بےمہار ادارے

ریاستی امو ر تماشہ بنے ہوئے ہیں۔یہ درست ہے کہ یہ امور کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں کئی ایک ادارے مل کر اپنا اپنا رول نبھائیں تو بات بنتی ہے۔مگر یہاں یہ کلچر نظر نہیں آتا ہر ادارہ من مانی پر اترا ہوا ہے۔من مانی کا یہ طریقہ باہمی عدم تعاون کی وجہ بن رہا ہے۔بجائے یک سوئی اور باہمی تعاون کے ادارے بھان متی کا کنبہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ہانک رہا ہے ۔ہر کوئی اپنا سکہ چلانے کے چکر میں ہے۔ہر ادارے کی طرف سے جتایا جارہا ہے کہ گویا اسی کے دم سے بہار ہے۔اسے کچھ ہواتو سب دھڑن تختہ ہوجائے گا۔باقی سارے بے جا ہیں۔عجب جھوٹی سوچ ہے۔اس چھوٹی سوچ کے سبب ادارے بجائے ریاست کا بوجھ اٹھانے کے خود بوجھ بن رہے ہیں۔ڈس کوارڈینیشن کی انتہا ہے کہ ہر ادارہ خود مختار اور بے مہار بن رہا ہے۔

اداروں کی بے مہاری ریاستی امور کی بجا آوری کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔حکومت پر چہر ے تو بدل رہے ہیں مگر ہر نیا حکمران بھان متی کے اس کنبے کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے ہیں کہ بھان متی کے کنبے کے گن شروع ہوگئے۔کسی ڈیل کی باتیں شروع ہیں۔تحریک انصا ف کے لیے ڈیل کا یہ شور اس کے وجو دکی نفی ثابت ہوسکتاہے۔اس کے وجود کا جواز ہی دنوں بڑی جماعتوں کی نفی ہے۔اگر یہ دونوں جماعتیں ڈیل کرکے احتساب سے بچ جاتی ہیں تو تحریک انصاف کے وجود کے کوئی معنے نہیں رہتے۔ سارا چارم اڑن چھو ہوجائے گا۔اس جماعت کی دوکاندار ی ہی ان دونوں جماعتوں کے خلاف پراپگینڈہ کرنے پر قائم ہے۔لب لباب یہی رہا کہ یہ دونوں جماعتیں چور اوربے ایمان ہیں۔ان کا کردار ایسا نہیں کہ انہیں ایک دن بھی اقتدار میں لایا جایا۔یہ جماعتیں عشروں سے ملک کو لوٹ رہی ہیں۔ان کا حساب ہونا چاہیے۔ملک کو کنگال کرنے میں یہ دونوں جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔سارے مسائل کا حل ان دونوں جماعتوں کو لٹکانا ہے۔انہیں معافی دینا قوم سے غداری کرنے کے برابر ہے۔کچھ اسی طرح کا فلسفہ تحریک انصا ف کا ہے۔اب جب کہ ڈیل کی خبریں آرہی ہیں تو یہ تحریک انصا ف کی سیاسی موت سے کم نہیں۔اگر انہیں ریلیف ہی دینا ہے تو پھر لمبے چوڑے ڈرامے کی کیا ضرورت تھی۔کیوں عدلیہ کو اتنا بدنام کروایا گیا۔کیوں سٹیبلشمنٹ کو تھرڈ ایمپائر کے نام سے بدنامی ملی ۔شیخ رشید ۔فواد چودھری ۔عمران خاں سبھی ڈیل نہ ہونے کا بیان دے رہے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ نہ ڈیل ہوگی نہ ڈھیل دی جائے گی۔جانے کیوں یہ اعلان کرنا پڑرہا ہے ۔بڑی بے تکی بات ہے۔بظاہر ڈیل کے کوئی آثار نظرنہیں آتے تو یہ شور کیوں مچایا جارہاہے۔۔نوازشریف کے پاس اب بچانے کو کچھ نہیں بچا، جیل میں ہیں۔تما م ترذلالت ہوچکی۔حکومت چھن گئی۔الیکشن ہروادیا گیا۔وہ سب کچھ قبول کرچکے۔۔جیل کاٹنے پرآمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔پھر ڈیل کس چیز کے لیے ہورہی ہے۔دوسری طرف والے بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ نوازشریف سے الرجک ٹولہ اب بھی پوری طرح ڈرا ہواہے۔اسے اب بھی نوازشریف اپنے ستر سالہ بے ایمانی اور دھونس کے گھناؤنے کھیل میں واحد رکاوٹ نظر آتی ہے۔وہ کسی طور میاں صاحب کو ریلیف نہیں دینا چاہتا۔ایسے حالات میں حکومتی بڑوں کی جانب سے ڈیل نہ کرنے اور ڈھیل نہ دینے کی باتیں۔دل کی تسلی کو غالب خیال اچھا ہے سے زیادہ کچھ نہیں۔یہ لوگ ڈیل کا اختیار رکھتے ہیں نہ ڈھیل کا ۔انہیں تو اس وقت مطلع کردیا جائے گاجب ڈیل یا ڈھیل کا فیصلہ ہوا۔اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

عجب کنفیوژن ہے ۔ڈیل کی باتیں کوئی کررہا ہے ۔ڈیل کا فیصلہ کہیں اور سے ہوگا۔ڈیل کہیں سے ہوگی اور اعلان کہیں اور سے کیا جائے گا۔عجب عدم تعاون کا ماحول ہے۔کچھ واضح نہیں کہ فیصلے کہاں سے ہورہے ہیں؟بظاہر چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم ہوتاہے مگر اس کے فیصلوں کی جو درگت بن رہی ہے۔وہ اداورں کی بے مہاری اور عدم تعاون کی دلیل ہے۔عمران خاں وزیراعظم ہیں مگر کئی بڑے فیصلے ان کی مرضی کے خلا ہورہے ۔وزیراعظم کے کئی اقدامات کو واپس لینا پڑا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے کچھ فیصلوں براہ راست حکومتی رٹ کی راہ میں رکاوٹ بنے۔حکومت کو ڈی پی او پاک پتن ۔اور آئی جی اسلام آباد کے معاملات پر اپنی مرضی کرنے سے روک دیا گیا۔یوں لگا جیسے دونوں طرف سے اپنا آپ منوانے کی کوئی جنگ چھڑ گئی ہو۔ریاست کو کمزور کرنے والے اس محاز آرائی کے راستے سے احتراز کرنا ہوگا۔یہی رویہ نوازشریف دور میں بھی رہا ۔ملک کا نام نہاد چیف ایگزیکٹو باربارطلبیوں میں رہا۔اسے نااہل قرار دے دیا گیا۔جے آئی ٹی نامی ایک تماشے کے ذریعے رننگ گورنمنٹ کے اعلی ٰ عہدے داراں کی جس طرح تذلیل کی گئی۔اس نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک بنانا سٹیٹ بنائے رکھا۔عجب ماحول تھا۔کچھ پتہ نہیں چلتاتھا کہ ملک کا والی وارث کون ہے۔چیف ایگزیکٹو کون ہے۔کون معاملات چلا رہا ہے کون اصل مالک ۔آج عمران خاں ڈیل اور ڈھیل نہ دیے جانے کا اعلان کررہے ہیں۔مگر وہ بخوبی جانتے ہیں کہ نہ ڈیل ان کے اختیار میں ہے نہ ڈھیل۔آج کے نام نہاد چیف ایگزیکٹو کا مقدر بھی بھی اداروں کی بے مہاری کا شکار ہونے کے سو اکچھ نہیں ۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 2 Articles with 1647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.