ہزار برس جنگ کریں گے

 کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے علاقے میں پہلی بار ٹی وی آیا جس کی نشریات کئی علاقوں میں نہیں پہنچ پاتی تھیں ۔ہم انہیں بدقسمت لوگوں میں سے تھے کہ جہاں یہ سہولت نہیں پہنچ رہی تھی ،لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری اور ساڑھے چار بجے کا انتظار کرتے اور نشریات کے شروع ہوتے ہی ہم ایک ٹی وی کے پاس دو صحن میں اور دوتین انٹینا لیکر مکان کے چھت پر اس کے اردگرد و صحن کے علاوہ کھیتوں میں دور تک رات گئے نشریات کے اختتام تک مارے مارے پھرتے رہتے ، اوربالآخر ہم نے ایک جگہ نیٹ ورک کے سگنل کو پالیا اور دھندلی ہی سہی مگر تصویر نظرآنا شروع ہوگئی ۔

ہمارے تحریکی مغالطوں کی داستاں بھی کچھ ایسی ہی عجیب ہے کہ اگراتنی سی کوشش کی جائے تو دھندلی سی ہی سہی مگر ہماری تاریخی غلطیوں اور پڑوسیوں کی چیرادستیوں کی تصاویر ہمیں دکھائی دینے لگتی ہیں ۔ ماہ فروری کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ مملکت پاکستان کے گلی کوچوں میں یوم یکجہتی کشمیر کی سدا سنائی دیتی ہے اور جب ہم اس کے پس منظر میں جھانک کراصل تصویر تلاش کرنے جاتے ہیں تو ہمارے سامنے کئی ایک تاریخی سوال بین کرتے نظرآتے ہیں ،کارئین کرام !تقسیم پاکستان کے دوران بھارت نے نوے ہزار پاکستانی فوجی گرفتار کرلئے تھے تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھارت نوے ہزار لوگوں پر روزمرہ اخراجات پر مذید اربوں روپئے پھونکنے کے حق میں نہیں تھا اور وہ اس سے فوری نجات چاہتا تھا ۔دوسری جانب مغربی پاکستان کے حکمران طبقات جو ملک توڑنے کے الزامات کی ضد میں تھے انہیں کسی ایسے اقدم کی اشد ضرورت تھی جو عوام میں ان کا مورال بحال کرنے کا باعث بنے ،ایسے میں بھارت کے شہر شملہ میں مذاکرات کا اہتمام ہوا جہاں ہندوپاک کے درمیاں ایک ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے جس کے تحت بھارت نے مذاکراتی میز پر بھی میدان مارلیا اور نوے ہزار لوگوں کے اخراجات سے نجات حاصل کرلی ساتھ ہی ریجن کے اہم ترین ایشو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پرکسی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر منہ بند رکھنے کی شرط منوا کر ایک بڑی کامیابی حاصل کرلی ،اس کے بعد مملکت پاکستان میں قیدیوں کی واپسی پر جشن کا سماں تھا اور ہر کوئی حکومت وقت کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا لیکن یہ فضا زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اور جلد ہی حکومت پر کشمیر فروختگی کے الزامات لگنے شروع ہوگئے ۔اسی اسناء میں شیخ عبداﷲ کی ایما پر جموں کشمیرنیشنل کانفرنس کا ایک وفدوزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے لئے لاہور آیا کہاجاتا ہے اس وفد کو ملاقات کی اجازت نہ ملی حتیٰ کے وفد کیساتھ غیرپارلیمانی سلوک کیا گیا اور عوامی ردعمل سے مجبور ہوکر وزیراعظم سے ملاقات کروائی گئی جس میں کشمیری قیادت پرواضع کیا گیا کہ’’ شملہ معائدہ‘‘کے بعد وہ کشمیر کاز کے ضمن میں کچھ بھی کرنے سے قاصرہیں لہٰذہ انہیں بھارت سے جو مراعات ملیں ان پر ہی قناعت کی جائے ،جسے کشمیری قیادت نے سنجیدگی سے لیا اورنتیجتا13نومبر1974اندرا عبداﷲ ایکارڈ پردستخط ہوئے اور25فروری1975 کو شیخ عبداﷲ جیل سے وزیراعلی بن کر رہا ہوئے ۔