتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ٹہلتے ٹہلتے مسجد کے
دروازے پر پہنچ جاتا مگر وہیں سے پلٹ آتا۔ ایسا لگتا جیسے در مقفل ہو گیا
ہو، ایسا لگتا جیسے کوئی ہے جو مجھے باہر دھکیل دیتا ہو۔ آس پاس کے لوگوں
کو مسجد جاتے دیکھ کر حسرت ہونے لگتی۔ یوں لگتا جیسے کچھ خالی ہو گیا ہو،
کوئی تعلق ٹوٹ گیا ہو، کوئی کشش سکل ختم ہو گئی ہو، جو مجھے اپنی طرف
کھینچے رکھتی تھی۔
آج مسجد میں بیٹھے آہستہ آہستہ ایسا ہوا کہ بچپن کی وہ پرانی کتھا سلجھنے
لگی۔ ساتویں جماعت میں انکل سے پوچھے گئے سوال کا جواب مجھے ملنے لگا۔ شائد
انہوں نے ٹھیک کہا تھا، ’’ابھی چھوٹے ہو، بڑے ہو گے تو ’’توفیق‘‘ کو سمجھو
گے‘‘۔ شائد توفیق کو سمجھنے کے لیے کسی ٹھوکر لگنا ضروری ہے۔ پھر اس لفظ کا
مفہوم سمجھ آیا کہ کیوں مسجد کی طرف قدم نہ اٹھتے تھے، کیوں نیکی کا دل نہ
کرتا تھا، کیوں نماز ایک اذیت لگتی تھی۔ بابا صدیق کہتے ہیں، ’’بیٹا اﷲ سے
ہمیشہ نیکی کی توفیق مانگا کرو، اس کے در پہ حاضری کی توفیق بھی اسی سے
مانگا کرو۔ وہ پاس بلانا چاہے تب ہی تم اس کے پاس جا سکتے ہو۔ وہ نہ بلانا
چاہے تو تم لاکھ چاہو تب بھی نہیں جا سکتے‘‘۔میں نے ماضی کی کھلی کھڑکی کو
مقفل کیا اور حال میں واپس آگیا۔پرانے سوالوں کے جواب مل جائیں تو دل ہلکا
ہوجاتا ہے، اور مجھے جواب مل چکا تھا۔میں چپ چاپ اٹھا جوتے پہنے اور مسجد
سے باہر نکل آیا۔
|