مصبیحہ امتیاز
تبدیل ہوتے ز مانے کے ساتھ ساتھ جہاں ہم نے مغربی سوچ، ثقافت ، رہن سہن،
پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ ، اور زندگی گزارنے کا طریقہ جس برق رفتاری سے اپنایا
ہے وہیں ان کے کھانے پینے کے اطوار کو بھی مسلسل اپنا رہے ہیں بلکہ ان سے
کہیں زیادہ آگے نکل گئے ہیں تو یہ کہنا بلکل بجا ہوگا۔
ایک زمانہ تھا لوگ گھروں سے باہر کھانا معیوب سمجھتے تھے اور جو لوگ ہوٹلوں
پر جا کر کھانا کھاتے تھے یا تو ان میں مزدور طبقہ شامل ہوتا تھا یا وہ لوگ
جو یا تو اپنے گھروں سے دور کاروبار کے غرض سے ہوتے تھے یا جن کے گھروں میں
کوئی خا تون یا کُک موجود نہ تھے اور خواتین کا کسی کھانے کے اسٹال یا ہوٹل
پر کھانا تو بلکل اچھا تصور نہیں کیا جاتا تھا ۔
جہاں وقت کے ساتھ ساتھ طرز زندگی میں خا طر خواہ تبدیلی آئی ہے اور لوگوں
میں نت نئے کھانوں کے رحجان متعارف ہوئے ہیں وہیں شہر کے مختلف و متعد
مقامات پر فوڈ سٹریٹ قائم ہوگیئں ہیں۔ جہاں نہ صرف دیسی کھانے موجود ہیں
بلکہ اس کے ساتھ ساتھـ ولایتی کھانے بھی بڑے اہتمام کے ساتھ پیش کیے جاتے
ہیں۔ اور اب گھر سے با ہر کھانا کھانا مجبوری نہیں رہی بلکہ فیشن بن گیا ہے
اور نت نئے کھانوں کا مزہ لینے کا اچھا بہانہ بھی ہے ۔ابتداء میں ان فوڈ
سٹریٹس پر رات کے اوقات میں رونق نظر آتی تھی لیکن اب شہر میں قائم
تقریباََہرایک فوڈسٹرٹ پر ہر وقت اِس طرح کا رش دیکھنے میں آتا ہے کہ گویا
خواتین" اپناکھاناخودگرم کرو "سے زیادہ "اپنا کھاناخود پکاؤ " پر زوردینے
لگیں ہیں اور بے چارے مردوں کو اب پیٹ پوجا کیلئے صرف ان فوڈ سٹریٹ پر
موجود کھانوں کا ہی سہارا ہے۔
حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں فوڈ سٹریٹ کی ابتداء میں نہاری،
قورمہ،لسی،سیخ کباب،اور زیادہ سے زیادہ آئس کریم موجود تھی۔مگر اب یہاں طرح
طرح کے پکوان جیسے شوارمہ،پزا،برگر،پاستا،چکن شاشلک وغیرہ بہت مشہور ہیں
اور لوگ دور دراز علاقوں سے چٹخارے دار کھانے نوش کرنے آتے ہیں۔ نہاری
چونکہ صبح ناشتے میں کھایا جانے والا کھانا تھا لیکن اب تو ہر وقت ہر جگہ
ملتی ہے۔
لطیف آباد نمبر ــ۸ مین روڈ پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں شہر کی بیشتر
فوڈسٹریٹ کے مقابلہ میں زیادہ رونق نظر آتی ہے۔یہاں کی اصل رونق شام کے بعد
شروع ہوتی ہے اور رات گئے تک جاری رہتی ہے۔اور اگر رات کے وقت کوئی مظلوم
موٹر سائکل والایہاں کے لذیذو مزیدار کھانوں کی دلفریب مہک سے بے قرار اپنے
من پسند کھانے سے لطف اندوز ہونے آگیا ہے تو ـ اُسے فوڈسٹریٹ پر موجود
لوگوں کے بے انتہا رش کے باعث ٹریفک کے جال میں پھنسے لوگوں کے آگے نکلو!
جلدی کرو!ارے بھائی آگے پیچھے تودیکھو! کے طنزیہ جملے تو لازمی سننے ہونگے۔
فوڈسٹرٹ پر مختلف دکانوں کے باہر تخت بچھائے گئے تھے جن پر لوگ کھلی فضاء
میں بیٹھ کر اور کچھ چٹورے تو نیم دراز حالت میں سکون سے چٹخاریدار کھانوں
کا لطف بھرپور طریقے سے لے رہے تھے۔جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔کھانے
کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ایک دوسرے پر لفظوں کے تیر برسانااور مستی مزاق
خوشگوار ماحول کی عکاسی کررہا تھا۔وہاں موجود آرائشی روشنیوں کی جگمگاہٹ
بہت بھلی لگ رہی تھی۔جہاں ایک طرف بڑے کھانوں سے محظوظ ہو رہے تھے تو وہیں
بچے اپنے من پسند فلیورکی آئس کریم کا لطف لے رہے تھے اور وہاں نصب جھولوں
میں خوب ہلاگلا اورمستی میں مشغول تھے۔
وہاں موجود ایک صاحب سے گفتگو کی جو اپنی فیملی کے ساتھ گرما گرم مچھلی اور
مصالے دار تِکوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے،اُن کا کہنا تھا یہاں کی مچھلی شہر
کی دوسری جگہوں سے بہت منفرد ذائقہ رکھتی ہے تکوں کے چٹ پٹے ہونے کا اندازہ
اُن کے ساتھ رکھے پارسل بکس سے لگایا جا سکتا تھا جو انہوں نے گھر لے جانے
کیلئے بھی آرڈر کیا تھا۔
فوڈ سٹریٹ میں موجود دکانداروں سے بات کی جس پر انکا کہنا تھا کہ، فوڈ
سٹریٹ کا بڑھتا ہوا رحجان لوگوں میں نت نئے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے
سبب بڑھ رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اِس بڑھتے ہوئے رحجان سے نہ صرف شہر
کی معاشی سرگرمی بڑھی ہے بلکہ یہ ہزاروں افراد کیلئے روزگار کا ذریعہ بھی
بن گیا ہے۔اور اِس بڑھتے رحجان کو مزید ترقی دینے کیلئے امن و امان کو بہتر
بنانا اہم ضرورت ہے۔
اس تمام گفتگو کے بعد میں نے گھر کی جانب رخ کیا تو یہ دیکھ کے حیران رہ
گئی کہ جہاں لوگ گرما گرم کھانے نوش فرما رہے تھے وہیں وہاں سے جانے والے
ہر ایک چٹورے کے ہاتھ میں اُس کے پسندیدہ کھانے کا پارسل لازمی نظر آرہا
تھا۔
توجناب!اس تحریر کو پڑھ کر آپکے منہ میں بھی پانی بھر آیا نہ اور فوڈ سٹریٹ
پر کھانا کھانے کا فیصلہ تو آپ پہلے ہی کر چکے ہونگے۔۔! |