اس کے ردعمل میں اسلام آباد حکومت زیرعتاب آئی ،اور شملہ معائدہ کے بعد کی سیاسی تبدیلیوں پر سخت تنقید کا لامتنائی سلسلہ شروع ہوگیا جس سے بچنے کی خاطر زوالفقار علی بھٹو نے بھارت اور کشمیری قیادت پرالزام عائد کرتے ہوئے5فروری 1975کو ریاست کے دونوں حصوں سمیت پورے پاکستان میں شٹرڈاون ہڑتال کی کال دیدی جو بہت کامیاب رہی اور اسی احتجاج کے دوران بھٹو نے اپنے خطاب میں کشمیرپر ایک ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کری تھی اس کے بعد کی حکومتوں نے اس احتجاج کو منسوخ کر دیا، اس کے بعد 1984محترم مقبول بٹ کی شہادت اور1988میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی مسلح جدوجہد نے تحریک آزادی کے مردہ جسم میں جیسے ایک نئی روح پھونک دی اور پوری دنیا مسئلہ ھٰذہ کی جانب متوجہ ہونے لگی اور منقسم ریاست و دنیا بھر میں گیارہ فروری تزک واہتشام کے ساتھ منایا جانے لگا تحریک آزادی حقیقی معنوں میں قومی جدوجہد آزادی کی شکل اختیار کرنے لگی جو اسلام آباد کو گوارہ نہ ہوا ،انہوں نے اپنی شرطوں پر لبریشن فرنٹ کو کام کرنے پر بے شمار مراعات کی پیشکش کی لیکن قائد تحریک نے صاف انکار کر دیا ،جو انہیں پسند نہ آیا تب اس تحریک کو ہائی جیک کرنے اور لبریشن فرنٹ کے حصے بخرے کنے کا فیصلہ کرلیا گیا انہوں نے بھارتی زیر قبضہ علاقوں میں تربیت یافتہ جہادی گروپ داخل کئے جنہوں نے تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاا ور پاکستانی جہادی تنظیموں کی گارڈ فادر جماعت اسلامی کو زمہ داریاں سونپی گئیں اور اسی دوران جماعت کے امیر قاضی حسین احمد نے 1990میں پھر ایک بار 5فروری یوم یکجہتی کے نام پر احتجاج کی کال دی جسے پنجاب میں ان کے اتحادی اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے کامیاب کروایا اور تب سے یوم مقبول کی مقبولیت کو کم کرنے اور قومی جدوجہد آزادی کی شبھی بدلنے کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ سلسلہ جاری ہے البتہ اس روز کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے اس ایک روز پورے ملک کو بند کر کے پاکستان کے غریب نادار عوام کے اربوں ڈالر ز کا نقصان اور مملکت جموں کشمیر اور پاکستانی عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے ،ہر زی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہے کے اگر پاکستان جموں کشمیر کے عوام سے واقعی یکجہتی کرنا چاہتاہے تو وہ نیلم ویلی روڈ دوبارہ تعمیر کرکے دواکایؤں کے لوگوں کے فاصلے کم کر سکتا تھا پاکستان معائدہ کراچی کے تحت اہلیان جموں کشمیر سے چھینے گئے حقوق و اختیارات انہیں واپس کرنے ،شاہرہ کارگل اور سیز فائرلائن پر کئی ایک مقامات سے کراسنگ پوئنٹ کھلوا نے جیسے بے شمار اقدامات ہیں جو کرکے یکجہتی کا اظہار کرسکتا تھالیکن اسلام آباد آزاد پتن کے پل پر انسانی زنجیر جیسے ڈراموں میں مصروف ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی پالیسی مسئلہ کشمیر کو محض جوں کا توں رکھنے میں ہی اس کا مفاد ہے اور ہزار سال جنگ کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھنا ہے تا کہ ان کی جنگوں کا ایندھن مملکت جموں کشمیر کے لوگ بنتے رہیں اورہماری سرزمین میدان جنگ ، تاکہ مریں تو ہم اور کھیت بنجر ہوں تو ہمارے ۔ اس لئے ہمارے نوجوان کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ کیوں نہ اپنے تحریکی مغالطوں، دوست ودشمنوں میں فرق معلوم کرنے کی کوشش کریں جو کے آج کے دور میں اتنا مشکل بھی نہیں ہے تھوڑی سی کوشش کرنے پر تصویر صاف دکھائی دینے لگتی ہے ۔

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.